کانگریس کے لئے لازم ہے کہ دیگر پارٹیوں کے ساتھ معاملات میں وضع داری کا مظاہرہ کرے اور تدبر سے کام لے ورنہ کیجریوال کے ساتھ اس نے جو سلوک کیا وہ مستقبل میں کیجریوال سے زیادہ خود کانگریس کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
اروند کیجریوال کے دھرنے سے اُنہیں کیا حاصل ہوا اور کیا نہیں اس بارے میں تجزیہ نگاروں کی آراء میں فرق ہو سکتا ہے مگر جس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی وہ یہ کہ اس سے اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد جو کہ ابھی بننا شروع ہی ہوا ہے اور جس کے خد و خال ابھی سامنے نہیں آسکے ہیں بُری طرح متاثر ہوا ہے۔گو کہ ممتا بنرجی اور اپوزیشن کے دیگر تین وزرائے اعلیٰ پنارائی وِجین، چندرا بابو نائیڈو اور ایچ ڈی کماراسوامی نے کیجریوال کی حمایت میں کھڑے ہو کر معاملے کو بچانے کی کوشش ضرور کی مگر کانگریس کے رویہ سے جو دراڑ پڑی ہے اس کا اثر کافی دنوں تک رہے گا۔
کیجریوال کے دھرنے پر بیٹھنے سے پہلے یہ خبر آرہی تھی کہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی میں2019 کے عام انتخابات کے لئے سیٹ شیئرنگ کے سلسلے میں بات چل رہی ہے جس کے تحت دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے لئے دہلی اور پنجاب میں نشستیں چھوڑیں گی۔سیٹ شیئرنگ کا سمجھوتہ کسی بھی پارٹی کے لئے آسان نہیں ہوتا۔مقامی لیڈرشپ کو اس کے لئے آمادہ کرنا ایک بڑا مرحلہ ہوتا ہے۔عآپ کی وجہ سے کانگریس کو دہلی میں زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس کا ایک بھی رکن اسمبلی تک نہیں پہنچ پایا۔
پنجاب میں بھی عآپ نے کانگریس کے لئے مشکلات کھڑی کیں۔اگر بی جے پی نے کانگریس کی درپردہ مدد نہ کی ہوتی تو وہاں کانگریس کے لئے اپنے دم پر حکومت بنانا ممکن نہ ہوتا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دہلی میں کانگریس تقریباً ختم ہو چکی ہے۔چنانچہ کانگریس کے ذریعہ دھرنے کی حمایت نہ کرنا اور کانگریس کی دہلی یونٹ کی طرف سے کیجریوال کی تنقید اور ہلکی پھُلکی بیان بازی ایک فطری امر تھا۔مگر اجئے ماکن اور ان کے حواریوں نے کیجریوال کے لئے جو زبان استعمال کی اور جس نہج پر جاکر دھرنے کی مخالفت کی وہ وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئےغیر دانشمندانہ تھا۔اس نے اپوزیشن اتحاد کو نقصان ہی نہیں پہنچایا بی جے پی کے ہاتھ بھی مضبوط کئے۔
دہلی کے لیفٹننٹ گورنر انل بیجل نے مرکز کے اشارے پر جس طرح ایک منتخب شدہ حکومت کا ناطقہ بند کر رکھا ہے وہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہو سکتا۔دہلی پولیس مرکزی وزارت داخلہ کے تحت ہے جس کی وجہ سے کیجریوال سرکار کے ہاتھ ویسے ہی بندھے ہوئےہیں۔اب مرکز نے پرمننٹ ایگزیکٹو کو پولیٹیکل ایگزیکٹو جو کہ قانون کے مطابق اصل حاکم ہے سے بھِڑا دیا ہے اور تماشہ دیکھ رہی ہے۔آئی اے ایس آفیسرز نے کیجریوال اور ان کے کابینی رفقاء کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے اس کی ہمت وہ کسی اور ریاست میں نہیں کر سکتے، خاص طور پر بی جے پی کے تحت چلنے والی کسی ریاست میں۔
یہ ایسا مسئلہ ہے جو آگے چل کر خود کانگریس کی ریاستی سرکاروں کو پیش آ سکتا ہے۔پوڈوچیری میں لیفٹننٹ گورنر کرن بیدی وہاں کی کانگریسی حکومت کو پریشان کر ہی رہی ہیں۔دہلی کے تجربے کے بعد اب مرکز اس کا اطلاق پوڈوچیری میں بھی کر سکتی ہے اور دیگر ریاستوں میں بھی۔ یہ ایسا حساس معاملہ ہے جو وفاقیت کے حوالے سے ملک کی سالمیت سے جڑا ہے۔لہٰذا اپوزیشن پارٹیوں، خصوصاً کانگریس کے لئے یہ وقت مرکز کی نریندر مودی حکومت کو گھیرنے کا تھا نہ کہ مقامی طور ایک چھوٹا سا فائدہ دیکھنے کا۔ کیجریوال اور اُن کی حکومت پر تنقید کے بہت سارے موقعے ہیں اور آئندہ بھی آئیں گے۔کانگریس نے اُن کے خلاف محاذ کھڑا کر کے جس میں راہل گاندھی کو بھی آگے کیا گیا نہ صرف اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا بلکہ بی جے پی مخالف اتحاد کو زبردست جھٹکا دیا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ کانگریس نے یہ کام کرناٹک تجربے کے بعد کیا اور گورکھپور، پھولپور اور اب کیرانہ میں اپوزیشن اتحاد کا کرشمہ دیکھنے کے باوجود کیا۔
سیاست میں نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے نہ دشمن۔سارے فیصلے وقت اور حالات کے مطابق کئے جاتے ہیں۔اس لئے امید کرنی چاہیے کہ کیجریوال اور کانگریس کے بیچ جو تلخیاں پیدا ہوئی ہیں اُن کا اثر آئندہ کی حکمت عملی پر نہیں پڑے گا۔کیونکہ اپوزیشن کا متحد ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ملک کو فاشسٹ اور فرقہ پرست طاقتوں سے نجات چاہئے۔اس کے لئے ایسی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنا پڑے گا جو آئین کی بالادستی میں یقین رکھتی ہوں اور وفاقیت کا احترم کرتی ہوں۔نریندر مودی کا جادو 2019میں بھی چلے گا اس بارے میں زبردست شبہ پایا جاتا ہے۔
مئی میں ہوئےضمنی انتخابات کے نتائج کم از کم یہی اشارہ دے رہے ہیں کہ 2014 کو دہرانا بی جے پی کے لئے ممکن نہیں۔غالب امکان یہ ہے کہ عام انتخابات میں کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملے گی۔ویسے بھی کارپوریٹ فنڈنگ، میڈیا مینجمنٹ اور مودی کی امیج بلڈنگ کے باوجود بی جے پی صرف 31 فی صد ووٹ ہی حاصل کر پائی تھی۔69 فی صد ووٹ2014 میں بھی بی جے پی کے خلاف تھے۔ایسے میں اگر غیربی جے پی پارٹیاں پہلے سے آپس میں سمجھوتہ کر لیں تو سیکولر ووٹ کے بٹوارے اور بربادی کا خطرہ ٹالا جا سکتا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کے اپوزیشن کے تقریباً تمام ہی لیڈران اتحاد کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔کرناٹک کے وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کماراسوامی کی حلف برداری کے موقعے پر ممتا، مایا، اکھلیش اور راہل گاندھی وغیرہ کے علاوہ بایاں محاذ کے لیڈران نے ایک جگہ جمع ہو کر ایک نئے فرنٹ کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ کانگریس پارٹی بھی، باوجود اپنی خودسری کے، اس طرف مائل نظر آتی ہے۔آثار ہیں کہ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان اسمبلی انتخابات جو کہ نومبر میں متوقع ہیں میں کانگریس مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ مل کر لڑنے والی ہے۔
ابھی سیٹ شیئرنگ کی باتیں جاری ہیں۔امید کی جانی چاہیے کہ کانگریس وہ غلطی جو اس نے کرناٹک میں کی تھی اس بار نہیں دوہرائے گی جب اس نے جنتا دل سیکولر کے ذریعہ انتخابی سمجھوتہ کی پیش کش کو اس خوش فہمی میں میں ٹھکرا دیا تھا کہ وہ اپنے بل پر الیکشن جیت جائے گی۔بعد میں اُسی پارٹی کو حمایت دے کر اُس کی سرکار بنوانا کانگریس کی مجبوری ہو گئی۔اس بار معاملات مایاوتی سے طے کرنے ہیں جس کی کامیابی یا ناکامی کے اثرات 2019 کے عام انتخابات پر پڑیں گے۔بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا براہ راست فائدہ کانگریس کو ہوگا۔
اپوزیشن کی تقریباً تمام ہی پارٹیاں بشمول بایاں محاذ کی پارٹیوں کے علاقائی نوعیت کی ہیں۔سب کی پہنچ مخصوص علاقوں تک محدود ہے۔قومی سطح پر آج بھی کانگریس اکیلی پارٹی ہے جو بہار اور اتر پردیش کو چھوڑ کر ہر جگہ اپنا بھرپور اثر رکھتی ہے۔اس لئے اپوزیشن کے ذریعہ قائم ہونے والے کسی بھی اتحاد میں اس کی کلیدی حیثیت ہوگی۔ایسے میں کانگریس کے لئے لازم ہے کہ دیگر پارٹیوں کے ساتھ معاملات میں وضع داری کا مظاہرہ کرے اور تدبر سے کام لے ورنہ کیجریوال کے ساتھ اس نے جو سلوک کیا وہ مستقبل میں کیجریوال سے زیادہ خود کانگریس کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
Categories: فکر و نظر