فکر و نظر

رویش کا بلاگ : رافیل کو لےکر لڑائی کس بات کی ہو رہی ہے؟

وزیر دفاع نرملا  سیتارمن بول چکی تھیں کہ وہ کچھ بھی نہیں چھپائیں‌گی، ملک کو سب بتائیں‌گی۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد مکر گئیں اور کہہ دیا کہ فرانس اور ہندوستان کے درمیان خفیہ قرار ہے اور وہ معاہدے کی معلومات عام نہیں کر سکتی ہیں۔

rafael-deal-modi

ہم نے اس تنازعہ کو سمجھنے کے لئے بزنس اسٹینڈرڈ کے  اجے  شکلا اور ٹائمس آف انڈیا کے رجت پنڈت کی رپورٹنگ کا سہارا لیا ہے۔ یہ دونوں ہی  ڈیفنس معاملوں کے بہترین رپورٹر / ماہر مانے جاتے ہیں۔ آپ بھی خود سے تمام مضمون کو پڑھ‌کر اپنی فہرست بنا سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ کون فریق  کیا بول رہا ہے۔ ہندی میں ایسا مواد کم ملے‌گا، صرف رہنماؤں کے الزام ملیں‌گے، مگر ڈیٹیل چھاننے کی ہمت کوئی نہیں کرے‌گا ورنہ وہ جس کے  غلام ہے اس سے ڈانٹ پڑے‌گی۔

7 فروری 2018 کے ٹائمس آف انڈیا میں رجت پنڈت کی رپورٹ کی تلخیص یہ ہے کہ یو پی اے نے فرانس سے رافیل  فائٹر جیٹ  خریدنے کا قرار کیا تھا۔ 18 جیٹ  تیارملیں‌گے اور 108  تکنیکی منتقلی کے ذریعے ہندوستان میں بنیں‌گے۔ اس کو لےکر معاملہ رکا رہا اور حکومت چلی گئی۔ جون 2015 میں مودی حکومت نے پہلے کے قرار کو ختم کر دیا اور نیا قرار کیا کہ اب 18 کی جگہ 36 رافیل  طیارے تیار حالت میں دئے جائیں‌گے اور اس کے لئے تکنیک کی منتقلی نہیں ہوگی مگر جب بھی ایئر فورس  کو ضرورت پڑے‌گی، فرانس مدد کرے‌گا۔ جب میک ان انڈیا پر اتنا زور ہے تو پھر تکنیکی منتقلی کے کلاز کو کیوں ہٹایا گیا، اس پر رجت اور اجے  کے مضمون میں جانکاری  نہیں ملی۔

رجت پنڈت نے لکھا ہے کہ اس کے لئے ریلائنس ڈیفنس  اور رافیل بنانے والی DASSAULT AVIATION کے درمیان قرار ہوا۔ اس تنازعہ میں ریلائنس ڈیفنس  پر الزام لگے ہیں مگر کمپنی نے انکار کیا ہے۔ راہل گاندھی نے الزام لگایا ہے کہ ایک صنعت کار دوست کو فائدہ پہنچانے کے لئے مودی حکومت نے یہ جادو کیا ہے کہ جو طیارے ہم 540 کروڑ میں خرید رہے ہیں، اسی کو  تعمیر کے معاملے میں نوسیکھیا کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے لئے 1600 کروڑ میں خریدا جا رہا ہے۔ یو پی اے اور این ڈی اے کے وقت رافیل کی قیمت  میں اتنا فرق کیوں ہے، ضرور فراڈ ہوا ہے اور وزیر اعظم ان سوالوں پر سیدھا جواب نہیں دے پا رہے ہیں۔

رجت پنڈت نے لکھا ہے کہ نرملا  سیتارمن اسی سال فروری میں بھی پارلیامنٹ  کو بتا چکی ہیں  کہ دو حکومتوں کے درمیان ہوئے قرار‌کے ارٹکل-10 کے مطابق وہ اس معاہدے سے متعلق معلومات کو عام نہیں کر سکتی ہیں لیکن18.11.2016 کو دفاعی وزیر مملکت سبھاش بھامرے پارلیامنٹ  میں تحریری  جواب دے چکے ہیں کہ ایک رافیل طیارے کی  اوسط قیمت  670 کروڑ ہوگی  اور سبھی  اپریل 2022 تک ہندوستان آ جائیں‌گے۔ سادہ طیارے کی قیمت  670 کروڑ لیکن اس کو ہتھیار کے موافق  بنانے، ہتھیار سے لیس کرنے، کل پرزے دینے اور رکھ رکھاؤ کو جوڑنے کے بعد اوسط قیمت  1640 کروڑ ہو جاتی  ہے۔

یہاں تک رجت پنڈت نے لکھا ہے۔اب راہل گاندھی یہ نہیں بتاتے کہ ان کے وقت میں 540 کروڑ میں ایک طیارہ خریدا جا رہا تھا تو وہ سادہ ہی ہوگا، ہتھیاروں سے لیس کرنے کے بعد ایک طیارے کی اوسط قیمت کیا پڑتی تھی؟ ضرور یو پی اے کے وقت ایک رافیل طیارے کی  قیمت  540 کروڑ بتائی  جا رہی ہے اور مودی حکومت کے وقت ایک کی قیمت  700 کروڑ سے زیادہ جبکہ مودی حکومت 18 کی جگہ 36 رافیل طیارے خرید رہی ہے۔

اب آتے ہیں 22 جولائی کے بزنس اسٹینڈرڈ میں شائع اجے  شکلا کے مضمون کی طرف۔

آپ جانتے ہیں کہ  عدم اعتماد تجویز کے وقت وزیر دفاع نے کہا کہ فرانس اور ہندوستان کے درمیان خفیہ شرطوں کی وجہ سے معلومات عام نہیں ہو سکتی اور یہ قرار 2008 میں یو پی اے نے ہی کیا تھا۔ آپ نے رجت پنڈت کے مضمون میں دیکھا کہ نرملا  سیتارمن اسی فروری میں اپنی حکومت کے وقت کئے گئے قرار کی خفیہ شرطوں کا حوالہ دے چکی ہیں۔ اب یہاں اجے  شکلا نرملا  سیتارمن کی بات میں ایک کمی پکڑتے ہیں۔ اجے  کہتے ہیں کہ نرملا سیتارمن نے پارلیامنٹ  کو یہ نہیں بتایا کہ 2008 کے ہی قرار کو مودی حکومت نے اسی مارچ میں 10 سال کے لئے بڑھا دیا ہے۔

فوٹو : رائٹرز

فوٹو : رائٹرز

اس سال مارچ میں فرانس کے صدر ہندوستان کے دورے پر تھے، تبھی یہ قرار ہوا تھا۔ اجے  شکلا نے لکھا ہے کہ فرانس میں وقت وقت پر یہ جانکاری  عام کی جاتی ہے کہ ہر رافیل کی فروخت پر فوج کو کتنے پیسے ملے ہیں۔ ویسے میں شاید ہی فرانس ہندوستان کی پرواہ کرے۔دوسری طرف جب دفاعی وزیر مملکت پارلیامنٹ  میں بیان دے رہے ہیں کہ حکومت رافیل معاہدے کی ساری باتیں سی اے جی کے سامنے رکھے‌گی۔ آپ جانتے ہیں کہ سی اے جی اپنی ساری رپورٹ پبلک کرتی ہے۔ اگر سی اے جی سے پبلک ہوگا تو حکومت خودہی کیوں نہیں بتا دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک رافیل کی قیمت تم کیا جانو رمیش بابو

اجے  شکلا لکھتے ہیں کہ 23 ستمبر 2016 کو وزارت دفاع  خودہی رافیل کی قیمت  عام کر چکی ہے۔ وزارت دفاع کے اعلیٰ افسر نے کچھ صحافیوں کے ساتھ آف  ریکارڈ بریفنگ کی تھی جس میں ایک ایک ڈیٹیل بتا دی گئی تھی۔ اسی بریفنگ کی بنیاد پر کئی اخباروں میں خبر چھپی تھی۔ 24 ستمبر 2016 کے بزنس اسٹینڈرڈ میں لکھا ہے کہ ہندوستان نے 36 رافیل طیارے کے لئے 7.8 بلین یورو کا قرار کیا ہے۔ تب یہ رپورٹ ہوئی تھی کہ بنا کسی جوڑ گھٹاؤ کے سادہ رافیل طیارے کی ایک قیمت 7.4 ارب ہے، طے ہوا ہے، یعنی 700 کروڑ سے زیادہ۔ جب ان طیارے کو ہندوستان کی ضرورت کے حساب سے بنایا جائے‌گا تب ایک طیارے کی اوسط قیمت 1100 کروڑ سے زیادہ ہوگی۔

اس طرح رافیل معاہدے کی جانکاری  تو پبلک میں آ گئی تھی۔ خود وزیر دفاع نرملا  سیتارمن بول چکی تھیں کہ وہ کچھ بھی نہیں چھپائیں‌گی، ملک کو سب بتائیں‌گی۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد مکر گئیں اور کہہ دیا کہ فرانس اور ہندوستان کے درمیان خفیہ قرار ہے اور وہ معاہدے کی معلومات عام نہیں کر سکتی ہیں۔ دسمبر 2017 سے کانگریس رافیل ڈیل کو لےکر فراڈ  کا الزام لگا رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طیارے کے لئے انڈین ایروناٹکس لمیٹڈ کو معاہدے سے باہر رکھا گیا اور ایک ایسی کمپنی کو داخل کیا گیا جس کی پرانی کمپنیوں نے کئی ہزار کروڑ کا لون ڈیفالٹ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے بینک ڈوبنے کے کگار پر ہیں۔ ایسی کمپنی کے مالک کو اس معاہدے میں شامل کیا گیا جس کا طیارے سے  متعلق  کوئی تجربہ نہیں ہے۔

راہل گاندھی کا الزام ہے کہ یو پی اے کے وقت میں ایک رافیل طیارے کی قیمت 540 کروڑ تھی، اب اسی طیارے کو مودی حکومت 1600 کروڑ میں کس حساب سے خرید رہی ہے۔ وزیر اعظم نے یہ جادو کیسے کیا ہے۔  عدم اعتماد تجویز کے دوران راہل گاندھی نے اس بات کو اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی فرانس کے صدر سے ملاقات ہوئی  اور انہوں نے بتایا کہ ایسا کوئی قرار ہندوستان اور فرانس کے درمیان نہیں ہے۔ آپ یہ بات پورے ملک کو بتا سکتے ہیں۔ اس بیان کے فوراً بعد فرانس کے صدر نے اس کی تردید کر دی۔ بی جے پی اس بات کو لےکر جارحانہ ہو گئی اور راہل گاندھی کو خلاف خصوصی اختیارات کی پامالی کا نوٹس دیا گیا ہے۔

انڈیا ٹوڈے کی ویب سائٹ پر 8 مارچ 2018 کا ایک نیوز آئٹم چھپا ہے۔ جس کی ہیڈلائن ہے کہ مودی حکومت حزب مخالف کے ساتھ رافیل ڈیل کی ڈیٹیل شیئر  کر سکتی ہے۔ یہ بیان فرانس کے صدر کا ہے۔ جو انہوں نے انڈیا ٹوڈے ٹی وی کو دئے انٹرویو میں کہا تھا۔ آپ اس کو بھی چیک کر سکتے ہیں۔ پھر حکومت کیوں کسی خفیہ شرط کے نام پر نہیں بتا رہی ہے۔

موبائل ایپ لانچ کر دینا ہی ڈجیٹل  انڈیا نہیں ہے ۔

انڈین  ریل‌کے 50 موبائل ایپ ہیں۔ کیا وزارت ریل کا ایک ایپ نہیں ہونا چاہیے  تھا جہاں سے سارے ایپ تک پہنچا جا سکے۔ 50 ایپ کا کیا مطلب ہے۔ کیا یہ سارے ایپ ڈاؤن لوڈ بھی کئے جاتے ہیں؟ پچھلے دو سال میں ہی انڈین  ریل نے 25 موبائل ایپ بنائے ہیں۔ تین چار موبائل ایپ کو چھوڑ‌کر باقی کسی ایپ کی کوئی پوچھ  نہیں ہے۔ وہ بےکار بن‌کر پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو ڈاؤن لوڈ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

وزارت زراعت کے 25 ایپ ہیں۔ چاو  ل کی  پیداوار کو لےکر ہی 7 قسم کے ایپ ہیں۔ National Mobile Governance Initiative (NMGI) کی ویب سائٹ کے مطابق 30 قسم کے ایپ ہیں جن میں محض ایک بھیم ایپ ہے جس کو ایک کروڑ لوگوں نے ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ باقی ایپ سنگل ڈیجٹ میں ہی ڈاؤن لوڈ کئے گئے ہیں۔ یہ میری جانکاری  نہیں ہے۔ 21 جولائی کے بزنس اسٹینڈرڈ میں کرن چودھری اور شائنی جیکب کی رپورٹ ہے۔ دونوں نے یہ بات ظاہر  کی ہے کہ ڈجیٹل انڈیا کو فعال دکھانے کے لئے محکمہ کے بیچ موبائل ایپ بنانے کی ہوڑ مچی ہے۔ ایک ہی بات کے لئے کئی کئی ایپ بنے ہیں اور جو کام ایک ایپ میں ہو سکتا ہے، اس کے لئے الگ الگ ایپ بنائے جا رہے ہیں۔

ظاہر ہے زیادتر ایپ کا مطلب آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ تشہیر پانا ہے کہ بڑا بھاری کام ہو گیا ہے، ایپ لانچ ہو گیا ہے۔ اس ہوڑ میں حکومت نے 2000 سے زیادہ ایپ بنا دئے ہیں۔ ایک موبائل ایپ کو بنانے میں پانچ ہزار سے ایک لاکھ تک کا خرچ آتا ہے۔

(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش  کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔)