خبریں

آسام : این آر سی کا آخری مسودہ جاری، تقریباً 40 لاکھ لوگوں کے نام نہیں

این آر سی کو لےکر حزب مخالف بی جے پی حکومت پر حملہ کر رہی ہے۔ ممتا بنرجی نے پوچھا، جن 40 لاکھ لوگوں کے نام رجسٹر میں نہیں ہیں وہ کہاں جائیں‌گے؟ کیا مرکز کے پاس ان لوگوں کے لئے کوئی بازآبادکاری پروگرام ہے؟

گواہاٹی میں این آر سی کا فائنل ڈرافٹ جاری کرتے ہوئے افسر/ فوٹو: پی ٹی آئی

گواہاٹی میں این آر سی کا فائنل ڈرافٹ جاری کرتے ہوئے افسر/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: آسام کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن  (این آر سی) کے دوسرے اور آخری مسودہ کو سوموار کو جاری کر دیا گیا۔ این آر سی میں شامل ہونے کے لئے درخواست کئے 3.29 کروڑ لوگوں میں سے 2.89 کروڑ لوگوں کے نام شامل ہیں اور اس میں41-40 لاکھ لوگوں کے نام نہیں ہیں۔ ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ جن کے نام رجسٹر میں نہیں ہیں  ان کو اپنی بات رکھنے کے لئے ایک مہینے کا وقت دیا جائے‌گا۔ بتا دیں کہ این آر سی کا پہلا مسودہ 31 دسمبر اور 1 جنوری کو جاری کیا گیا تھا، جس میں 1.9 کروڑ لوگوں کے نام تھے۔

اس موقع پر آسام کے وزیراعلیٰ سربانند سونووال نے لوگوں کو مبارکباد دی اور کہا کہ یہ تاریخی دن ہمیشہ لوگوں کی یادوں میں رہے‌گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا، ‘ سپریم کورٹ کی دیکھ ریکھ میں مرکز اور ریاستی حکومت کے افسروں کے ساتھ ہندوستان کے جنرل رجسٹرار کے تعاون سے آخری مسودہ کی اشاعت کا عمل پورا کیا گیا۔ لوگوں سے التجا کی کہ اگر ان کے نام فہرست میں نہیں ہیں تو گھبرائے نہیں کیونکہ تمام اصلی امید وار کو دعووں اور اعتراضات کے لئے پورا موقع ملے‌گا۔ ‘

انہوں نے لوگوں سے التجا کی کہ اگر ان کے نام فہرست میں نہیں ہے تو وہ گھبرائے نہیں کیونکہ ‘ تمام اصلی امید وار کو دعووں اور اعتراضات کے لئے کافی وقت ملے‌گا۔ ‘ بندی بنانے کے ڈر کو خارج کرتے ہوئے سونووال نے کہا کہ آخری مسودہ کی اشاعت کے بعد کسی کو بھی حراست مرکز میں نہیں بھیجا جائے‌گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت این آر سی پر کوئی بھی ‘ فرقہ وارانہ تبصرہ ‘ برداشت نہیں کرے‌گی اور لوگوں کو تقسیم کاری طاقتوں کے غلط منصوبوں کو ناکام کرنے کے لئے مل‌کر کام کرنا چاہیے۔

اس دوران انڈین  جنرل رجسٹرار شیلیش نے کہا، ‘ یہ ہندوستان اور آسام کے لئے ایک تاریخی دن ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر کبھی ایسا نہیں ہوا۔ سیدھے سپریم کورٹ کی نگرانی میں کیا گیا یہ ایک قانونی عمل ہے۔ ‘ انہوں نے کہا کہ یہ عمل شفافیت، غیرجانبداری اور منطقی طریقے سے کیا گیا ہے۔ این آر سی میں ان تمام ہندوستانی شہریوں کے ناموں کو شامل کیا جائے‌گا جو 25 مارچ، 1971 سے پہلے سے آسام میں رہ رہے ہیں۔

آخری مسودہ میں جن لوگوں کے نام شامل نہیں کئے گئے ان پر شیلیش نے کہا، ‘ مسودہ کے تعلق سے  دعویٰ کرنے اور اعتراض کرنے کا پروسیس  30 اگست سے شروع ہوگا اور 28 ستمبر تک چلے‌گا۔ لوگوں کو اعتراض جتانے کی مکمل اور کافی گنجائش دی جائے‌گی۔ کسی بھی اصل ہندوستانی شہری کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘ انہوں نے کہا کہ این آر سی کی درخواست پرعمل مئی 2015 میں شروع ہوا تھا اور ابھی تک پورے آسام سے 68.27 لاکھ فیملیوں کے ذریعے کل 6.5 کروڑ دستاویز حاصل کئے گئے ہیں۔

حالانکہ این آر سی مسودہ جاری ہونے کے بعد حزب مخالف بی جے پی حکومت پر حملہ آور ہے۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا، ‘ جن 40 لاکھ لوگوں کے نام رجسٹر میں نہیں ہیں وہ کہاں جائیں‌گے؟ کیا مرکز کے پاس ان لوگوں کی بازآبادکاری کے لئے کوئی پروگرام ہے؟ آخرکارمغربی بنگال کو ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے‌گا۔ یہ بی جے پی کی ووٹ پالٹکس ہے۔ وزیر داخلہ سے گزارش ہے کہ وہ اس میں ترمیمی تجویز لائیں۔ ‘

آسام میں این آر سی کے مدعے پر کانگریس، ایس پی  اور ترنمول کانگریس کے ممبروں کے ہنگامے کی وجہ سے سوموار کو راجیہ سبھا کے اجلاس ایک بار کی ملتوی کے بعد دوپہر دو بجے تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ ہنگامے کی وجہ سے آج ایوان بالا میں زیرو سیشن اور سوال کا سیشن نہیں ہو پائے۔ آسام میں این آر سی کا متوقع دوسرا اور آخری مسودہ سوموار کو جاری ہوا ہے۔ آسام کے شہریوں کی شناخت کے لئے ثبوت مانے جانے والے این آر سی کا پہلا مسودہ 31 دسمبر اور 1 جنوری کے درمیان رات کو جاری ہوا تھا۔

دوسرے اور آخری مسودہ کو لےکر ہی ایوان بالا میں کانگریس، ایس پی  اور ترنمول کانگریس کے ممبروں نے ہنگامہ کیا۔  ایم وینکیا نائیڈو نے جیسے ہی ایوان میں زیرو سیشن  شروع کرنے کو کہا، ترنمول کانگریس کے ڈیریک او براین نے این آر سی کا مدعا اٹھایا۔ ان کی پارٹی کے ممبروں کے ساتھ ہی کانگریس اور ایس پی  کے ممبروں نے بھی این آر سی کے مدعے پر فوراً بحث کی مانگ کی۔

نائیڈو نے کہا کہ ان کو اس مدعے پر بحث کے لئے نہ تو کوئی نوٹس ملا ہے اور نہ ہی کوئی خط ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کچھ ممبروں نے ان سے ملاقات کی اور کہا کہ آج وہ این آر سی کا مدعا ایوان میں اٹھانا چاہتے ہیں۔  نائب صدر نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے خودہی وزیر داخلہ سے ایوان میں آنے کی التجا کی تھی تاکہ ممبروں کے سوالوں کے جواب دیے جا سکیں۔ نائیڈو نے ممبروں سے خاموش ہونے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود چاہتے ہیں کہ این آر سی کے مدعےپر ایوان میں بحث ہو۔

انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ایوان میں موجود ہیں اور وہ چاہیں‌گے کہ وزیر داخلہ این آر سی کے مدعے پر اپنی بات رکھیں۔ نائیڈو نے ہنگامہ کر رہے ممبروں سے کہا کہ وہ کارروائی چلنے دیں نہیں تو ایوان ملتوی کر دیا جائے‌گا۔ وہیں مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ آسام کے لیے این آر سی کا مسودہ پوری طرح سے ‘غیر جانبدارانہ’ ہے اور جن کا نام اس میں شامل نہیں ہے ان کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ان کو ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کا موقع ملے گا۔

 انھوں نے کہا کہ لوگ جان بوجھ کر اس کے بارے میں ڈر کا ماحول بنا رہے ہیں۔ لوک سبھا میں بولتے ہوئے سنگھ نے کہا کہ اس میں مرکز کا کوئی رول نہیں ہے۔ انھوں نے کہا،’ میں اپوزیشن سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس میں مرکز کا کیا رول ہے؟ یہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوا ہے۔ ایسے حساس مدعوں پر سیاست نہیں ہونے چاہیے۔ ‘

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے  ان پٹ کے ساتھ)