پاکستان ، ہندستان کی تہذیبی علامات کا امین سہی، لیکن تاریخی طور پر ہندستان کے صدر دفترتک پہنچنے کا ایک راستہ رہا ہے۔ ایک گُزر گاہ۔ گُزر گاہ جِس سےکارواں اپنے قدیمی پڑاؤ ہندستان کو جاتے تھے ۔
مبہم رومانوی تشریحوں، تر کیبوں یا تشبیہوں کی سیاست ،پا لیسی سازی یا ریا ستی امور سے شا ید صرف اِتنا ہی تعلق ہے کہ کو ئی ذہین، حساس اوردِلدار سیاستداں ، بابُو یا سفارت کار اِن سے حَظ اٹھا ئے یا پھر اُسےاِن سے کوئی خُدائی اِشا رہ ملے۔ اُس کا دھیان کسی واضح سمت میں چل پڑ ے اور یہ سفر معنی خیز ہو ۔اب دیکھیں اگر محمود درویش نے فلسطین کو ’بیڑیو ں میں جکڑی شادمانی‘ کہا یا’ ڈاک میں بھیجا ہُوا بوسہ‘ ؛ کار لوس فیئونٹِس نے میکسیکو کو ’روٹی سے خالی ہا تھ اور خوابوں سے بھری کھو پڑی‘قرار دیا اور اوکتاویو پاز نے اِس کی تنہائی کی بھُو ل بھلیوں میں اِ س کے تشخص کو کھو جا ؛
فیض صاحب نے اپنے وطن کو ’زرد پتّوں کا بَن ‘ ، ’درد کی انجمن ‘ کہا اور مجید امجد نے اِسے ’ ڈھیر اِک اَن مَنجھے برتنوں کا‘ تو ہمیں خیال یا لفظوں کی بے پایاں خُوبصورتی کے یا لمحہ بھر کی بے سُود اُداسی کےسِوا کیا مِلا ۔لیکن (شا ید ) زندگی چو نکہ اِبہام کے حُسن سے معنویت کی بد صورتی کی جانب اور وہاں سے واپسی کی مُسلسل خواہش کا نام ہے ، اِ س لیےسیاسی جغرافیے کی ایسی موسیقیت کی ، جِس کی دُھن میں ہم اِس دائرے میں گھُومتے رہیں ، کبھی نہ ختم ہو نے والی ضرورت رہتی ہے۔
پاکستان کے بارے میں سوچتے سوچتے آپ کو پہلا سہل خیال مثنوی مولانا روم کی اُس بانسری کا آتا ہے جو اپنے اَصل سے الگ ہو کر جُدائیوں کی شکایت کرتی ہے… لڑ کھڑاتی ، ہِچکولے کھاتی، ایک نئی پہچان کی ، اپنے سماجی و معاشی استحکام کی تلاش میں…اپنے اَصل سے دُور اپنے وصل کے زمانوں کو ڈُھونڈتی پھِرتی ہے؟ پاکستان کا اَصل ہندستان؟ مگر ہندستان کا اَصل اِس کی عظیم تہذیب کا افسانہ اور اُس کی یاد داشت جو قدیم ماضی سے اَب تک اُن نِشانیوں کا مجموعہ ہے جن میں سے بہت سی پاکستان کے وُجود کا حصہ ہیں …
اِندُو نَدی،موہن جو دڑو تہذیب کے شہر، چانکیہ کی درسگاہ، صِفر کا گاؤں بخشلی اور مدھو بالا۔ یہ بہت دِلچسپ بات ہے کہ ہندستان میں موجودہ سرکار کے زیرِ سایہ فروغ پذیر ریاستی بیانیہ اِنہی علامات سے جُڑا ہُوا ہے جِس کا مرکز پاکستان ہے۔ گویا پاکستان وہ آئینہ ہے ، جِس میں بانکے سجیلے شہزادے بھارت کو ہر بار ’باہر دنیا کے سامنے ‘جانے سے پہلے اپنا چہرہ د یکھنا ہے؟مگر یہ بھی سِتم ظریفی ہے کہ ’گھر واپسی‘ اگر پاکستان کے لیے مُمکن نہ ہو تو یہ اپنے اَصل کو ، ہندستان کو، اپنے جغرافیے میں کہاں اور کب تک سمیٹے گا، خُصوصاً جب یہ طے پا گیا ہو کہ تہذیبی حقیقت سے اہم نئی شناخت پر مبنی ریاستی بیانیہ ہے، و ہی جِس پہ ریاست کی اساس قائم ہے ۔
مولانا روم کی بانسری کا نیا گیت فراق کا نہیں ، اجنبیت کا ہے۔یہ اپنے وُجود کی حقیقت کے اِنکار کا گیت ہے۔پاکستان ، ہندستان کی تہذیبی علامات کا امین سہی، لیکن تاریخی طور پر ہندستان کے صدر دفترتک پہنچنے کا ایک راستہ رہا ہے۔ ایک گُزر گاہ۔ گُزر گاہ جِس سےکارواں اپنے قدیمی پڑاؤ ہندستان کو جاتے تھے ۔ شاید پاکستان کے مزاج کی ، اِس کے اُبال کی ، اِس کی بے چینی کی، عارضی پن کی اور عدم اِستحکام کی تشریح اِسی سے ہوتی ہے کہ یہ ایک راستہ ہے فقط۔گُزر گاہ کو صِرف اِستعمال کیا جاتا ہے۔ اُسے اپنایا نہیں جاتا ۔کوئی ذاتیت جنم نہیں لیتی تو گھر نہیں بنایا جاتا ، صِرف چند لمحے بیٹھا جا سکتا ہے۔ جو اُس پہ مِلکیت ظاہر کرتا ہے، قابض کہلاتا ہے۔ اور شاہراہ کا قابض زیادہ دیر ٹِکتا نہیں۔اور چونکہ حقوقِ مِلکیت نہیں ہوتے تو یہاں اِس آزاد میدان میں صِرف بے ضابطگی اور غیر رسمیت کی ثقافت پروان چڑھتی ہے( جہاں عین مُمکن ہے فنکار پیدا ہوں جو اپنے فن میں یکتا ہوں اور جِن کا جنم صِرف بے ترتیبی کی ذرخیز ی کی مر ہونِ مِنت ہو نہ کہ کسی اِدارتی کاوش کی)۔ راستے کی دو سمتیں ہوتی ہیں ، اُس پر دو گھڑی بیٹھنے والے اِنہی دونوں اطراف کو دیکھتے رہتے ہیں اور اُنہیں اِس کی عادت ہو جاتی ہے۔ منظر کی دو رنگی کا سامنا اُن کا معمول ہو جاتا ہے۔ اگر اُس راستے سے اور راستے بھی جُڑنے لگیں تو سمتیں بڑھنے لگتی ہیں ، تذبذب بڑھتا چلا جاتا ہے۔
پاکستان ایک تاریخی شاہراہ ہے جہاں سے کبھی یوُنانی گُزرے تھے، کبھی عرب، کبھی فارسی، افغان اور انگریز۔ آخری قافلے کو گئے ستر سال ہوئے اور یہ نسل ایک بہت دِلچسپ وقت کی گواہ ہے جِس میں یہاں چینی قافلہ اُتر رہا ہے۔ جِس کا رُخ ہندستان کی طرف نہیں بلکہ بحیرہ ٔعرب کی جانب ہے۔ اِس گُزر گاہ کا سماج یہاں سے گُزرنے والے کاروانوں کے مُطا بق ڈھلتا رہا ہے۔ اور بدلاؤ صِرف ظاہری نہیں رہا کبھی ، باقاعدہ سوچ میں تبدیلی آتی تھی ۔ پُورے پُورے اِنسان بدلتے تھے۔عربوں جیسے، فارسیوں جیسے، انگریزوں جیسے ۔ آخری قافلے کے جانے کے بعد، ان ستر سالوں میں امریکی آتے تو تھے لیکن خفا خفا رہتے تھے یہاں۔ پھر بھی لوگ بدلے اور تھوڑا تھوڑا امریکی مزاج آیا ہی چاہتا تھا کہ نئے مہمان وارد ہوۓ۔ہاں البتہ بھارت میں امریکا ٹھہر ہی گیا۔ اب جبکہ ہندستانیوں کی ایک پوری نسل ‘امریکی پناہ گزینوں’ یا’ جِلاوطن امریکیوں‘ کی طرح بھارت میں رہتی ہے اور اپنے ارد گرد پھیلی بھارتی حقیقت کو امریکیوں کی طرح دیکھتی ہے تو جدائی کے ستر سال بعد پاکستان میں چینی اترتے ہیں۔ اورپاکستانیوں کی یہ نسل اِس شاہراہ کے ایک بار پھر بدلتے سماج کی خُفیہ تاریخ دان ہے۔
اب یوُں ہے کہ ،سڑکوں ، گلیوں ، بازاروں میں چینی دِکھتے ہیں اور چینی سرمایے کا غرور دِکھتا ہے ۔ چینی زبان سیکھنے والے بڑھ رہے ہیں۔چینی مزاج سمجھنے والے بڑھ رہے ہیں۔نئےریڈیو چینل اور اخبار نکل رہے ہیں۔گیتوں اور خبروں کے ذریعے چینی شناسائی پھلتی پھُولتی ہے۔ پاکستانی مرد اور عورتیں چینیوں سے شادیاں کر رہے ہیں۔ پاکستانی معا شرے میں چینیوں کے لیئے جگہ بڑھ رہی ہے ۔ بات تِجارت، صنعت ، دِفاع اور سلامتی کے معاملات سے آگے نکل چُکی ہے اور دو طرفہ باہمی اعتماد نئی حدوں کو چھُو رہا ہے۔سرکاری دفتروں میں اُن کے لئے ترجیح بڑھ رہی ہے ۔ اُن سے متعلق معاملات میں اُن سے زیادہ سے زیادہ مشاورت ہوتی ہے۔ افسر چینیوں کے ساتھ اُن کے تہوار مناتے ہیں اور چینی اپنے زیرِ سایہ شُروع ہونے والی عا لمگیریت کے نئے باب کا جشن ۔
تعاون کی اِس ’گیم چینجر‘ فضا پر کسی سیاسی ، سماجی یا مذہبی جماعت کو کوئی اعتراض نہیں، ہاں البتہ کُچھ لوگ اِس آغاز کو ’ایسٹ اِنڈیا کمپنی کی واپسی ‘ کا نام دے رہے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ پا کستان چین کا ایک صوبہ ، ایک کالونی بننے جا رہا ہے یا یہ کہ ترقی کا یہ نیا خواب ، قرضوں کا ایک نیا دَلدل ہے۔ جیسا کہ بھارت میں بہت لوگ کہتے ہیں ۔یہ سب باتیں اہم ہیں جِسے پاکستان سرکار نے دیکھنا ہے ۔ مگر شاید اہم یہ بات بھی ہے کہ یہ نُقطہ جہاں سے چینی عا لمگیریت کی شروعات ہو رہی ہے ، تہذیبی نُقطہ ٔ فراق بھی ہے جہاں سے اِن بھارت پاکستان کی خلیج اور وسیع ہو گی۔ مُشابہت کا کوئی گُمان اگر ہے بھی تو نہیں رہے گا اور پھر اِ س کا نا سٹلجیا بھی ایک کہاوت بن جاۓ گا۔
(آصف محمود کی شاعری کا پہلا مجموعہ’ پہلا رنگ مِلاوٹ والا ‘ پِچھلے سال شائع ہُواہے آپ اِس کو یہاں سن سکتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر