بی جے پی رہنما رام مندر تنازعہ کا بھرپور استعمال کر اقتدار یا آئینی عہدوں پر جا پہنچے ہیں لیکن اب مندر بنانے کے لئے ‘ اپنوں ‘ کا مسلسل دباؤ نہیں جھیل پا رہے ہیں۔ اب ان کو اچانک آئین، قانون اور عدالت کے وقار کی فکر ہو گئی ہے۔
کوئی یہ اندازہ لگا لے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھےگا، تو لگا لے، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور سنگھ پریوار کی تنظیموں کے پینتروں کا نہیں لگا سکتا۔ وہ ہوتے ہی ایسے ہیں۔ ابھی کچھ مہینے پہلے تک یہ تنظیم ایودھیا میں خود کو رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کے خوشگوار حل کا سب سے بڑا پیروکار ثابت کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ البتہ اس بہانے بھی ان کو دوسرے فریق کی مکمل خود سپردگی ہی مقصود تھی اور وہ چاہتے تھے کہ مودی ، یوگی سے دہشت زدہ مسلمان یکطرفہ طور پر بابری مسجد پر اپنا دعویٰ واپس لےکر شاندار رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کر دیں۔
لیکن اب، جب وہ اپنے مقصد میں ناکام ہوتے لگ رہے ہیں، ساتھ ہی ان کی ‘ نیک خواہشات ‘ کی پول کھل گئی ہے اور انتخاب آنے والے ہیں، ان کی ‘ بولتی ‘ بدل گئی ہے۔ اس قدر کہ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سمیت جو لوگ ملک اور اتر پردیش دونوں میں مکمل اکثریت والی بی جے پی حکومت بن جانے پر، ضرورت ہوئی تو قانون بناکر بھی، ‘ وہیں ‘ مندر بنانے کے وعدے کے ساتھ اس تنازعے کا بھرپور استعمال کر اقتدار یا آئینی عہدوں پر جا پہنچے ہیں اور اب مندر تعمیر کے لئے ‘ اپنوں ‘ کا لگاتار بڑھتا دباؤ نہیں جھیل پا رہے، ان کو اچانک آئین، قانون اور عدالت کے وقار کی فکر ہو گئی ہے۔
سچ کہیں تو انہوں نے اپنے بچاؤ کے لئے رنگے گیدڑوں جیسی صورت اپنا لی ہے اور مندر تعمیر کے رام کاج میں جب تک پربھو رام کی مہربانی نہیں ہوتی، تب تک صبر رکھنے کو کہہ رہے ہیں۔ ان کو یاد نہیں رہ گیا ہے کہ اس سے پہلے، دوسری پارٹیوں کے وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کے وقت، وہ خود بھی کہا کرتے تھے کہ ہندوؤں کے عقیدہ کا ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ سارے قاعدے قانون سے اوپر ہے۔ اس وجہ سے عدالتیں اس کا فیصلہ ہی نہیں کر سکتیں اور ہندوؤں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
لیکن ان کے ‘ سنت ‘ ہیں کہ اب ان کی ایک بھی سننے کو تیار نہیں۔ نہ اپنی جارحیت چھپا پا رہے ہیں، نہ غصہ اور نہ جھنجھلاہٹ۔ ان میں سادھوی رتمبھرا کے گرو سوامی پرمانند سرسوتی بھی شامل ہیں، جن کو ان کے حامی یگ پرش کہتے ہیں۔ گزشتہ 25 جون کو ایودھیا میں شری رام جنم بھومی ٹرسٹ کے صدر مہنت نرتیہ گوپال داس کے 80ویں یوم پیدائش تقریب میں منعقد سنت کانفرنس میں، جس کو وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی خطاب کیا، انہوں نے یہ پوچھکر ہڑبونگ مچا دیا کہ ‘ وہیں ‘ رام مندر نہ بنانے کا اب کون سا بہانہ بچا ہے، مرکز او ر اتر پر دیش دونوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں، صدر، نائب صدر، وزیر اعظم، گورنر اور وزیراعلیٰ سے لےکر ایودھیا کے ایم ایل اے اور چیئرمین بھی ‘ اپنے ‘ ہیں۔
وزیراعلیٰ سے اس کا کوئی سیدھا جواب دیتے نہیں بنا تو انہوں نے عدالتی فیصلے اور آئینی وقار کے عمل کی مجبوری جتاتے ہوئے کچھ دن اور صبر رکھنے کی ‘ نصیحت ‘ ہی دوہرا ڈالی۔ لیکن اس کا اس لئے کوئی معنی نہیں تھا کہ اس میں بی جے پی کے فائربرانڈ سابق رکن پارلیامان رام ولاس ویدانتی کے اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار کیوں کیا جائے؟ کیا بابر نے کسی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں رام مندر گرا کر اس کی جگہ مسجد بنائی تھی؟ 1949 میں23-22 دسمبر، 1949 کی رات اس مسجد میں رام للا کا ظہور ہوا کیاکسی عدالت کی ہدایت پر ہوا تھا؟
سوالوں کی اس جھڑی کے درمیان ویدانتی نے یہ بھی یاد دلایا کہ 1992 میں لال کرشن اڈوانی نے اپنی رتھ یاترا نکالی توبھی معاملہ عدالت میں تھا اور 6 دسمبر کو کار سیوا میں بابری مسجد ڈھاکر اس کے ملبہ پر عارضی مندر تو سپریم کورٹ کی سابقہ صورت حال کو بنائے رکھنے کے آرڈر کی نافرمانی کرکے ہی بنایا گیا تھا۔ تب عدالتی حکم کی پرواہ نہیں کی گئی تو اب کرنے کی کیا تک ہیں؟ اس کے ایک دن بعد ایودھیا آئے وشوا ہندو پریشد کے ‘ باغی ‘ پروین توگڑیا نے ویدانتی کے سوالوں کو یہ کہہکر نیا رخ دے دیا کہ اگر یہی بہانہ کرنا تھا کہ معاملہ عدالت میں ہے تو بی جے پی نے یہ وعدہ ہی کیوں کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے پر رام مندر بنائےگی؟
اگر مندر تعمیر کے لئے بھگوان رام کی مہربانی پر ہی منحصر کرنا تھا تو کار سیوک یہ نعرہ کیوں لگاتے تھے کہ ‘ رام للا ہم آئے ہیں، مندر بناکے جائیںگے؟ ‘ توگڑیا نے مودی حکومت کے 4مہینوں میں قانون بنا کر مندر تعمیر کا راستہ صاف نہ کرنے پر ‘ ایودھیا کوچ ‘ کی بھی دھمکی دی! اس حوالہ سے یوگی آدتیہ ناتھ مہنت نرتیہ گوپال داس کے پچھلے سالانہ یوم پیدائش کے موقع پر بھی آئے تھے۔ اپنے اسی وقت کیے گئے اعلان کے مطابق وہ اس بار بھی آئے، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے لگاتار چوتھے سال بھی ان کے جشن سے کنارہ کئے رکھا۔ ایودھیا سے پرہیز کے سلسلے میں وہ مہنت کی امرت تقریب میں بھی نہیں آئے تھے۔ مودبانہ مدعو کئے جانے اور پلکیں بچھائے جانے کے باوجود۔
اس سے فطری طور پر ہی اس داخلی انتشار کو بھی ہوا ملی کہ ایودھیا معاملے کو لےکر وزیراعلیٰ اور وزیر اعظم کے سروں میں ابھی بھی کوئی ہم آہنگی نہیں ہے اور اب تو ان کے حامیوں کے داخلی انتشار بھی خوب ظاہر ہو رہے ہیں، جس کو کئی حلقوں میں ان کی چت اور پٹ دونوں اپنی کرنے کی چالاکی سے جوڑکر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ انڈین کمیونسٹ پارٹی کے ایودھیا کے سینئر رہنما سوریہ کانت پانڈے اس کی اس صورت میں ضاحت کرتے ہیں کہ اٹل حکومت کے وقت بی جے پی اور دیگر سنگھ پریوار کے لوگ کہتے تھے کہ وہ بی جے پی کی پوری اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے مندر نہیں بنا پا رہے۔
عوام نے نریندر مودی کی پوری اکثریت کی حکومت بنوا دی تو کہنے لگے کہ اتر پردیش میں اپنی حکومت بنائے بنا کچھ نہیں کر سکتے۔ اتر پردیش میں بھی ان کی حکومت بن گئی اور ان کے پاس اپنے رائےدہندگان سے کرنے کو کوئی بہانہ نہیں بچا تو اب اپنے ہی پرانے رویے کو کاٹ اور ادھر ادھر کی ہانک رہے ہیں۔ پانڈے کہتے ہیں، ‘ لیکن ہمیں کیا، یہ بی جے پی اور اس کے رائےدہندگان کے درمیان کا معاملہ ہے۔ یہ ناراض رائےدہندگان ہی آخرکار ان کو سبق سکھائیںگے۔ ہم تو پہلے سے کہتے آ رہے ہیں کہ ان کو مندر -وندر کچھ نہیں، حکومتیں ہی بنانی تھیں، سو ،انہوں نے بنا لیں، اب مندر کی تعمیر گئی تیل لینے۔ ‘
اس کے باوجود وزیراعلیٰ اس معاملے میں پانڈے جیسوں کو بی جے پی مخالف سازشوں کے الزام سے بری نہیں کر رہے۔ کہہ رہے ہیں کہ اب تو مندر مدعا پر ایسے لوگ بھی بی جے پی سے کیفیت طلب کر رہے ہیں، جو ہمیشہ رام مندر تعمیر کی راہ میں رکاوٹیں ہی ڈالتے رہے۔ انہوں نے اپنے سنتوں کو ایسے عناصر سے محتاط بھی کیا۔ لیکن سوریہ کانت پانڈے پوچھتے ہیں؛ ‘ کیسی سازش؟ وہ جو وعدہ کرکے آئے ہیں، اس کو نہیں نبھا رہے تو ہم ان کو کٹہرے میں کھڑے کرنے کا اپنا جمہوری حق استعمال کر رہے ہیں۔ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ وہ وعدہ نہیں سبز باغ تھا اور آگے اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
اس لئے اور بھی کہ حزب مخالف میں رہنے پر وہ کہتے ہیں کہ حکومت بن جانے پر مندر بنائیںگے لیکن حکومت بن جاتی ہے تو کہنے لگتے ہیں کہ رام مندر سیاست یا انتخاب کا نہیں، مذہبی عقیدہ کا مدعا ہے۔ ایسا ہے تو وہ رام مندر کی سیاست کیوں کرتے ہیں؟ اس کو منشور میں شامل کرکے انتخاب کیوں لڑتے ہیں۔ یوں، ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ 1986 میں ہی رام مندر تعمیر کی بے معنویت بتا چکا ہے۔
1986 میں ایودھیا ،فیض آباد کے لوگوں نے بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ کے خاتمے کا ایک مکمل قابل قبول حل ڈھونڈ نکالا اور ‘ ناسمجھی ‘ میں وی ایچ پی رہنما اشوک سنگھل نے بھی اس کا استقبال کر دیا، تو ان کے رہنما وشنوہری ڈالمیا نے دہلی میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی ایک میٹنگ میں ان کو یہ کہہکر بری طرح ڈانٹا تھا کہ رام کے مندر تو ملک میں بہت ہیں اور ہمیں اس کی تعمیر کی فکر چھوڑکر اس کی تحریک کے ذریعے عوام میں بیدار ہو رہے شعور کا فائدہ اٹھاکر ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنے میں لگنا چاہیے ۔
اب وہ ملک اور ساتھ ہی ریاست کے اقتدار پر قابض ہو گئے ہیں تو خونریزی، عام اتفاق یا کسی بھی طرح سے رام مندر بناکر اور کیا پائیںگے؟ چونکہ ان کی طرف سے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا اس لئے ایودھیا اور اس کے آس پاس کے ضلع میں لوگوں میں عام رجحان ہے کہ گورکھ پور، پھول پور، کیرانہ اور نور پور کے ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی کراری شکست کے بعد سنگھ بےحد فکرمند ہے اور بی جے پی کو رام مندر مدعا کی طرف لوٹانا چاہتا ہے۔ لیکن اس کی یہ کوشش پوری ہونے کی راہ میں دو بڑی دقتیں ہیں۔
پہلی یہ کہ کاٹھ کی اس ہانڈی کو بار بار چڑھانے کا خطرہ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ دوسری یہ کہ اب جیسے ہی مندر کی بات ہوتی ہے، سنگھ پریوار کے داخلی انتشار بھی بے پردہ ہونے لگ جاتے ہیں۔ البتہ، بی جے پی کو اس سے اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ رام مندر کے کائیں کائیں میں اس کی حکومتوں کو کٹہرے میں کھڑا کر سکنے والے کئی ضروری مدعے حاشیے پر چلے جاتے ہیں۔ پھر بھی یوگی آج کل اس کے حصول کو لےکر مطمئن نہیں ہو پا رہے اور بھگوان رام کے ساتھ شبری کو بھی یاد کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں انہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دلتوں کے لئے ریزرویشن کا معاملہ اٹھایا کہ آئین کا آرٹیکل 15 (5)، آرٹیکل 30 کے تحت قائم اقلیتی تعلیمی اداروں کو ریزرویشن کے دائرے سے باہر کرتا ہے۔ 2005 میں 93 ویں ترمیم کے ذریعے یہ اہتمام کیا گیا تھا اور تب 381 رکن پارلیامان میں سے 379 نے اس ترمیم کی حمایت کی تھی۔ 2008 میں سپریم کورٹ نے بھی اس کو یہ کہتے ہوئے برقرار رکھا کہ اقلیتی تعلیمی ادارہ اقلیتوں کی ضروریات کو ہی پورا کرتے ہیں۔ اس لئے ان کو ریزرویشن کے دائرے سے باہر رکھنے سے مساوات کے حق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔
لیکن ایسا کرکے بھی وزیراعلیٰ پھنسنے سے نہیں بچے۔ پوچھا جانے لگا کہ وہ سچ مچ دلت ریزرویشن کے حمایتی ہیں تو وزیراعلیٰ کے طور پر اپنے متاثرہ علاقے کے سرکاری تعلیمی اداروں میں دلتوں کے لئے ریزرو خالی عہدوں کو بھرنے کی پہل کیوں نہیں کرتے؟ واضح ہو کہ سرکاری یونیورسٹیوں میں تقرری کے لئے ایس سی کے لئے 15 فیصد اور ایس ٹی کے لئے 7.5 فیصد ریزرویشن کی حکومت کی پالیسی ہے۔ لیکن 2016 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 14 لاکھ اساتذہ میں صرف ایک لاکھ دو ہزار ہی دلت ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر