آئندہ 7 جولائی کو جئے پور میں ہونے والے وزیر اعظم کے جلسے میں ہنگامہ کے خدشہ کی وجہ سے حکومت اس کے لئے بی جے پی کے نظریہ سے جڑے لوگوں کو ہی دعوت بھیج رہی ہے۔
کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک-پھونککر پیتا ہے۔ راجستھان کی وزیراعلیٰ وسندھرا راجے ان دنوں ایسا ہی کر رہی ہیں۔ آئندہ 7 جولائی کو جئے پور میں ہونے والے وزیر اعظم نریندر مودی کے جلسہ میں ہنگامہ سے بچنے کے لئے ایسے لوگوں کی چھنٹنی کی جا رہی ہے جن کا ‘سیاسی عقیدہ’صرف بی جے پی میں ہو۔عام طور پر رہنماؤں کے جلسہ کی کامیابی کا پیمانہ ‘بھیڑ’کو مانا جاتا ہے، لیکن یہ پہلی بار ہو رہا ہے جب ‘سر ‘گننے کے بجائے اس کے سیاسی نظریہ کو ترجیح دی جا رہی ہو۔ اس قواعد کی وجہ وزیر اعظم کی جھنجھنوں میں ہوئے جلسہ میں ہوا وبال ہے۔
غور طلب ہے کہ مودی 8 مارچ کو بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم کی توسیع اور قومی غذائی مشن کی شروعات کرنے جھنجھنوں آئے تھے۔پروگرام میں جب وسندھرا تقریر کر رہی تھیں تو کچھ جوانوں نے نہ صرف کالے جھنڈے لہرائے، بلکہ حکومت کے خلاف جم کر نعرے بازی بھی کی۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس واقعہ سے ناراض دکھے تھے۔وزیراعلیٰ راجے نہیں چاہتی کہ جھنجھنوں میں جو ہوا وہی جئے پور میں بھی دوہرایا جائے۔ اس لئے انہوں نے صاف ہدایت دی ہے کہ جلسہ میں انہی لوگوں کو بلایا جائے جو بی جے پی کے نظریہ سے سیدھے طور پر جڑے ہوئے ہوں۔
اس پر عمل میں پارٹی اہلکاروں، کارکنان اور افسروں کا پسینہ چھوٹ رہا ہے۔اصل میں وزیر اعظم کا پروگرام مرکزی حکومت کی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں سے مکالمہ کرنے کا ہے۔ جانکاری کے مطابق وزیر اعظم دفتر نے انہی لوگوں کو جلسہ میں بلانے کی ہدایت دی ہے جو مودی حکومت کی اسکیموں کا فائدہ اٹھا چکے ہیں۔اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست تو انتظامیہ کے پاس ہے، لیکن وسندھرا کو یہ ڈر ستا رہا ہے کہ ان میں سے کوئی ہنگامہ نہ کر دے۔ پروگرام میں مودی کچھ لوگوں سے بات چیت بھی کریںگے۔
اس دوران اگر کسی نے الٹی بات کہہ دی یا کسی نے پریشان کرنے والا سوال پوچھ لیا تو پورے پروگرام کی بھد پٹنا طے ہے۔بی جے پی کے ایک سینئر اہلکار ‘ آف دی ریکارڈ ‘بات چیت میں کہتے ہیں،’ مستقل کرنے کی مانگکر رہے ٹھیکہ پر لگے ملازم، نوکریاں نہیں ملنے کی وجہ سے ناراض جوان اور کسان حکومت سے خاص طورپر ناراض ہیں۔ کئی ذاتیں بھی حکومت کی مخالفت میں ہیں۔ وزیراعلی کے کئی پروگراموں میں یہ مخالفت کر چکے ہیں۔ اس لئے یہ خدشہ جتایا جا رہا ہے کہ کوئی وزیر اعظم کے پروگرام میں ہنگامہ نہ کر دے۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’ ناراض طبقوں کی طرف سے مخالفت ہونا فطری ہے، لیکن کئی بار حزب مخالف جماعت اور سماجی تنظیم پروگرام خراب کرنے کے مقصد سے بھی ہنگامہ کر دیتے ہیں۔ پہلے کئی بار ایسا ہو چکا ہے۔ اس کو روکنے کے لئے جلسہ میں آنے والے لوگوں کی چھنٹنی کی جا رہی ہے۔ ‘ریاستی صدر کے مدعے پر پارٹی قیادت سے دو-دو ہاتھ کر چکیں وسندھرا انتخاب سے پہلے ایسی کوئی مشکل نہیں چاہتیں، جس سے مودی-شاہ سے کھٹ پٹ اور بڑھ جائے۔ اس لئے انہوں نے مودی کے پروگرام میں بی جے پی کے نظریہ کو ماننے والے لوگوں کی چھنٹنی کرنے کے لئے کہا ہے۔
اس کام میں چیف سکریٹری کی قیادت میں پورا انتظامیہ اور بی جے پی کے اعلیٰ اہلکاروں سے لےکر بوتھ سطح تک کے کارکن چکرگھنی ہو رہے ہیں۔چیف سکریٹری ڈی بی گپتا کے حکم پر تمام ضلعوں کے کلکٹر مرکزی حکومت کی اسکیموں کا فائدہ لینے والے لوگوں کی فہرست تیار کر چکے ہیں۔ اس میں شامل ناموں میں سے یہ چھانٹنے کا کام وزیر، رکن پارلیامان، ایم ایل اے اور پارٹی اہلکار کر رہے ہیں کہ کون بی جے پی کے نظریہ سے جڑا ہے اور کون کانگریس سے۔
اس چھنٹنی کے علاوہ جلسہ میں آنے والے لوگوں پر نگرانی رکھنے کی ذمہ داری بھی وزیر، رکن پارلیامان، ایم ایل اے اور پارٹی اہلکاروں کی ہوگی۔ سبھی کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے-اپنے علاقے سے آئے لوگوں کے بیچ میں ہی بیٹھیں اور ان پر پوری نظر رکھیں۔
شاید ایسا پہلی بار ہوگا جب وزیر اعظم کے کسی پروگرام میں عوامی نمائندوں اور پارٹی اہلکاروں کے بیٹھنے کے لئے کوئی خاص انتظام نہیں ہوگا۔اس احتیاط کے درمیان گرجر رہنماؤں کے الٹی میٹم نے اقتدار اور تنظیم کی دھڑکنیں بڑھا دی۔ پچھلے ڈیڑھ مہینے سے چل رہی بات چیت میں کوئی راستہ نہیں نکلتے دیکھ گرجر رہنماؤں نے دباؤ بڑھانے کے لئے وزیر اعظم کی مخالفت کا انتباہ دے دیا۔ اس سے گھبرائی حکومت نے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں ان کی مانگ مان لیں۔
حکومت نے حکم جاری کر واضح کیا کہ انتہائی پچھڑے طبقے کے تحت آنے والی گرجر سمیت پانچ ذاتیں تعلیمی اداروں میں داخل اور سرکاری تقرری کے لئے دیگر پچھڑا طبقہ زمرہ کے تحت 21 فیصدی ریزرویشن کے حقدار ہیں۔حکومت کی طرف سے حکم جاری ہونے کے بعد گرجر وزیر اعظم کی مخالفت نہیں کریںگے۔گرجر آرکشن سنگھرش سمیتی کے ترجمان ہمت سنگھ کہتے ہیں،’ڈیڑھ مہینے سے مذاکرہ ہو رہا ہے، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا۔ اب حکومت نے دو احکام جاری کئے ہیں۔ ہم ان سے مطمئن ہیں۔ ہم نے وزیر اعظم کے جئے پور سفر کی مخالفت کے انتباہ کو واپس لے لیا ہے۔ ‘
ریاستی بی جے پی کو وزیر اعظم کے جلسہ میں خلل کا ڈر کس قدر ستا رہا ہے اس کا اندازہ پارٹی کی طرف سے جلسہ گاہ پر کی گئی خاص پوجا سے لگایا جا سکتا ہے۔قابل ذکر ہے کہ پارٹی کے نئے مقرر کردہ ریاستی صدر مدن لال سینی نے اتوار کو جائے تقریب پر منتر کے ساتھ بھومی بھوجن کیا۔حالانکہ ریاستی صدر سینی اس سے انکار کر رہے ہیں کہ انہوں نے وزیر اعظم کے پروگرام میں کسی رکاوٹ کے خدشہ سے پوجا کی۔ وہ کہتے ہیں،’ہم نے امرود کے باغ میں پانڈال لگانے کی شروعات کے لئے زمین کی پوجا کی۔ کسی مبارک کام سے پہلے پوجا کرنا ہماری روایت ہے۔ اس میں شگون یا بدشگون جیسا کچھ نہیں ہے۔ وزیر اعظم کا جلسہ تاریخی ہوگا۔ ‘
وہیں، سابق وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے اس جلسہ کی تیاریوں کے طورطریقوں پر سوال کھڑے کئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘وزیر اعظم نریندر مودی کے جلسہ میں بھیڑ جمع کرنے کے لئے سرکاری مشینری کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور کروڑوں روپے برباد کئے جا رہے ہیں۔ افسروں کو سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں کو جمع کرنے کے ہدف دئے گئے ہیں۔ ‘گہلوت آگے کہتے ہیں،’جس کو حکومت کی اسکیموں کا فائدہ ملتا اس کو بلانے کے لئے اتنی مشقت نہیں کرنی پڑتی۔ سرکاری اسکیموں کے مستفید کے نام پر بی جے پی کارکنان کی بھیڑ یکجا کی جا رہی ہے۔ افسروں کو بھیڑ لانے اور گاڑیوں کے لئے ٹارگیٹ دئے گئے ہیں۔ ایسا راجستھان میں پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ ‘
کانگریس ریاستی صدر سچن پائلٹ بھی گہلوت کے سر میں سر ملا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘وزیر اعظم کے جلسہ میں بھیڑجمع کرنے کے لئے سرکاری وسائل کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو لانے کا ٹارگیٹ تمام ضلع کے کلکٹر سے لےکر تمام افسروں کو دیا گیا ہے۔ اس سے صاف ہو گیا ہے کہ عوام بی جے پی سے اوب گئی ہے۔ ‘گہلوت اور پائلٹ کے الزامات پر پنچایتی راج وزیر راجیندر راٹھوڑ کہتے ہیں،’سابق وزیراعلیٰ اور کانگریس ریاستی صدر کے بیان بچکانے ہیں۔ ہم نے نظریہ دیکھکرفائدہ لینے والوں کو نشان زد نہیں کیا ہے۔ ہمارا فوکس غریبی کی بھلائی کا رہا ہے۔ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ نے فخر و عزت کے لئے غریبوں کو یہاں بلایا ہے۔ کانگریس کبھی اس طرح کا پروگرام نہیں کر سکتی۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جئے پور میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر