خاص مضمون :سینئر صحافی پنیہ پرسون باجپئی بتارہے ہیں کہ نیوز چینلوں پر نکیل کسنے کے لیے وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت بنائی گئی 200لوگوں کی خفیہ فوج کیا اور کیسے کام کرتی ہے۔
دہلی میں سی بی آئی ہیڈکواٹر کے قریب میں ہے سوچنابھون،اور سوچنا بھون کی دسویں منزل ہی ہے ملک بھرکے نیوز چینلوں پر سرکاری نگرانی کا گراؤنڈ زیرو۔ہر دن چوبیسو ں گھنٹے۔تمام نیوزچینلوں پر نگرانی رکھنے کے لئے 200 لوگوں کی ٹیم لگی رہتی ہےاور گزشتہ چار سالوں میں یہ پہلا موقع آیا ہے کہ مانیٹرنگ کرنے والوں کے موبائل اب باہر ہی رکھوا لئے جا رہے ہیں۔
اور پہلی بار اے ڈی جی نے میٹنگ لےکرمانیٹرنگ کرنے والوں کو ہی خبردارکیا کہ اب کوئی انفارمیشن باہر جانی نہیں چاہیے جیسے “ماسٹراسٹروک “کی مانیٹرنگ کی جانکاری باہر چلی گئی۔تو ایسے میں سالوں سال سے کام کرنے کے باوجود چھ چھ مہینے کے کانٹریکٹ پر کام کر رہے مانیٹرنگ سے جڑے ویسے دس پندرہ لوگو کو ہٹانے کی تیاری ہو چلی ہے جو مانیٹرنگ کرتے ہوئے مستقل خدمات اور زیادہ پے اسکیل کی مانگکر رہے تھے۔
ویسے مانیٹرنگ کرنے والوں کو صاف ہدایت ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ کو کون سا نیوز چینل کتنا دکھاتا ہے، اس کی پوری رپورٹ ہر دن تیار ہو۔کچھ لالچ اپنی امیج کو لےکر وزیر اطلاعات و نشریات راجیہ وردھن راٹھور کو بھی ہے تو وہ بھی اپنی رپورٹ تیار کرواتے ہیں کہ کون سا چینل ان کو کتنی جگہ دیتا ہے۔یعنی نیوز چینل کیا دکھا رہے ہیں۔کیا بتا رہے ہیں۔اور کس دن کس موضوع پر مذاکرہ کراتے ہیں۔
ان مباحث اور مذاکرےمیں کون شامل ہوتا ہے۔کون کیا کہتا ہے۔کس کی بات حکومت کےموافق ہوتی ہے۔کس کی حکومت مخالف ۔یعنی ایک ایک چیز پر نظر،لیکن کنٹینٹ اور مواد کو لےکر سب سے تیز نظر پرائم ٹائم کے بلیٹن پر۔اور خاص طور پر یہ کہ نیوز چینل کا رخ کیا ہے۔ کیسی رپورٹ دکھائی اور بتائی جا رہی ہے۔رپورٹ اگر سرکاری پالیسیوں کو لےکر ہے تو الگ سے رپورٹ میں ذکر ہوگااور آہستہ آہستہ رپورٹ در رپورٹ تیار ہوتی جاتی ہے۔فائل موٹی ہوتی رہتی ہے۔
اس کے بعد مانیٹرنگ کرنے والوں کی نگاہوں میں وہ چہرے بھر دئے جاتے ہیں جن کے پروگرام پر خاص نظر رکھنی ہے۔یعنی رپورٹ در رپورٹ کی تشخیص کچھ اس طرح ہوتی ہے جس میں حکومت موافق ہونے کی گریڈنگ کی جاتی ہے۔اور جو سب سے زیادہ حکومت کی تعریف کرتا ہے ان کو اطمینان بخش زمرے میں ڈالا جاتا ہے۔جو چینل درمیانی زمرہ میں آتے ہیں یعنی وزیر اعظم کا چہرہ کم دکھاتے ہیں۔ان کو مانیٹرنگ ٹیم میں سے کوئی فون کر دیتا ہے اور دوستی بھرے انداز میں خبردارکرتا ہے آپ کو اور دکھانا چاہیے۔
بات چیت کیسے ہوتی ہے یہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔گزشتہ ہفتے ہی نوئیڈا سے چلنے والے یوپی مرکوز ایک چینل کے مدیر کے پاس فون آیا۔پرانی پہچان کا حوالہ دیتے ہوئے میڈیا پر بات ہوئی۔اس کے بعد دوستی بھرے انداز میں خبردارکیا گیا؛”آپ کا چینل کم دکھاتا ہے۔کس کو کم دکھاتا ہے۔ارے اپنے پردھان منتری جی کو۔ارے نہیں ہم تو خوب دکھاتے ہیں۔وہ آپ کے مطابق خوب ہوتا ہوگا ہم تو مانیٹرنگ کرتے ہیں نا۔رپورٹ دیکھ رہے تھے آپ کے چینل کا نمبر کہیں بیچ میں ہے۔اب آپ کہہ رہے ہیں تو اور دکھائیں گے۔ارے جیسا آپ ٹھیک سمجھیں۔”
تو یہ مشورہ ہے یا دھمکی؟تو سوچیے کیسے چینلوں میں ہوڑ لگتی ہوگی کہ کون زیادہ سے زیادہ وزیر اعظم مودی کو دکھاتا ہوگا۔اور کتنوں کویاری دوستی میں خبردارکرنے کے لئے فون کیا جاتا ہوگا۔لیکن اس کے آگے مانیٹرنگ کی پہل یاری دوستی نہیں دیکھتی۔مشورہ کے طور پر ابھرتی ہے۔اور اس بار فون سوچنا بھون سے باہر نکلکر وزارت اطلاعات یا بی جے پی دفتر تک پہنچتا ہے۔جس میں کسی خاص خبر یا کسی خاص موقع پر چینل کو سیدھا کاٹنے سے لےکر بحث کے موضوع تک بتانے کے لئے ہوتا ہے۔اور چینل نے اگر دکھایا نہیں یا بحث نہیں کی جو مشورہ بھرے انداز میں خبردار کرنابھی ہوتا ہے۔جیسے،”ارے آپ سمجھ نہیں رہے ہیں، یہ کتنا اہم مدعا ہے۔
آپ مدیر ہیں آپ ہی فیصلہ لیں لیکن ملک کے لئے کیا ضروری ہے یہ بھی تو سمجھیے۔آپ ملک کے مفاد کو دھیان میں نہیں رکھتے۔دیکھیے وقت بدل رہا ہے، اب پرانی سمجھ کا کوئی مطلب نہیں۔اورآخری انداز…آپ تو سمجھتے ہیں… دھیان دیجئے، نہیں تو ہم آپ کے پروگرام میں آ نہیں پائیں گے۔ ” یہاں یہ جاننا بھی اہم ہے کہ اس کے آگے کے طریقے چینلوں کے مالکو ں تک پہنچتے ہیں۔عام طور پر تو اب مالک ہی خود کو مدیر ماننے لگے ہیں تو پروفیشنل مدیر کی حیثیت بھی مالک مدیر کے سامنے اکثر ٹرینی والی ہو جاتی ہے۔اور عہدہ ، پیسے اور شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے پروفیشنل مدیر بھی اکثر بدل جاتا ہے۔
ان حالات کے درمیان جب مانیٹرنگ کرنے والوں کی تیار کردہ رپورٹ کی فائل جب کسی مالک مدیر کے پاس پہنچتی ہے۔تو دو رد عمل صاف دکھائی دیتا ہے۔پہلا، ہمارا چینل اتنا شاندار ہے جو حکومت کو نوٹس لینا پڑا۔دوسرا، اتنی موٹی فائل میں کچھ تو سچ ہوگا۔تو پھر مدیر کی کلاس لی جاتی ہے۔اور چینل سرنگوں ہو جاتا ہے۔لیکن پہلے رد عمل کے بھی دو چہرے ہیں۔ایک مالک مدیر کو لگتا ہے کہ فائل کے ذریعے سودے بازی کی جا سکتی ہے۔اور دوسرا، اگر چینل پر دکھائی گئی حقیقت صحیح ہے تو پھر سرکاری فائل سوائے ڈرانے کے اور کچھ نہیں۔تو ایسے میں صحافت کی ساکھ پر داؤ نہ آئے یہ سوچ بھی بیدار ہوتی ہے۔لیکن اس دائرے میں کتنے آ پاتے ہیں یہ تو سوال ہے۔لیکن ایسے مالک مدیر ہیں اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں : اے بی پی نیوز سے استعفیٰ کی کہانی، پنیہ پرسون باجپئی کی زبانی
خیر مانیٹرنگ کے ان طریقوں پر غور کرنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ مانیٹرنگ کا چہرہ مودی حکومت کی ہی دین ہے ایسا نہیں ہے۔لیکن مودی حکومت کے دور میں مانیٹرنگ کے معنی اور مانیٹرنگ کے ذریعہ میڈیا پر نکیل کسنے کا انداز ہی سب سے اہم ہو گیا۔انکار اس سے بھی نہیں کیا جا سکتا۔منموہن سنگھ کے دور میں یعنی 2008 میں ہی مانیٹرنگ کا آغاز ہوا تھا۔لیکن تب منموہن کے دور میں “بھارت نرمان”اسکیم مرکز میں تھی۔یعنی دیہی علاقوں میں بھارت نرمان کو لےکر چینلوں کے کوریج پر دھیان۔2009 میں امبیکا سونی اطلاعات و نشریات کی وزیر بنی تھیں۔تو مانیٹرنگ کے ذریعہ حساس مسائل پر نظر رکھی جانے لگی۔اس وقت نہ تو منموہن سنگھ نہ ہی امبیکا سونی کی اس میں دلچسپی جاگی کہ مانیٹرنگ کے ذریعہ امیج نکھارنے کی سوچی جائے۔
ہاں جانکاری ہونی چاہیے یہ ضرور تھا۔لیکن امیج کو لےکرتشویش کانگریسی دور میں منیش تیواری میں جاگی جب وہ اطلاعات ونشریات کےوزیر بنے۔ان کے تیور نرالے تھے۔لیکن 2014 میں اقتدار بدلتے ہی مانیٹرنگ کرنےاور دیکھنے کا نظریہ بدل گیا۔پہلے جہاں 15سے 20 لوگ کام کرتے تھےوہ تعداد 200 تک پہنچ گئی اور باقاعدہ سوچنا بھون میں شاندار تکنیکی وسائل لگائے گئے۔براڈکاسٹ انجینئرنگ کارپوریشن انڈیا لمیٹڈکے ذریعہ تقرری شروع ہوئی۔گریجویٹ پاس لڑکے اور لڑکیوں کی تقرری شروع ہوئی۔
گریجویٹ ہونے کے ساتھ محض ایک سال کے ڈپلوما کورس والے بچو ں کو 28635 روپے دےکر 6 مہینے کے کانٹریکٹ پر رکھا گیا۔مستقل کبھی کسی کو نہیں کیا گیا۔مانیٹرنگ کے عہدے سے اوپر سینئر مانیٹرنگ [37450] اور کنٹینٹ ایڈیٹر [49500]جن کی کل تعداد 50 ہے ان کو بھی مستقل نہیں کیا گیا۔چاہے ان کو بھی کام کرتے ہوئے 4 سال ہو گئے ہوں۔یعنی مانیٹرنگ اس بات کو لےکر کبھی نہیں ہوئی کہ چینل ان مسائل کو اٹھاتے ہیں یا نہیں جو پبلک اتھارٹی سے جڑے ہوں جو آئین سے جڑے ہوں۔
گزشتہ چار سال سے مانیٹرنگ صرف اسی بات کو لےکر ہو رہی ہے کہ وزیر اعظم مودی کی امیج کیسے نکھارتے رہیں۔دلچسپ تو یہ بھی ہے کہ مانیٹرنگ کے نشانے پر سب سے پہلے ڈی ڈی نیوز ہی آیا۔جس نے شروعات میں ہی وزیر اعظم مودی کے غیرملکی دوروں کو سب سے کم کوریج دیا۔ تو اس کے بعد ڈی ڈی نیوز میں ہی خاصی تبدیلی ہو گئی۔یعنی مانیٹرنگ کا مطلب امیج بنانا۔پالیسیوں کی تشہیرو توسیع میں پرائیوٹ چینلوں کو بھی لگا دینا۔طریقے کئی رہےاور وزیر اعظم کے ساتھ گزشتہ چھ مہینوں میں دوسرا نام بی جے پی صدر امت شاہ کاجڑا ہے۔اب چینل در چینل ان کے کوریج کے پیمانے کو بھی ناپاجا رہا ہےاوراطلاعات و نشریات کے نئے وزیر بھی اسی کڑی میں اپنی کوریج رپورٹ منگانے لگے ہیں۔
لیکن پہلی بار ‘ماسٹراسٹروک ‘ کیس کے بعد سوچنا بھون کی ایمرجنسی جیسی حالت ہو گئی ہے۔ لگاتار پوچھ تاچھ، میٹنگ اور نگرانی کی جا رہی ہے کہ مانٹیرنگ کی کوئی بات مانیٹرنگ کرنے والا باہر نہ بھیج دے۔نظر رکھی جا رہی ہے۔اب مانیٹرنگ کرنے والوں کے موبائل تک باہر دروازے پر رکھوا لئے جا رہے ہیں۔موبائل نمبروں کو بھی کھنگالا جا رہا ہے کہ آخر کیسے مانیٹرنگ کرنے والے شخص نے ہی ‘ ماسٹراسٹروک ‘ پر تیار ہو رہی رپورٹ کو باہر پہنچا دیا۔تو میڈیا پر نکیل کسنے کے لئے مانیٹرنگ کی انوکھی مشقت جاری ہے۔
Categories: فکر و نظر