فیک نیوز:ثاقب کے والد انیس پولیس سے خفا ہو گئے اور ایک عام پنچایت میں پولیس کی موجودگی میں وہاں کے سرکل آفیسر کو دھمکی دے دی،اور کہا کہ اگر ان کے فرزند کے قتل کی سازش کا انکشاف نہیں ہوا تو وہ سرکل آفیسر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔
موجودہ دور میں سوشل میڈیا ایک ایسے پلیٹ فارم کی شکل میں ابھر کر آیا ہے جہاں خاص طورپرنوجوان طبقہ خود مختار ہو چکا ہے اور یہ خود مختاری بے لگامی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔لوگ خود ہی پولیس بنے بیٹھے ہیں، خود ہی فیصلے دے رہے ہیں اور خود ہی سزا سنا رہے ہیں۔فیس بک یا ٹوئٹر پر موجود جھوٹی تصویروں، خبروں اور ویڈیو کو بنا تحقیق کئے جلدبازی میں عام کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سماج میں بدگمانی عام ہو جاتی ہے۔ایسا ہی ایک معاملہ گزشتہ ہفتے پیش آیا جب وزیر اعظم نریندر مودی کو بدنام کرنے کے مقصد سے ایک تصویر سوشل میڈیا میں عام کی گئی۔
ان کی تصویر کے ساتھ اڈولف ہٹلر کی تصویر جوڑ دی گئی تھی جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ نریندر مودی اور اڈولف ہٹلر دونوں بچوں کے کان کھینچ رہے ہیں۔تصویر سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ نریندر مودی نے اس طرح کے سارے ہنر اڈولف ہٹلر سے سیکھے ہیں جو ظالم تھا، جو اقلیتوں کے خلاف تھا، جس نے نسلی بنیاد پر انسانوں کا قتل عام کروایا تھا ! اس تصویر کو کافی معروف لوگوں نے بھی شئیر کیا تھا جن میں آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ، اورآرٹسٹ رام سبرامنیم بھی شامل ہیں۔سنجیو بھٹ نے اس تصویر کو فیس بک اور ٹوئٹر دونوں پر شئیر کیا تھا،جب کہ رام سبرامنیم نے بعد میں اسے فوٹو شاپ کی بہترین کاریگری قرار دیا۔
الٹ نیوز نے اپنی تفتیش کے دوران اس تصویر کو گوگل میں ‘ریورس امیج سرچ’ کیا اور پایا کہ The Sun نامی اخبار نے31 مارچ 2017 کو ایک مضمون شائع کیا تھا جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ہٹلر جرمن نوجوانوں اور بچوں کے لیے بڑے فکرمند تھے اور ان سے بےپناہ محبت کیا کرتے تھے۔اسی مضمون میں ہٹلر کی وہ تصویر سامنے آئی جو ہندوستان میں مودی کی تصویر کے ساتھ سوشل میڈیا میں عام کی گئی تھی۔دی سن نیوز پورٹل کی اس تصویر سے یہ حقیقت پانی کی طرح صاف تھی کہ سوشل میڈیا میں جو تصویر گردش کر رہی ہے وہ فوٹوشاپ امیج ہے۔
اس تصویر میں ہٹلر کے ہاتھ بچی کے کانوں پر موجود ہیں جب کہ دی سن سے دستیاب اصلی تصویر میں ہٹلر نے بچی کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ بقول الٹ نیوز، ہٹلر کی موجودہ تصویر کو فوٹوشاپ میں تبدیل کیا گیا ہے اور نریندر مودی کے ہاتھوں کو فلپ کرکے ہٹلر کے ہاتھوں پر لگا دیا گیا ہے، مودی کا دایاں ہاتھ ہٹلر کا بایاں ہاتھ ہو گیا ہے اور مودی کا بایاں ہاتھ ہٹلر کا دایاں ہاتھ ہو گیا ہے ! یعنی ہٹلر کے ہاتھ دراصل ہٹلر کے نہیں ہیں، وہ مودی کے ہاتھ ہیں۔
سریش چہونکے اور ان کا سدرشن نیوز چینل اپنی فرقہ وارانہ اور شدت پسند ی کے لئے کافی بدنام ہے لیکن وہ کبھی اس بات سے باز نہیں آتے ۔سریش نے یو پی پولیس، ڈی جی پی، نریندر مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ کو ٹوئٹر پر ٹیگ کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ کیا جس میں انہونے دعویٰ کیا کہ:
شروع ہو گیا وہ سب جس کا ڈر تھا۔یو پی کی ایک مسجد سے آیا فرمان : ٹکڑوں ٹکڑوں میں کاٹنا ہے پولیس والوں کو !
اتر پردیش کے باغپت ضلع میں ایک حادثہ ہوا جس میں ثاقب نامی ایک لڑکے کی موت ہو گئی۔موت کے بعد ثاقب کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا۔پولیس کو لاش ایک نالے سے برآمد ہوئی تھی۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ثاقب کی موت ایک حادثے میں ڈوب کر ہوئی ہے، کسی نے اس کا قتل نہیں کیا ہے کیوں کہ اس کے جسم پر چوٹ کا کوئی نشان نہیں ہے۔ثاقب کے والد انیس نے پوسٹ مارٹم رپورٹ سے اتفاق نہیں کرتے ہوئے دوبارہ پوسٹ مارٹم کی درخواست کی۔
پولیس نے ڈاکٹروں کے ایک پینل کی نگرانی میں دوسرا پوسٹ مارٹم کرایا لیکن رپورٹ میں کسی طرح کی نئی بات سامنے نہیں آئی۔اس بات سے ثاقب کے والد انیس پولیس سے خفا ہو گئے اور ایک عام پنچایت میں پولیس کی موجودگی میں وہاں کے سرکل آفیسر کو دھمکی دے دی،اور کہا کہ اگر ان کے فرزند کے قتل کی سازش کا انکشاف نہیں ہوا تو وہ سرکل آفیسر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔انیس کے اس بیان پر پولیس میں ان کے خلاف رپورٹ درج کی گئی اور ان کو مجسٹریٹ کے سامنے لے جایا گیا جہاں انیس نے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ بیٹے کے غم اور غصّے میں ایسا بول گئے تھے۔
لیکن باغپت کے اس مقامی حادثے کو سدرشن نیوز کے مدیر سریش صاحب نے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی اور کہا کہ جس طرح مغربی ایشیا کے ملکوں میں پولیس کو قتل کیا جاتا ہے اسی طرح اب ہندوستان میں بھی خون خرابہ ہوگا۔سدرشن نیوز کی طرف سے یہ زہر فشانی غالباً اس وجہ سے تھی کہ حادثے میں غمزدہ پریوار ایک مسلمان کا ہے۔ سریش نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اتر پردیش پولیس کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا فرمان ایک مسجد سے جاری ہوا تھا۔ دراصل یہ جھوٹ ہے۔
انیس نے جو باتیں کہیں تھی وہ گاؤں کی پنچایت میں کہیں تھی جس میں پولیس بھی شامل تھی۔اتر پردیش پولیس نے سریش صاحب کے ٹوئٹ پر جواب دیتے ہوئے مکمل حقیقت سے آگاہ کرایا لیکن سریش جی نے نہ معافی مانگی اور نہ اپنی حرکت پر افسوس ظاہر کیا ! اگر ملک کا یہ نام نہاد میڈیا اس طرح بے لگام ہو گیا تو ملک کو آگ کی لپٹوں سے کوئی نہیں بچا پائےگا ! ضلع باغپت کےایس پی نےبھی ایک ویڈیو سے معاملے کی تفصیل فراہم کی:
क्षेत्राधिकारी बडौत को दी गई धमकी के सम्बन्ध मे पुलिस अधीक्षक बागपत द्वारा दी गई बाईट। @dgpup @Uppolice @adgzonemeerut @igrangemeerut @upcoprahul #uppolice #baghpatpolice pic.twitter.com/3zxMX2ZGDs
— Baghpat Police (@baghpatpolice) July 21, 2018
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر فیک نیوز کی اشاعت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ جب فیس بک یا انٹرنیٹ پر کسی ویب سائٹ کی لنک کھولی جاتی ہے تو اس سے ویب سائٹ کے مالک کو پیسوں کی آمدنی ہوتی ہے۔جتنی بار کوئی ویب سائٹ کھولی جائےگی،ویب سائٹ کواتناہی زیادہ منافع حاصل ہوگا۔اسی مقصدسے ایک میسج فیس بک،ٹوئٹرکےعلاوہ وہاٹس ایپ میں بھی دیکھاگیاجس کادعویٰ تھاکہ مودی سرکارنےاسکول جانےوالےبچوں کےلئےایک نئی اسکیم شروع کی ہے جس کا نام پرائم منسٹر سائیکل اسکیم ہے۔خبر کے مطابق نریندر مودی اس 15 اگست کو بچوں کو فری سائیکل تقسیم کرینگے۔اس میسج کے ساتھ ایک ویب سائٹ کا لنک بھی تھا جس کا یو آر ایل www.bharat-sarkar.com تھا۔
بقول بوم لائیو، یو آر ایل پر کلک کرنے سے ویب سائٹ پر اسی اسکیم کی تصویر موجود تھی جس میں اسکول جانےوالے بچوں کی جانکاری درکار تھی۔جس کو سائیکل چاہئے تھی وہ خود کو اس ویب سائٹ پر رجسٹر کر سکتا تھا۔ لیکن اسی ویب سائٹ پر یہ صاف طور پر لکھ دیا گیا تھا کہ اس ویب سائٹ کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے،اور کس کو سائیکل دینی ہے اور کس کو نہیں یہ حق صرف ویب سائٹ کا ہے۔ فی الحال یہ ویب سائٹ بند کر دی گئی ہے !عوام کو اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ اگر حکومت کوئی اسکیم شروع کرتی ہے تو وہ اس کی جانکاری اسکیم شروع کرنے والے سرکاری محکمے کی ویب سائٹ پر سب سے پہلے شائع کرتی ہے۔دوسری بات، اکثر سرکاری ویب سائٹ gov.in یا nic.in پر ختم ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ کسی دوسری ویب سائٹ سے کسی خبر کی اشاعت ہوتی ہے تو زیادہ گنجائش ہے کہ وہ خبر جھوٹی ہو۔
اس کے علاوہ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ جب کسی اسکیم یا دستاویز کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ سرکاری دستاویز ہے تو اس میں ہجے اور املا کی غلطیوں کو دیکھنا چاہیے۔جیسے اس اسکیم کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ سائیکل تقسیم کی اسکیم ہے جس کا نا پرائم منسٹر سائیکل اسکیم ہے۔اگر یہ حکومت کی اسکیم ہوتی تو اس میں ‘سائیکل’ کی جگہ لفظ ‘بائیسکل’ استعمال ہوا ہوتا۔کئی بار دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا میں عام ہونے والے جعلی دستاویزوں پر گجرات کی ہجے انگریزی میں gujrat لکھی ہوتی ہے، جب کہ اصل لفظ م gujarat یں ٧ حرف آتے ہیں ۔اسی طرح لفظ janata اور yojana کو غلطی سے janta اور yojna لکھ دیا جاتا ہے!
Categories: فکر و نظر