‘ چتر ‘وزیر اعظم نے انتخاب کے لئے طےشدہ وقت سے پہلے ہی خود کو اپنی پارٹی کےانتخابی مہم کی قیادت والے لیڈر کی صورت میں بدل لیا ہے۔ سرکاری نظام اور حمایتی میڈیا کی ہمنوائی کے ذریعے عوام کو یہ یقین کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ ان کی حکومت خوب کام کر رہی ہے۔
4 سال پہلے 26 مئی،2014 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے سارے پڑوسی ممالک کے اعلیٰ رہنماؤں کی موجودگی میں عظیم الشان حلفیہ تقریب میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو امیدوں کا جو سیلاب آیا تھا، اس میں اس خدشہ کے لئے قطعی کوئی جگہ نہیں دکھتی تھی کہ اگلے انتخابی سال سے پہلے ہی یہ سیلاب ناامیدی کے سوکھے میں بدلنے لگ جائےگا۔
یہ ٹھیک ویسی ہی بات ہے جیسے ان کی حکومت کی مدت کے لحاظ سے دیکھیں تو اگلا لوک سبھا انتخاب کے رسمی اعلان میں ابھی کافی دیر ہے، لیکن ان کی تازہ سرگرمیوں سے کہیں سے بھی ایسا نہیں لگتا۔حکومت کی سطح پر دیکھا جائے یا حکومت چلانے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی سطح پر، خم ٹھونکنے کی ان کی تیاریوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوک سبھا انتخاب کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔
بیچ بیچ میں ایسی خبریں بھی آتی ہی رہتی ہیں کہ وزیر اعظم وقت سے پہلےعام انتخابات کے حق میں ہیں اور اس کے موافق ماحول کی تیاری کے لئے پچھلے کچھ مہینوں سے وہ کبھی نمو ایپ کے ذریعے تو کبھی افتتاح یا سنگ بنیاد کے جلسہ کو انتخابی ریلیوں میں بدلکر مختلف سرکاری اسکیموں کے مستفیدوں سے روبرو ہو رہے ہیں۔
البتہ، وہ صرف انہی مستفید کو گھاس ڈال رہے ہیں، جو ان کے وکاس نہ صحیح، ‘پرچارکاریہ’ میں تعاون کر سکیں۔ گزشتہ دنوں راجستھان گئے تو ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت راجستھان کی اپنی پارٹی کی وسندھرا راجے حکومت سے ہم آہنگی قائم کرکے انہوں نے ان دوسری طرح کے مستفیدوں سے دوری بنائے رکھا، جو کسی اسکیم کو لےکر سوال اٹھا سکتے یا ان کےمتعلق کی شکایتں کر سکتے تھے۔
اب یہ ایک ‘روایت’سی ہو گئی ہے چونکہ شکایتں کرنے والے مستفیدین پہلے ہی دور کر دئے گئے ہوتے ہیں، اس لئے حکومت سے حمایت یافتہ اور حکومت کی حمایتی میڈیا وزیر اعظم کے ایسے پروگراموں کی رپورٹنگ میں یہی دکھاتے ہیں کہ کیسے کسی کسان کی آمدنی دوگنی ہو گئی، کسی نئے صنعت کار کو اپنا کاروبار کھڑا کرنے میں مدد ملی یا کیسے محض بیت الخلا بننے بھر سے کسی گاؤں کی تصویر بدل گئی۔
دوسری طرف ان اسکیموں کا فائدہ اٹھانے سے محروم لاکھوں کروڑوں لوگوں کا تجربہ اس کے برعکس ہے اور وہ بار بار ایسے واقعات سے گزرنے پر مجبور ہوئے ہیں، جن میں سرکاری نظام کی کاہلی اور بد عنوانی کی وجہ سے ان کی تکلیفیں بڑھی ہیں، تو اس میڈیا کی بلا سے۔وہ اور اس کو پالنے والی حکومت ایسے تجربات کو لوگوں کے سامنے نہیں آنے دینے کا عہد کر چکی ہیں اور ان کا سارا زور کسی کو بھی یہ پتا نہ چلنے دینے پر ہے کہ عوام سے لئے جا رہے ٹیکس کی بھاری بھرکم رقم اس کے اصل فائدے میں خرچ ہو رہی ہے یا حکومت کے ذریعے اس کی جھوٹھی تشہیر میں؟
بہت سے مبصرین بےوجہ نہیں کہہ رہے کہ ‘ چتر ‘ وزیر اعظم نے انتخاب کے لئے طےشدہ وقت سے پہلے ہی خود کو اپنی پارٹی کے انتخابی مہم کی قیادت سنبھال لی ہے اور سرکاری نظام اور حمایتی میڈیا کی جوڑی سے اندھادھند تشہیر کے ذریعے عوام کو یہ یقین کرنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت خوب کام کر رہی ہے۔جئے پور میں اپنے انتخابی مہم میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت میں سرکاری اسکیمیں نہ لٹکتی ہیں، نہ بھٹکتی ہیں۔ وہ صرف کاغذات پر نہیں رہتیں اور عوام کو ان کا فائدہ پہنچتا ہے، جبکہ پہلے کی حکومتوں میں رہنماؤں کے نام پر صرف پتھر لگانے کا کام ہوتا تھا۔
اتر پردیش کے مرزاپور میں بھی انہوں نے یہی بات دوہرائی۔ المیہ یہ ہے کہ جب وہ سستی واہ واہی لوٹنے کے لئے ایسا کہتے ہیں تو یہ بھی یاد نہیں رکھ پاتے کہ اس کو لےکر ان کا عوام پر احسان جتانا کتنا بےمطلب ہے۔
آخرکار عوام نے 2014 میں ان کو ملک کی کمان اسی توقع سے تو سونپی تھی کہ وہ اس کے مفاد میں جو کچھ بھی کر سکتے ہیں کریں۔ یعنی اپنا فرض صحیح سے نبھائیں۔ نبھائیںگے تو فطری طور پر وہ خوش ہوکر 2019 میں ان کو پھر سے وزیر اعظم بنا دےگا۔ ورنہ کوئی بھی سرکاری تام جھام کام نہیں آئےگا۔
طرہ یہ کہ ایک تو وہ یہ بات یاد نہیں رکھتے اور دوسرا یہ کہ زیادہ ہاتھ پیر ہلائے یعنی کام کئے بنا محض کام کا ڈھنڈورا پیٹکر کام چلانا چاہتے ہیں۔ اب اس کی گواہی اور تو اور ان کی حکومت کے اعداد و شمار تک دینے لگے ہیں۔اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ وزیر اعظم اکثر اپنی تقریروں میں ‘ نیو انڈیا ‘ بنانے کی بات کہتے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے کئی اسکیمیں بھی چلا رکھی ہیں۔ جیسےسوچھ بھارت مشن، امرت مشن، پردھان منتری آواس یوجنا، اسمارٹ سٹی اور جانے کیاکیا۔سوچھ بھارت مشن کو تو انہوں نے سیدھے گاندھی جی سے ہی جوڑ دیا ہے، اس کے پوسٹر اور بینر میں گاندھی جی کا چشمہ بناکر۔ جب بھی وہ ہاتھوں میں جھاڑوں تھامتے ہیں، ان کے سارے وزیر ، رہنما، افسر اور حمایتی اپنے ہاتھوں میں جھاڑولئے تصویریں کھنچوانے لگتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ان کی تصویریں کھینچنے والے کئی کیمروں نے صاف ستھری جگہوں پر کچرا ڈالکر اس کو صاف کرنے کی نوٹنکی بھی دکھائی۔ اس چکر میں سوچھ بھارت بھی ویسے ہی ایک جملہ بنکے رہ گیا جیسے کالا دھن کو واپس لاکر ہر عوام کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے جمع کرنے کا وعدہ۔اس بیچ جو اصل میں صفائی کرتے تھے، ان کو نہ صرف تصویروں سے بلکہ صفائی کے پورے منظرنامہ سے ہی باہر کر دیا گیا، اس لئے صفائی کے نام پر عوام سے ٹیکس وصول کرنے کے باوجود ملک گندہ کا گندہ ہی بنا رہا۔
کم وبیش یہی حشر دیگر سرکاری اسکیموں کا بھی ہے۔ حال ہی میں ایسے کئی انکشاف ہوئے ہیں کہ وزیر اعظم کی کئی دیرینہ اسکیموں پر بھاری بھرکم بجٹ مختص کے باوجود کام نہیں ہوا۔رہائش گاہ اور شہری کام کی وزارت سے جڑی پارلیامنٹ کی مستقل کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسمارٹ سٹی،امرت، ہردیہ ، سوچھ بھارت مشن، پردھان منتری آواس یوجنا اور قومی شہری ذریعہ معاش مشن کی اسکیموں کے شروع ہونے سے لےکر اب تک کل 36,194.39کروڑ روپے کی رقم جاری کی گئی، لیکن ان میں سے خرچ ہوا صرف 7850.71 کروڑ روپے۔
ملک کے سو شہروں کو اسمارٹ بنانے کا جس اسمارٹ سٹی منصوبہ کو اس حکومت نے آکاش کسم کی طرح مشتہر کرکے واہ واہی لوٹی تھی، پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے مطابق اس کے عمل آوری کی رفتار اتنی دھیمی ہے کہ ابھی تک اس کے لئے طےشدہ بجٹ کا صرف سات فیصد ہی استعمال ہوا ہے۔جہاں کمیٹی اس بات کو لےکر پریشان ہے کہ یہ منصوبہ صرف ڈرائنگ بورڈ میں چھپکر رہ گیا ہے، وہیں حکومت کو، یہ صفائی دیتے ہوئے بھی کہ کمیٹی نے یوٹیلائزیشن سرٹیفکٹ کے پرانے اعداد و شمار کو بنیاد مان لیا ہے، ماننا پڑا ہے کہ مرکز اور ریاستوں کے درمیان تال میل نہ ہونے سے منصوبہ پر کام کو آگے بڑھانے میں دقت ہو رہی ہے۔
حکومت کی صفائی قبول کر لیں توبھی منصوبہ کی کوئی پرجوش تصویر سامنے نہیں آتی۔ اس کے مطابق جنوری، 2016 سے شروع اس منصوبہ پر ابھی تک 30 ہزار کروڑ یعنی 37 فیصد رقم خرچ ہو چکی ہے۔سال کے آخر تک جیسا کہ حکومت کا دعویٰ ہے، 20 ہزار کروڑ روپے اور خرچ ہو جائیں توبھی اپنی اس مدت میں ملک کو پہلا اسمارٹ سٹی نہیں دے سکتی کیونکہ اس میں ابھی دیر ہے۔اسی طرح 500 شہروں میں پانی کی فراہمی اور سیوریج کے انتظام کے لئےامرت جل اسکیم کے تحت 12447 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی، لیکن خرچ محض 29 فیصد ہوا ہے۔
سوچھ بھارت مشن کے لئے بھی جتنی رقم دی گئی، اس میں سے صرف 38 فیصد کا ہی استعمال ہوا ہے، جبکہ رہائش گاہ اسکیم میں 20 فیصد کا ہی۔ قارئین کی معلومات کے لئے، بجٹ مختص کے باوجود خرچ نہ ہونے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ان اسکیموں میں کام ہوا ہی نہیں۔ایسے میں وزیر اعظم اور ان کی حکومت سے یہ سوال کیوں نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ وہ اپنی جن کامیابیوں کا ڈھول بجاتے رہتے ہیں، کیا وہ اصل میں کامیابیاں ہیں؟
اگر نہیں تو ان کے ذریعے اپنے کام کا ڈھرا سدھارنے میں دلچسپی لینے کے بجائے پرانی حکومتوں کو کوستے رہنے سے حاصل کیا ہے؟ کیوں چار سال گزرنے کے باوجود ان کا یہ ماتم کم نہیں ہوا کہ کانگریس کی حکومتوں نے اس ملک میں کچھ نہیں کیا؟2014 میں انہوں نے عوام سے باربار کہا تھا کہ انہوں نے کانگریس کو 60 سال دے دئے، اب ہمیں صرف 60 مہینے دے دیں۔ اب یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ انہوں نے ان 60 مہینوں میں سے 50 صرف ہوا بنانے اور باندھنے میں گنوا دئے ہیں اور اب ان کے پاس کچھ کرکے دکھانے کے لئے دس مہینے ہی بچے ہیں۔ یہ دس بھی ہوابازی میں نکال دئے تو کس منھ سے ساٹھ اور مہینے مانگنے جائیںگے؟
(کرشن پرتاپ سنگھ آزاد صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔ )