یہ پہلی بار نہیں ہے جب بی جے پی رہنماؤں پر سوال اٹھاتی کسی خبر کو نیوز ویب سائٹس نے بنا وجہ بتائے ہٹایا ہے۔
نئی دہلی : بی جے پی صدر امت شاہ جس ضلع کوآپریٹیو بینک کے ڈائریکٹر ہیں، وہاں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے اچانک لئے گئے نوٹ بندی کے فیصلے کے بعد قریب 750 کروڑ روپے جمع کئے گئے تھے۔ یہ خبر جمعرات دیر شام کئی ویب سائٹس پر دکھائی دی لیکن کچھ ہی گھنٹوں بعد نیوز 18، فرسٹ پوسٹ، ٹائمس ناؤ اور نیو انڈین ایکسپریس جیسی ویب سائٹس نے بنا کوئی وجہ بتائے اس خبر کو ہٹا دیا ہے۔
اب تک بھی ان ویب سائٹس کے مدیروں نے اسٹوری ہٹانے کے لئے کوئی وضاحت نہیں دی ہے۔ اس میں سے نیوز 18 اور فرسٹ پوسٹ ویب سائٹ ریلائنس گروپ کے ذریعے جاری نیٹ ورک 18 گروپ کی ہیں۔ اس خبر کے لنک پر کلک کرنے پر ایرر-404 لکھا دکھتا ہے۔
غور طلب ہے کہ خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس نے ممبئی کے ایک آر ٹی آئی کارکن کی عرضی کے جواب میں ملی جانکاری سے انکشاف کیا تھا کہ احمد آباد ضلع کوآپریٹیو بینک (اے ڈی سی بی) نے نوٹ بندی کے شروعاتی 5 دنوں میں 745.59 کروڑ کے ممنوعہ نوٹ جمع کئے گئے۔ واضح ہو کہ 8 نومبر 2016 کو وزیر اعظم مودی نے 500 اور 1000 کے نوٹوں کو بند کرنے کا فیصلہ لیا تھا اور عوام کو بینکوں میں اپنے پاس جمع پرانے نوٹ بدلوانے کے لئے 30 دسمبر 2016 تک یعنی 50 دنوں کی میعاد دی گئی تھی۔
حالانکہ اس فیصلے کے 5 دن بعد یعنی 14 نومبر 2016 کو حکومت کی طرف سے یہ ہدایت دی گئی کہ کسی بھی کوآپریٹیو بینک میں نوٹ نہیں بدلے جائیںگے۔ اس آر ٹی آئی کے جواب میں یہ سامنے آیا ہے کہ احمد آباد ضلع کوآپریٹیو بینک (اے ڈی سی بی) نے انہی 5 دنوں میں 745.59 کروڑ کے ممنوعہ نوٹ جمع کئے۔ احمد آباد ضلع کوآپریٹیو بینک میں نوٹ بندی کے بعد جمع ہوئی یہ رقم کسی بھی کوآپریٹیو بینک میں جمع ہوئی سب سے زیادہ رقم ہے۔ یہ پوری خبر اس لنک پر پڑھی جا سکتی ہے۔
دی وائر کے ذریعے اس خبر کو ویب سائٹ سے ہٹائے جانے کو لےکر مختلف اداروں سے رابطہ کیا گیا۔ نیو انڈین ایکسپریس کے ایڈی ٹوریل ڈائریکٹر پربھو چاؤلا نے یہ معاملہ اخبار کے مدیر جی ایس وسو پر ٹال دیا۔ انہوں نے کہا، ‘ اخبار کے مدیر تمام اداریاتی معاملوں پر آخری فیصلہ لیتے ہیں۔ ‘ دی وائر نے نیوز 18، فرسٹ پوسٹ اور نیو انڈین ایکسپریس کے مدیروں کو بھی سوال بھیجے ہیں، لیکن ابتک کسی کی بھی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔ ان کے جواب آنے پر اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔
غور طلب ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے جب بی جے پی رہنماؤں کی مذمت والی خبروں کو اخبار ویب سائٹس کے ذریعے ہٹایا گیا ہے۔ جولائی 2017 میں ٹائمس آف انڈیا کے احمد آباد ایڈشن میں بی جے پی صدر امت شاہ کی جائیداد میں 5 سالوں میں 300 فیصد اضافہ ہونے کی خبر چھپی تھی۔ لیکن اخبار کی ویب سائٹ کے ذریعے شائع کئے جانے کے کچھ گھنٹوں میں ہی اس کو ہٹا دیا گیا۔
اسی طرح ایک دوسری خبر، جہاں مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے اپنے حلف نامہ میں واضح کیا تھا کہ انہوں نے ابتک بی کام کا کورس پورا نہیں کیا ہے، یہ خبر بھی بغیرکسی وضاحت کے ویب سائٹس سے غائب ہو گئی تھی۔ یہی خبر گزشتہ سال 29 جولائی کو ڈی این اے اخبار کے پرنٹ ایڈیشن اور آؤٹ لک ہندی کی ویب سائٹ پر چھپی تھی، لیکن بعد میں دونوں اداروں کی ویب سائٹ سے بناوجہ بتائے ہٹا دی گئی۔
اسی طرح 14 ستمبر 2017 کو ٹائمس آف انڈیا کے جے پور ایڈیشن کے ذریعے نریندر مودی حکومت کی پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کی تنقید کرتی ہوئی ایک خبر شائع کی گئی تھی، لیکن یہ خبر اخبار کی ویب سائٹ پر اشاعت کے کچھ گھنٹوں بعد ہٹا دی گئی۔ یہاں غور کرنے والی بات ہے کہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان دنیا میں 136ویں مقام پر ہے۔
دلچسپ ہے کہ اس سال ورلڈ پریس فریڈم ڈے پر ٹائمس آف انڈیا اور اکونامک ٹائمس کے ذریعے اس انڈیکس میں ملک کی رینکنگ گرنے کو لےکر ایک رپورٹ ہٹا دی گئی تھی۔ جب ویب سائٹ نیوزلانڈری کے ذریعے اس بارے میں ٹائمس آف انڈیا کی ویب سائٹ کے مدیر پرساد سانیال سے رابطہ کیا گیا تب کہا گیا کہ یہ میڈیا اداروں کے خصوصی اختیارات کے تحت آتا ہے۔
Categories: خبریں