چین اور جنوب ایشیائی ممالک کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے پیشِ نظر اردو زبان کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے مستقبل میں ملازمت کے مواقع ہیں ۔
گزشتہ روز میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے بیجنگ گیا ہوا تھا ۔اس کانفرنس کا انعقاد بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی میں فرانسیسی شعبے کے تعاون سے کیا گیا تھا ۔ کانفرنس زبان کے ثقافتی پہلوؤں سے متعلق تھا ۔ مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہاں پر ایک اُردو شعبہ بھی ہے جو کہ 2007 میں قائم کیا گیا تھا ۔ دراصل بیجنگ جانے سے پہلے ہی میرے ایک سوشو لینگویسٹ کے رفیق کار نے مجھے اُردو کے اساتذہ سے ای میل کے ذریعےمتعارف کروا دیا تھا ۔
اردو شعبہ سکول آف ایشین اینڈ افریقن اسٹڈیز میں واقع ہے ،اور اس شعبے کی سربراہ محترمہ ژو یوان ہیں جن کا اُردو میں نام نسرین ہے ان کے ساتھ ان کی رفیق کار یان یوانگ بھی ہیں جن کا اردو نام شبنم ہے ۔بیجنگ میں اردودو جگہ پڑھائی جاتی ہے ۔ایک تو بیجنگ یونیورسٹی میں جہاں اردو کا شعبہ 1954 میں کھولا گیا تھا ۔ وہاں پر تین اردو کی پوسٹیں ہیں ۔ میرا وہاں جانا نہیں ہو سکا ۔ دوسری جگہ بیجنگ فارین اسٹڈیز یونیورسٹی (BFSU) میں بھی اردو کی تین پوسٹیں ہیں۔جن میں دو پر نسرین اور شبنم ہیں تیسری پوسٹ ابھی خالی ہے،اور عارضی طور پر اس پر ایک پاکستانی ٹیچر ہے ۔
شبنم کے مطابق چین میں اردو کے تقریباً 9 ڈپارٹمنٹ ہیں لیکن دیکھا جائے تو صرف 4 جگہ اردو پڑھائی جا رہی ہے ۔ جس میں سے دو شعبے اردو بیجنگ میں ہیں ۔ دو کیمپس چیان اور گوانگ ژو شہر میں بھی کھولے گئے ہیں ۔بیجنگ فارین اسٹڈیز یونیورسٹی میں اردو پڑھنے والوں کی تعداد 20 طالب علموں پر مشتمل ہے ۔اور ان کی بیچلر ز ڈگری 4 سال میں مکمل ہوتی ہے ۔ ہر چار سال بعد پھر 20 شاگردوں کے بیچ کا ایڈمیشن ہوتا ہے ۔ بقول نسرین کے شعبہ اردو کے بیشتر طالب علموں کو غیر ملکی زبانیں سیکھنے کا شوق تھا ۔
ہائی اسکول سے پاس ہونے کے بعد 98 غیر ملکی زبانوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ذرا مشکل تھا ۔لیکن ان سب کا دل اردو کی طرف مائل تھا ۔ جس کی کئی وجوہات ہیں ۔ سب سے پہلے تو چین اور جنوب ایشیائی ممالک کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے پیشِ نظر اردو زبان کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے مستقبل میں ملازمت کے مواقع ہیں ۔ اس کے علاوہ چین اور پاکستان کے درمیان دوستی اورہندوستانی کی ثقافتی دلکشی بھی طالب علموں کے اردو منتخب کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ Nihao-Salamنامی ایک پبلک ڈپلومیسی ای میگزین کے مطابق چین میں لوگ اردو کی طرف اس لیے بھی راغب ہورہے ہیں کہ چین پاکستان اکانومک کاریڈور جیسے ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے آنے کی وجہ سے چینی طلبا کو یہ لگتا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں ان کے لیے روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے۔
چین میں اُردو کے استادوں کی کمی ہے ۔ چھوٹی اور کم بولی جانے والی زبانیں بین الاقوامی طور پر اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہیں ۔ جس طرح سے فرانس میں اردو کا کافی اسکوپ ہے ۔ویسے ہی چین میں بھی اس کی مانگ بڑھانے کے لیے اعلیٰ تعلیمی ادارے کی ضرورت ہے ۔اردو کا اسکوپ بہت ساری پرائیویٹ کمپنیز میں مترجم کے طور پر ہے ۔ وقت کے ساتھ ریڈیو اور میڈیا میں بھی اس کی مانگ لگاتار بڑھ رہی ہے ۔ نسرین کے مطابق پڑھائی کے علاوہ بہت ساری ثقافتی سرگرمیاں بھی یونیورسٹی میں منعقد کی جاتی ہیں ۔
خوش خطی ، تقریری مقابلہ یا انڈیا کی فلم کے ذریعے اردو زبان کی طرف رجحان بڑھایا جاتا ہے ۔ کچھ شاگرد ایسے بھی ہیں جنھیں اردو میں افسانے پڑھنے کا کافی شوق ہے ۔پسندیدہ مصنفین میں منٹو ، احمد ندیم قاسمی ، کرشن چندر اور پریم چند کا نام مقبول افسانہ نگاروں میں سب سے اوپر آتا ہے ۔علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کی شاعری بھی بہت شوق سے پڑھی جاتی ہے ۔ نسرین نے بتایا کہ ان کے اکثر طالب علم اردو سے محبت کرتے ہیں ۔ اور وہ اردو کو بہت شاعرانہ اور رومانوی زبان سمجھتے ہیں ۔
انھیں اردو شاعری اور ہندوستانی ، پاکستانی فلمیں اور ان کے گانے سننے کا بہت شوق ہے۔ بیجنگ میں ان طالب علموں سے ملاقات کرنے پر مجھے احساس ہوا کہ چین کے ہر گوشے سے آنے والے طلبا پڑھائی میں سنجیدہ ہیں اور اردو کے فروغ کے لیے پرعزم ہیں ۔
(مضمون نگار انالکو ،پیرس میں شعبہ جنوبی ایشیا اور ہمالیہ ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔)
Categories: ادبستان