اٹل بہاری واجپائی کے تئیں بہتر خراج عقیدت یہی ہوسکتا ہے کہ ہزاروں بے گناہ اور معصوم افرادکو مزیدآگ کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے سرحد کے دونوں طرف کے عوام کے لئے امن کی راہیں ہموار کی جائیں اور دیرینہ تنازعات کے لئے کوششوں کو تیز کیا جائے۔
سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی طویل علالت کے بعد گزشتہ ہفتہ دہلی میں چل بسے۔ و ہ تین بار وزیر اعظم رہے اور غالباً پاکستان کا تین بار دورہ کرنے والے واحد ہندوستانی لیڈر بھی تھے۔ گو کہ ان کا شمار ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اعتدال پسند لیڈروں میں ہوتا ہے، مگر بتایا جا تا ہے کہ بی جے پی اور اسکی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) نے باضابطہ ایک منصوبہ کے تحت ان کو کانگریس اور دیگر سوشلسٹ لیڈروں کے مقابل ایک مکھوٹے کی طرح استعمال کیا، تاکہ پاور حاصل کرکے شدت پسند نظریہ کو پروان چڑھایا جاسکے۔
میں نے پہلی بار 1991میں واجپائی کو روبرو دیکھا۔ دہلی کے وسط میں نظام الدین کے علاقہ میں ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑا تھا۔ میں ایک نیوز و فیچر ایجنسی میں بطور انٹرن کام کر رہا تھا۔ حکم ہوا کہ فساد کور کرنے کے لیے اپنے ایک سینئر کا ساتھ دینے کے لیے اس علاقہ کی طرف کوچ کروں۔ اس علاقہ میں ایک نالہ مسلم اور ہندو علاقوں کو جدا کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور چار افراد پولیس کی گولیوں سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ پریس کا کارڈ چیک کرکے پولیس والے آگے جانے دے رہے تھے۔
مسلم علاقوں سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ تبلیغی جماعت کی بنگلہ والی مسجد اور مزار غالب کے سامنے والی سڑک پر تازہ خون کے نشانات تھے ۔ درگاہ حضرت نظام الدین، امیر خسرو، عبد الرحیم خان خاناں، مغل بادشاہ ہمایوں کی آرام گاہوں کی شکل میں مسلمانوں کی شان و شوکت کی علامت یہ علاقہ کسمپری کی دہائی دے رہا تھا۔ درگاہ کی طرف جانے والے راستہ پر مکانوں کی ادھ کھلی کھڑکیوں کے پیچھے خوف و ہراس سے پر آنکھیں ہمیں تک رہی تھیں۔
بستی کے اطراف وقف کی خاصی زمین ہے، جس پر قبرستان، کئی مساجد اور درگاہیں موجود ہیں۔چونکہ بستی کے ہندو مکینوں کو مردے جلانے کے لیے خاصی دور دریائے جمنا کے کنارے جانا پڑتا تھا، اس لیے کئی دہائی قبل درگاہ کے سجادہ نشین پیر ضامن نظامی نے نالے سے متصل ایک قطعہ ہندوؤں کو شمشان کے لیے عطیہ کیا تھا۔ اب وشو ہندو پریشد اور دیگرہندو تنظیمیں اس قطعہ میں نالے کے اس پار قبرستان کی وسیع و عریض اراضی شامل کرکے اس کی حد بندی کرکے اس پر عمارت بنا رہی تھی۔ جس پر مسلمانوں کے اعتراض کی وجہ سے فساد پھوٹ پڑا تھا۔
فساد کور کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ نالہ کو پار کرکے دیکھا کہ کرفیو کی دھجیاں اڑیں ہوئی تھیں۔ ایک جم غفیر پولیس کی بھاری موجودگی میں مسلمانوں کے مکانوں پر شدید سنگ بار ی کرتے ہوئے اشتعا ل انگیز نعرے بلند کر رہا تھا۔ شمشان کے پاس مشرقی دہلی سے بی جے پی کے ممبر پارلیامنٹ بینکٹھ لال شرما عرف پریم مجمع کو اور اکسا رہے تھے۔ درگاہ کا گنبد یہاں سے نظر آرہا تھا اور ان کا اعتراض تھاکہ اس کے اوپر جو سبز جھنڈہ لہرا رہا ہے، وہ پاکستانی پرچم ہے ا و راس کے اترنے تک وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
معلوم ہوا کہ پاس کے ایک مکان میں اٹل بہاری واجپائی اور بی جے پی کے ایک اور لیڈر مدن لال کھرانہ ایک میٹنگ میں مصروف ہیں۔ گھنٹہ بھر کے بعد لیڈران نمودار ہوئے۔ بھیڑ درگاہ کی طرف اشارہ کرکے پھر نعرے لگانے لگی۔ واجپائی نے مائیک سنبھال کر کہا کہ یہ اسلامی جھنڈہ ہے اور اس کا ایک ہی رنگ ہے۔ جبکہ پاکستانی پرچم د و رنگی ہوتا ہے۔جب وہ گاڑی کی طرف جارہے تھے کہ میں نے ان سے پوچھا کہ نالہ کے دوسری طرف تو سخت کرفیو نافذ ہے اور لوگ بھی وہیں ہلاک ہوئے ہیں۔ آخر وہ نالہ پر موجود بھیڑ کو پتھراؤ کرنے اور اشتعال انگیز نعرے لگانے سے منع کیوں نہیں کر رہے ہیں؟
میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہوں نے کہا کہ نوجوان فساد بھی اسی طرف سے شروع ہوا۔ اب جو کچھ ہورہا ہے وہ رد عمل ہے۔ اس طرف کے لوگوں (مسلمانوں) کو یہ بات جان لینی چاہئے۔ یہ ان کا اعتدال پسند چہرہ تو نہیں تھا۔ مگر شاید انہوں نے محسوس کیا کہ میں مسلمان ہوں اور اب اس سوال کے بعد بھیڑ مجھے نشانہ بنائے گی۔ انہوں نے اپنے محافظ کو اشارہ کرکے مجھے نالہ کے دوسری طرف لے جانے کے لیے کہا۔ بابری مسجد کی شہادت سے قبل رام مندر کی تحریک کے دوران ان کی تقاریر کچھ کم اشتعال انگیز نہیں ہوتی تھیں۔ اپنی پارٹی کے سخت گیر نظریہ کی تشہیر اور دوسری طرف اپنی اعتدال پسند امیج کو برقرار رکھنے کے لیے وہ قطبین کے بیچ پنڈولم کی طرح جھولتے تھے۔
مگر بعد میں دہلی میں رپورٹنگ کرتے ہوئے یہ ادراک تو ہوگیا کہ بی جے پی کے دیگر لیڈروں کی نسبت ان میں مروت اور گرم جوشی موجود ہے۔ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے سے قبل پریس کلب آف انڈیا سے متصل ان کے گھر پر ہر سال ایک بھر پور پارٹی ہوتی تھی، جس میں کباب و بریانی بنانے والے خصوصی طور پر لکھنؤ سے بلائے جاتے تھے۔ وہ خاصے خوش خوراک بھی تھے۔ بیرونی دوروں کے دوران اچھے ریسٹورنٹ ڈھونڈ نکال کر پورے وفد کی دعوت کرتے تھے۔
سیاست میں وہ ذاتی حملوں کو سخت نا پسند کرتے تھے۔ 2004کی انتخابی مہم کے دوران ان کے دست راست پرمود مہاجن نے مہاراشٹرکے ایک دور افتادہ علاقہ میں تقریر کرتے ہوئے کانگریس صدر سونیا گاندھی پر ذاتی رکیک حملے کئے ۔ اگلے دن مہم ادھوری چھوڑ کر مہاجن دہلی میں سونیا گاندھی کے گھرپر حاضر ہوکر معافی مانگ رہے تھے اور بعد میں اپنے گھر پر میڈیا کو بلا کر صفائی دے رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ واجپائی نے ان کو سخت پھٹکار لگائی تھی۔ 1991میں جب نرسمہاراؤوزیر اعظم منتخب ہوئے تو ابتر ہوتی ہوئی اقتصادی صورت حال کو سنبھالنے کیلئے ایک ٹیکنو کریٹ منموہن سنگھ کو وزیر خزانہ بنایا گیا۔
انہوں نے جواہر لال نہرو کی بند معیشت کو پس پشت ڈال کر آزاد معیشت کی داغ بیل ڈالی اور اصلاحات کا بیڑا اٹھایا ، جس کی وجہ سے وہ اکثر اپوزیشن کا نشانہ بنتے تھے۔ چونکہ ٹیکنوکریٹ تھے، اس لیے پارلیامنٹ میں تنقید و ہنگامہ کے بعد وزیر اعظم کو استعفیٰ سونپتے تھے، جو وہ اسی وقت نامنظور کرتے تھے۔ ایک دن جب انہوں نے کھاد پر سبسڈی کم کرنے کا اعلان کیا، تو گویا ایک طوفان آگیا۔ تنقید سے پریشان منموہن سنگھ خاصے پرملول تھے، کہ واجپائی ، جو لیڈر آف اپوزیشن تھے ، نے ان کوپارلیامنٹ میں اپنے چیمبر میں بلایا۔ منموہن سنگھ کے مطابق واجپائی نے ان کو کہا کہ ’’ اب آپ سیاست میں ہیں، اس لیے اپنی کھال موٹی کرلیں۔
بات بات پر اور تنقید پر استعفیٰ نہ دیں۔ ہمارا کام آپ کی مخالفت کرنا اور نکتہ چینی کرنا ہے ، یہ ہماری سیاست ہے، مگر ملک کی معشیت کو بہتر بنانے کی خاطر آپ ثابت قدم رہیں اور جو اقدامات آپ کر رہیں ہیں وہ کرتے رہیں۔‘‘بعد میں معلو م ہوا کہ منموہن سنگھ کو سیاست کا یہ ابتدائی پاٹھ پڑھانے کے لیے نرسمہا راؤ نے ہی واجپائی سے درخواست کی تھی۔ اسی طرح مارچ 2003 میں جب امریکی صدر جارج بش نے عراق پر فوج کشی کی تو ان کا اصرار تھا کہ بھارت بھی برطانیہ، آسٹریلیااور پولینڈ کی طرح فوجی تعاون دے۔ بی جے پی اور حکومت کے اندر کئی لیڈران اس کے حق میں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جوہری دھماکوں کے بعد بھارت پر جواعلیٰ تکنیک حاصل کرنے پر پابندیا ں عائد ہیں، عراق میں امریکہ کی معاونت کرکے وہ ختم ہوسکتی ہیں۔
پارلیامنٹ کا بجٹ اجلاس جاری تھا اور اس پر خاصی بحث ہو رہی تھی۔ جب پارلیامنٹ 22دن کیلئے وقفہ میں چلی گئی تو اسی دوران واجپائی نے وزیر اعظم ہاؤس میں بائیں بازو کے لیڈران کو ناشتے پر مدعو کیا۔ سی پی ایم کے موجودہ جنرل سیکرٹری سیتا رام یچوری کے مطابق واجپائی نے ان سے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ساتھ وہ اپنی پارٹی ، فوج اور ملک کے اسٹریٹیجک امور کے ماہرین کے دباؤ میں ہیں کہ عراق میں فوج بھیج کر امریکی انتظامیہ سے مراعات حاصل کرنے کا یہ نادر موقع ہے۔ مدعو لیڈروں نے اسکی کھل کر مخالفت کی۔ واجپائی نے مسکراتے ہوئے طعنہ دیا کہ کانگریس کی طرح وہ بھی اب مخالفت ڈرائنگ رومز اور میڈیا میں ہی کرتے ہیں۔ بقول یچوری یہ ایک مسیج تھا سڑکوں پر آنے کا۔ تاکہ واجپائی کو امریکہ کو ٹالنے کے لیے بہانہ ملے۔ بس پھر کیا تھا، مختلف شہروں میں امریکی حملے اور ہندوستان کی متوقع مدد کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔
اپریل کے پہلے ہفتہ جب پارلیامنٹ کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو عراق میں امریکی مداخلت کے خلاف ایک متفقہ قرار داد منظور کی گئی۔1995میں نرسمہا راؤ کے آخری دنوں میں ہندوستانی حکومت روس کے ساتھ جدید سخوئی جنگی طیارے خریدنے کیلئے مذاکرات کررہی تھی۔ قیمتوں پر اتفاق رائے سے قبل ہی حکومت نے 800ملین ڈالر روسی حکومت کو ٹرانسفر کر دیے ۔ یہ ایک بڑا اسکینڈل تھا۔ اسی دوران کانگریس حکومت کا خاتمہ ہوا اور اس کی حمایت سے یونائیٹد فرنٹ حکومت پہلے دیو ی گوڑا اور پھر اند ر کمار گجرال کی قیادت میں اقتدار میں آئی۔
قریباً ایک ماہ تک بی جے پی نے اس معاملہ کو پارلیامنٹ میں خوب اچھالا اور تحقیق کی مانگ کی۔ لگتا تھا کہ یہ نیا بوفورس توپ اسکینڈل ہے، جس کی وجہ سے 1989میں راجیو گاندھی کی حکومت چلی گئی تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد بی جے پی نے اس کو اچھالنا بند کیا۔ تجسس کے مارے میڈیا نے بھی خوب ہاتھ پیر مارے، کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ واجپائی جو لوک سبھا میں اپو زیشن لیڈر تھے اور جسونت سنگھ جو راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر تھے نے لب سل لئے تھے۔ آخر کئی سال بعد یونائیڈ فرنٹ حکومت میں وزیر دفاع ملائم سنگھ یادو نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ان دونوں لیڈران کو رات کے وقت جب میڈیا سویا ہوا تھا ، وزارت دفاع کے صدر دفتر مدعو کیا تھا اور اس سودے کی سبھی فائلیں اور مذاکرات کی سبھی تفصیلات اور نوٹس ان کو پڑھنے کیلئے دیں۔
وہ رات کے آخری پہر تک وزارت دفاع میں رہے۔ معلوم ہوا کہ روسی صدر بورس یلسٹن نے درخواست کی تھی کہ سخوئی کا کارخانہ کئی برسوں سے ملازموں کی تنخواہیں نہیں دے پا رہا ہے اور یہ ان کے ہی حلقہ انتخاب میں ہے۔ چونکہ روس میں بھی انتخابا ت ہو رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اگرہندوستان 800ملین ڈالر ٹرانسفر کرتا ہے تو ہزاروں ملازمین کو تنخواہیں ملیں گی اوران کو بھی دوبارہ انتخاب میں مدد ملے گی۔ جب تک سودے کی دیگر کارروائی مکمل ہوتی ہے، یہ کارخانہ جہاز بنانے کا عمل شروع کریگا اور یہ رقم حتمی پرائس میں شامل کی جائیگی۔ واجپائی اب وزیر اعظم بن چکے تھے، ایک غیرملکی دور ہ کے دوران ایک سینئرصحافی نے ان سے اس بار ے میں جاننا چاہا، تو ان کا برجستہ جواب تھا ، ’’حکومتیں آتی جاتی ہیں، پارٹیاں بنتی بگڑتی ہیں ۔مگر ملک کا مفاد ان سب سے اوپر ہوتا ہے۔ جانکاری حاصل ہونے کے بعد میں پارٹی کیلئے ملکی مفاد کو داؤ پر نہیں لگا سکتا تھا۔‘‘
واجپائی ابتدا میں صحافت سے وابستہ تھے اور آر ایس ایس کے آفیشل آرگن پنچ جنیہ کے مدیر بھی تھے ، اسلئے خاص طور پر ہندی کے صحافیوں کے ساتھ انکی گاڑی چھنتی تھی۔ مئی 1998میں جوہری دھماکوں کے بعد اسی سال ستمبر میں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنے کیلئے پہلی بار نیو یارک میں بین الاقوامی برادری سے روبرو تھے۔ اپنے پیشرؤں اور جان نشینوں کے برعکس واجپائی کے کام کرنے کا طریقہ خاصا معتدل ہوتا تھا ۔ اپنی بساط سے زیادہ کام کرنا ان کو گوارہ نہیں تھا۔ عام طور پر لنچ کے بعد دوپہر چار بجے تک وہ کوئی اپائنٹمنٹ نہیں رکھتے تھے اور رات 8بجے کے بعد آرام کرنے چلے جاتے تھے۔
ان کے اس شیڈول کی وجہ سے انکے غیر ملکی دورے بھی تین دن کے بجائے پانچ دن رکھے جاتے تھے، جس کی وجہ سے وفد کے ساتھ آئے افسران اور میڈیا کو کھل کر شہر دیکھنے اور شاپنگ کا موقعہ ملتا تھا۔ نیویارک کے اس دورہ کے دوران واجپائی کی ملاقات اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے ساتھ بھی طے تھی۔ نتن ہاہو بھی پہلی بار 1996میں اقتدار میں آئے تھے۔ یہ بھی ایک دلچسپ امر ہے کہ تل ابیب اور دہلی میں سخت گیر دائیں بازوعناصر ایک ہی وقت اقتدار میں آتے ہیں۔ خیر جس وقت واجپائی کی ملاقات نتن یاہو سے طے تھی، ہندوستانی مشن نے میڈیا کیلئے شہر کے دورہ کا پروگرام ترتیب دیا تھا۔ مگر ہندی اخبار کے ایک ایڈیٹر نے اپنا ایک علیحدہ پروگرام بنایا تھا۔ جب وہ ہوٹل کی لابی سے باہر آرہے تھے، اسی وقت واجپائی ہوٹل میں داخل ہورہے تھے۔ یہ ایڈیٹر صاحب ان کے پرانے معتمد رہ چکے تھے۔ واجپائی نے ان کو دیکھ کر خاصی گرم جوشی دکھائی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کو ملاقات کے کمرے میں لے کر ان سے محو گفتگو ہوگئے۔
افسران ابھی ان ایڈیٹر صاحب کو بھگانے کی ترکیب سوچ ہی رہے تھے، کہ نتن ہاہو اپنے وفد کے ہمراہ داخل ہوگئے۔ واجپائی سے ہاتھ ملاکر اسرائیلی وزیر اعظم نے انکو جوہری دھماکوں کی مبارکباد دی اور گلے لگاتے ہوئے کہا، کہ مسٹر پرائم منسٹر ، ہم دونوں جوہری طاقت ہیں، کیوں نہ (معانقہ کرتے ہوئے) اس طرح ہم پاکستان کو جھکڑ کر کرش کریں۔(Mr. Prime Minister. We are now both nuclar power. Let us crush Paksitan like this) اسرائیل ابھی بھی ایک اعلانیہ نیوکلیر پاور نہیں ہے۔ ایک صحافی کے سامنے اسطرح کا اعتراف …ہندوستانی وزارت خارجہ کے افسران خاصے اضطراب میں تھے۔
واجپائی نے ایڈیٹر صاحب کو اپنے ساتھ صوفے پر بٹھایا ہوا تھا۔ تبھی ایک جہاندیدہ افسر نے ان کو بتایا کہ ان کی ایک ضروری کال آئی ہے۔ اسی بہانے ایڈیٹر کو باہر لیجاکر دورازہ بند کرادیا۔ بعد میں وزارت خارجہ اور اسرائیلی افسران نے اصرار کے ساتھ تاکید کی کہ یہ گفتگو کہیں بھی اور کسی بھی صورت میں میڈیا میں نہ آنے پائے۔ان کا ایک اور کارنامہ یہ تھا کہ اپنے قومی سلامتی مشیر برجیش مشرا کو ایک نئی اسٹریٹیجک سوچ دینے ، ملک کو ماسکو کی گود سے نکالکر اور واشنگٹن کی دہلیز پر کھڑا کرنے کیلئے پوری آزادی دی۔
1998میں جب بی جے پی کی قیادت والا محاذ اقتدار میں آیا تو دہلی کے سفارتی حلقوں میں کشیدگی اور تناؤ کا ماحول واضح طور پر محسوس کیا جارہا تھا۔ صورت حال اس وقت مزید پیچیدہ ہوگئی جب ہندوستان نے مئی 1998میں نیوکلیائی تجربہ کیا۔ نیوکلیائی تجربہ کے فوراََ آنجہانی مشرا کی قیادت میں بیک چینل سرگرمیوں کا زبردست سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کوبہتر کرنے کی کوششیں تیز ہوئیں حتی کہ کشمیر میں آزادی پسند اور جنگجو قیادت سے بھی رابطہ قائم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
مشرا کو ان کی اس کاوش میں مدددینے کے لئے را کے سابق سربراہ اور کشمیرکے معاملے میں جہاں دیدہ افسر اے ایس دلت کو دوبارہ پی ایم او میں بھرتی کیا گیا ۔ نیوکلیائی تجربات کے بعد مشرا وزیر اعظم واجپائی کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا نا چاہئے۔اور یہ ہندوستان کو بین الاقوامی طور پر الگ تھلک پڑجانے سے بچانے کا واحد علاج تھا۔جس کے نتیجے میں واجپائی کا لاہور کا تاریخی دورہ عمل میں آیا۔ اپنی نجی میٹنگوں میں مسٹر مشرا اکثر و بیشتر اس بات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ وہ اور واجپائی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن مساعی کو ایک ٹھوس راہ پر لانے بلکہ دونوں ملکوں کے مابین حل طلب بہت سارے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے لیکن پہلے کرگل کی جنگ اور پھر پارلیامنٹ پر حملہ نے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔
انہیں اس بات کا بھی پورا علم تھا کہ دونوں ملکوں کی انٹلی جنس ایجنسیاں امن کی کشتی کوڈبونے کی اپنی کوششوں سے باز نہیں آئیں گی۔ جس وقت ic 814 کی ہائی جیکنگ کا معاملہ پیش آیا تھا اور ہندوستانی انٹلی جنس ایجنسیاں اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لے رہی تھیں پی ایم او کے ایک اور سابق افسر پی این دھر(جو آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے انتہائی متعمد سمجھے جاتے تھے) نے برجیش مشرا کو اپنے گھر پر ڈنر پر مدعو کیا۔سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل اشوک بھان حریت کانفرنس کے رہنما(مرحوم) عبدالغنی لون کو اپنے ساتھ اس ڈنر پر لے گئے۔ مشرا نے اسے ایک قیمتی موقع سمجھتے ہوئے حریت کے لیڈروں کے ساتھ اپنا پہلا رابطہ قائم کیا۔کئی برسوں کے بعدجب دھر سے اس ڈنر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا تھا کہ ہم نے کافی احتیاط کوملحوظ رکھا تھا‘ ہمیں اس بات کا اندازہ تھا کہ انٹلی جنس ایجنسیاں اس وقت اپنے ہی مسائل میں الجھی ہوئی ہیں او ر انہیں اس ڈنر کی مہک نہیں لگ سکے گی کہ اسے ناکام بناسکیں۔ایسا ہی ہوا۔
کسی کو اس میٹنگ کی بھنک نہیں لگی ۔ اس کا مثبت نتیجہ یہ برآمد ہوااگلے کئی برسوں میں اس کے تعمیری اثرات دکھائی دئے۔ نومبر 2000میں کشمیر میں فوج کی طرف سے رمضان میں عارضی جنگ بندی‘ اس سے قبل حزب المجاہدین کے اعلیٰ کمانڈروں کے ساتھ گفتگو کی کوشش اور اس کے علاوہ نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی کی حریت لیڈروں کے ساتھ بات چیت جیسے اہم واقعات اس ڈنر کے نتیجے میں عمل میں آئے۔لیکن پارلیامنٹ پر حملہ اور برصغیر کی سیاسی صورت حال کی وجہ سے ان میں سے بیشترپیش رفت ادھوری رہ گئی۔ دھر کی رہائش گا ہ پر مذکور ہ ڈنر سے واپس لوٹتے وقت برجیش مشرا نے کہا تھاکہ ہم کشمیری لیڈروں کے ساتھ معاملات طے کرسکتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ جب ایک نجی محفل میں کافی عرصے کے بعد برجیش مشرا سے جب اس میٹنگ کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ کئی باتوں میں لون صاحب سے متفق تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کے ساتھ معاملات طے کئے جاسکتے ہیں۔ ان کے مشورے پر ہی ہم نے حریت لیڈروں کو پاکستان اور دنیا کے دیگر ملکوں میں جانے کی اجازت دی تاکہ وہ بھی امن کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرسکیں۔پاکستان کے ساتھ امن مساعی او رمسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں واجپائی اور مشرا کے اپنے مقاصد تھے۔
ایک تخلیقی اسٹریٹیجک سوچ رکھنے والے ان دونوں اشخاص نے دنیا میں ہندوستان کی برتری قائم رکھنے کے لئے کئی مخصوص اہداف مقرر کئے تھے اور ان کا یقین تھا کہ اگر ان کی حکومت یہ اہداف حاصل کرلیتی ہے تو رہتی دنیا تک ان کا نام تاریخ میں سنہرے حرفوں میں لکھا جائے گا۔ شاید ہندوستانی تاریخ کے اوراق میں اشوک اور اکبر کے بعدواجپائی کا ہی ذکر ہوگا۔ ان اہداف میں ہندوستان کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت حاصل کرنا‘ نیوکلیائی کلب کا ممبر بننااور2025 تک ہندوستان کو ایک عالمی اقتصادی طاقت کے طور پر منصہ شہود پر لانا شامل تھا۔اور ان کو یہ ادراک ہوگیا تھا کہ ان تمام اہداف کا راستہ پاکستان او رکشمیر سے ہوکر ہی گذرتا ہے۔
اس لئے وہ پڑوسیوں کے ساتھ پرامن تعلقات کے علاوہ درون ملک پرامن اور محفوظ ماحول پر زور دیا کرتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ چین نے اقتصادی شعبے میں جو برتری قائم کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے بیشتر پڑوسی ملکوں کے ساتھ سرحدی تنازعات کو بڑی حدتک حل کرکے امن کو یقینی بنایا ہے۔اس لئے اگر اقتصادی برتری حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے داخلی استحکام کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے ساتھ امن و سکون کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ ان بڑے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے اگر کشمیر یا پاکستان کے سلسلے میں تھوڑی بہت کسی حد تک لچک کا مظاہرہ کیا جائے تو ان کے قدم کی ہندوستانی مڈل کلاس اور سخت گیر عناصر شاید مخالفت نہیں کریں گے جو پاکستان اور کشمیر کے لئے معمولی سی بھی رعایت دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے ہیں۔
اسی ضمن میں کئی نئے آئیڈیاز سامنے آئے اور خطے کے بجائے عوام پر مرکوز پالیسی کی ایک نئی اصطلاح سامنے آئی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب یورپ بھی اپنی اقتصادی بہتری کے لئے اپنے سیاسی تنازعات کو سرحدوں میں کسی تبدیلی کے بغیر نئے انداز میں تیزی سے حل کررہا تھا۔نیوکلیائی تجربات کے فوراََ بعد کئی بیک چینل کافی سرگرم ہوگئے ۔ ان میں آر کے مشرا اور نیاز اے نائک بہت مشہور ہوئے۔ پاکستانی مصنف شجا ع نواز نے اپنی کتابCrossed Swords میں اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ سرتاج عزیز کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ واجپائی جی نے کشمیر کے سلسلے میں معاہدہ کے امکانات کا جائزہ لینے کے لئے جسونت سنگھ کوکام پر لگایا ‘ دونوں نے سری لنکا کے نوارا ایلیا میں مارچ 1999 میں ملاقات کی۔ یہ ملاقات بالکل ذاتی نوعیت کی تھی جو ایک جھیل کے کنارے ہوئی ۔ ملاقات کے وقت کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا۔ اس ملاقات میں مختلف امور پر کھل کر باتیں ہوئیں۔
ان امور کا ذکر کیا گیا جو ایک دوسرے کو ناقابل قبول ہیں اور ان امور پر بھی باتیں ہوئیں جن پر دونوں متفق ہوسکتے تھے۔دونوں آنے والے دنوں میں بھی اس سلسلے کو برقرار رکھنے پر رضامند ہوگئے لیکن کرگل کی جنگ اور پھر بی جے پی حکومت کے خاتمے نے سارا معاملہ بگاڑ دیا ۔ عزیز کہتے ہیں کہ جب کرگل جنگ کے دوران وہ دہلی پہونچے اور وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملے تو واجپائی جی نے ان سے کہا تھاکہ’’سرتاج صاحب یہ آپ نے کیا کردیا‘‘۔ اس کے باوجو اٹل بہاری واجپائی نے تمام تر مخالفت کے باوجوداسلام آباد کا دورہ کیا۔ جس کے نتیجے میں 6جنوری 2004 کا تاریخی مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔
جس کی بنیاد پر کانگریس کی قیادت والی موجودہ حکومت بھی امن مساعی نے بھی آگے بڑھایا۔بتایا جاتا ہے کہ جب 22مئی 2004کونئے وزیر اعظم منموہن سنگھ حلف اٹھانے کے بعد اپنے دفتر پہنچے تو ان کی ٹیبل پر پیشرو واجپائی کے ہاتھ سے لکھا ایک نوٹ تھا۔ اس میں واجپائی نے ان سے درخواست کی تھی کہ ان کی حکومت کے طرف سے شروع کئے گئے چار پروجیکٹوں کو ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر جاری رکھیں۔ ان میں پاکستان کے ساتھ شروع کی گئی امن مساعی، امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیٹجک پارٹنرشپ کا معاہدہ، ہائی وے کا جال بچھانے کا منصوبہ اور دریاوٗں کی انٹر لنکنگ یعنی باہم مربوط کرنے کا منصوبہ شامل تھا۔
منموہن سنگھ کی کانگریسی حکومت نے دریاؤں والے منصوبہ کو سست کیا، مگر دیگر امور پر تسلسل برقرار رکھا۔ پاکستان کے ساتھ مساعی لائن آف کنٹرول سے راہداری کی اجازت اور بعد میں پرویز مشرف کے فارمولہ کی بنیاد بنی۔ امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیٹجک معاہدہ نیوکلیر ڈیل کا محرک بنا۔ پاکستانی اور کشمیری امور کے ماہر اے جی نورانی نے ایک جگہ لکھا تھا کہ خود ہندوستانی آئین میں بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے معاہدہ کی گنجائش ہے لیکن اس کے لئے جس سیاسی دانش مندی اور جرات کی ضرورت ہے وہ موجودہ حکمرانوں میں نہیں ہے۔
بہر حال اس سیاسی دانش مندی اور جرأت کا ایک ہلکاسامظاہرہ اٹل بہاری واجپائی اور ان کے دست راست برجیش مشرا نے کرنے کی کوشش کی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے واجپائی کے تئیں اپنی عقیدت دکھانے کیلئے تقریباً چار کلومیٹر تک ان کے آخری سفر میں پارٹی آفس سے شمشان تک پیدل مارچ کیا۔جو یقیناً وزیر اعظم کیلئے ایک بڑا رسک تھا۔ مگر واجپائی کے تئیں اس سے بہتر خراج عقیدت یہی ہوسکتا ہے کہ ہزاروں بے گناہ اور معصوم افرادکو مزیدآگ کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے سرحد کے دونوں طرف کے عوام کے لئے امن کی راہیں ہموار کی جائیں اور دیرینہ تنازعات کے لئے کوششوں کو تیز کیا جائے۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
یہ مضمون پہلی بار22اگست 2018 کو شائع کیا گیا تھا۔
Categories: فکر و نظر