اتنے بڑے اسکینڈل کے باوجود’جنگل راج‘ کااستعمال کہیں نہیں کیا گیا۔ گذشتہ دو دہائیوں سے ایک روایت سی بن گئی تھی کہ جب بھی اتر پردیش یا بہار میں کوئی بڑا جرم یا لاقانونیت کا معاملہ سامنے آتا تھااخبارات اور ٹی وی فوراً اس کو جنگل راج سے تشبیہ دیتے تھے۔
بہار کے مظفر پور میں ایک شیلٹرہوم میں نابالغ لڑکیوں کے ساتھ طویل عرصہ تک جنسی زیادتی کامنظر عام پر آنا ایک ایسا واقعہ ہے جس نے پورے ملک میں لوگوں کو بے چین کیا ہے۔ اس کے بعد اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں بھی سرکاری اور پرائیویٹ ہاسٹلز میں ایسے ہی واقعات سامنے آئے۔اتنے بڑے پیمانے پر سرکاری مدد سے چلنے والے اداروں اور سماجی انصاف کے محکمہ کی ناک کے نیچے اس طرح کی حیوانیت جس میں کئی افسران بھی ملوث ہوں،کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے بے حد شرمناک ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے اسکینڈل کے باوجود لفظ ‘جنگل راج’ کا استعمال کہیں نہیں کیا گیا۔ گذشتہ دو دہائیوں سے ایک روایت سی بن گئی تھی کہ جب بھی اتر پردیش یا بہار میں کوئی بڑا جرم یا لاقانونیت کا معاملہ سامنے آتا تھا تو اخبارات اور ٹی وی فوراً اس کو جنگل راج سے تشبیہ دیتے تھے۔لالو پرساد یادو کے دورحکومت میں اکثر ہندی اخبارات کسی بھی بڑی واردات کے بعد ‘بہار میں جنگل راج ‘ کا اعلان کرتے تھے۔غور طلب بات یہ بھی ہے کہ بیچ میں جب نتیش کمار غیر بی جے پی والی حکومت کی قیادت کر رہے تھے تو بار بار کئ ٹی وی چینلز کی طرف سے جنگل راج کی واپسی بات کہی گئی۔ یہی نہیں اتر پردیش میں بھی مایا وتی اور اکھیلیش یادو کے دور میں کسی بھی ضلع میں ایک بڑی واردات ہوتی تھی، تو فوراًٹی وی چینلز اور اخبار، ‘اتر پردیش میں جنگل راج جاری’ قسم کی ہیڈ لائنزکے ساتھ خصوصی پروگرام پیش کرتے تھے۔
مدھیہ پردیش ایک ایسا صوبہ ہے جو ہندوستان میں خواتین کے ساتھ جنسی تشدد اور زیادتی کے معاملے میں تقریباً بیس سال سے سر فہرست رہا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ شیوراج سنگھ چوہان کے دور حکومت میں صوبے میں ساڑھے چار ہزار سےزیادہ ریپ کے کیس ہر سال درج ہو رہے ہیں، جو ملک میں سب سے زیادہ ہیں۔اس کے باوجودصوبے کے نظم و نسق کو لے کر نیشنل میڈیا میں یہ فقرہ کبھی استعمال نہیں ہوا۔ یہ تب ہے جب کہ مدھیہ پردیش کی آبادی اتر پردیش کی آدھی بھی نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش آبادی کے لحاظ سے ملک میں پانچویں نمبر پر ہے مگر کرائم گراف میں یہ صوبہ بہت آگے ہے۔
‘جنگل راج’ کہنا صرف تنقید نہیں ہے۔ یہ ایک بڑا ‘سوئپنگ اسٹیٹ منٹ’ہوتا ہے جو ایک طرح سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ حکومت ناکام ہو گئی ہے ۔ اس دور میں جب کہ سب کچھ برانڈنگ کے حساب سے چلتا ہے، ‘جنگل راج’ کی اصتلاح کا مکرر استعمال، کسی بھی پارٹی ، اسٹیٹ یا لیڈر کے لئے بے حدمنفی ہوجاتا ہے۔ بہار میں جب نتیش کمار کی سرکار پہلی بار بنی، تب یہ مانا جانے لگا کہ کرائم ریٹ کم ہوا ہے اور نتیش کو ‘سشاسن بابو’ کہا جانے لگا۔ایسا نہیں ہے کہ نتیش کے شروعاتی دور میں جرم نہیں ہوتے تھے۔ فاربس گنج فائرنگ جیسے واقعات ہوئے جبکہ لالو یادو کا دور فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات سے پاک رہا۔ مگر نتیش کمار کے اقتدار میں آنے کے بعد ‘جنگل راج’ کی اصطلاح میڈیا سے غا ئب ہو گئی۔
سماجوادی پارٹی کے دور حکومت میں ضرور اتر پردیش میں جرائم کے سلسلے میں یہ اصطلاح سننے میں آتی رہی۔ مگربی جے پی سرکار بننے کے بعد، یوگی حکومت کے دور میں مجرموں کا بے خوف ہو کر قتل عام میں ملوث ہونااور فرقہ وارانہ تشدد کے انگنت واقعات کے با وجود ‘جنگل راج’ لفظ کا استعمال نہیں کیا گیا۔کیا وجہ ہے کہ بی جے پی سرکاریں اور کچھ حد تک کانگریسی سرکاروں کو بھی پرکھنے کے معیار اتنے سخت نہیں ہیں؟
بہار میں بھی اب جبکہ نتیش کمار اور بی جے پی کی مخلوط سرکار ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ کیا ‘ یہی سشاسن ہے؟” اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ‘جنگل راج’ جیسا ٹرم جوایک بار میں پورےصوبے کی نظم و نسق کو ناکارہ بتا دیتا ہے اور اور پر جج مینٹ پاس کرتا ہے، وہ صرف اتر پردیش اور بہار کے سلسلے میں تب استعمال ہوتا ہے جب وہاں غیر بی جی پی یا تیسرے مورچے کی پارٹیوں کی حکمرانی ہوتی ہے یعنی بی ایس پی، راشٹریہ جنتا دل یا سماجوادی پارٹی۔
یہ وہ پارٹیاں ہیں جن کا ووٹر سماج کے پچھڑے طبقہ سے آتا ہے۔جنوبی ہند کی ریاستوں میں کتنا کرائم ہے یا کیسی لاقانونیت ہے، اس سے شمالی ہند پر مرکوز ٹی وی چینلز اور بڑے اخباروں کو فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح مدھیہ پردیش، راجستھان، مہاراشٹر جیسے بڑے صوبوں اور گجرات، پنجاب یا اڑیسہ میں بھی لا اینڈ آرڈر کو لے کر ایسی اصطلاح کا استعمال نہیں ہوتا۔کیا اس سے یہ بات اخذنہیں کی جا سکتی کہ یہ اصطلاح واضح طور پر سوشلسٹ یا بہوجن نظریات کی حامل حکومتوں کے لئے ہی استعمال ہوتی ہے اور وہ بھی صرف ان دو صوبوں میں جو کل ملا کر 120 ممبرس کو لوک سبھا میں بھیجتے ہیں۔
یہ ہندوستانی میڈیا ، خصوصاً شمالی ہند کی میڈیا،اور اس کے نیوز رومز میں سماج کے کن طبقات کی اکثریت ہے اور انکا سیاسی جھکاؤ کس طرف ہے، اس کی بھی عکاسی کرتی ہے۔شمالی ہندوستان کے میڈیا کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
Categories: فکر و نظر