یہ قدم اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ فوجیوں کو یہ لگتا ہے کہ افسپا نافذ ہونے کے باوجود اس پر غیرمنصفانہ طریقے سے مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ چاہے جو بھی آئے، مگر ایسا لگتا ہے کہ فوجی اپنے صبر کے آخری نقطے پر پہنچ گیا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں آئیں سرخیاں کہ فوج کے 356 ورکنگ جوانوں نے ‘استحصال اور مقدمہ چلانے ‘کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے، ایک تشویشناک مسئلہ ہے۔ یہ قدم سپریم کورٹ کی اس ہدایت کے بعد آیا ہے جس میں اس نے سی بی آئی کی ایس آئی ٹی کو منی پور میں غیر عدالتی قتل میں شامل ہونے کے ملزم فوج کے جوانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لئے کہا تھا۔صحیح طریقے سے سوچنے والا کوئی بھی افسر کسی فوجی (یہاں جس کا مطلب مڈل اور ماتحت افسروں، جے سی او اور جوان سے ہے)کے ذریعے انتہاپسندی مخالف مہم میں کسی آدمی پر تب تک گولی چلائے جانے کی حمایت نہیں کرےگا، جب تک کہ خود اس پر حملے کا خطرہ نہ ہو۔
اس کے ساتھ ہی اس بات کو قبول کیا جانا چاہیے کہ انتہاپسندی مخالف مہم میں شامل فوجی ہر دن خوفناک دباؤ اور اپنی زندگی کو لےکر ذہنی کشمکش کی حالت میں رہتا ہے، کیونکہ وردی میں ہونے کی وجہ سے وہ آسانی سے پہچان میں آنے لائق نشانہ ہوتا ہے، جبکہ اس کے پاس یہ جاننے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ہے کہ اس پر کون، کب، کہاں اور کس طرح سے حملہ کر سکتا ہے۔کسی بھیڑ یا جلسہ کے اندر سے یا کسی چھپنے کی جگہ سے ایسا کوئی حملہ خود کار ہتھیاروں، ہتھ گولوں یا آئی ای ڈی وغیرہ کسی سے بھی کیا جا سکتا ہے، جو اس کی جان لے سکتا ہے، یا اس کو تاعمر کے لئے معذور بنا سکتا ہے۔اس طرح سے انتہا پسندی یا دہشت گرد کو فوج کے جوان کے اوپر ایک بڑھت ہوتی ہے جبکہ فوج کا جوان مدافعتی حالت میں ہوتا ہے۔
ان حالات میں فوجی کو تب تک گولی نہیں چلانے کی تربیت دی جاتی ہے، جب تک اس پر گولی نہ چلائی جائے یا اس پر حملہ نہ کیا جائے یا جب تک وہ اس بات کو لےکر استدلالی طورپر مطمئن نہ ہو جائے کہ اس پر حملہ ہونے والا ہے۔کسی فوجی کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس امید کے ساتھ کام کرے کہ انتہا پسند اس پر گولیاں چلائےگا اور نشانہ چوک جائےگا یا وہ جوابی گولیاں چلانے یا کوئی آڑ لےکر حالات کا جائزہ لینے اور آگے قدم اٹھانے سے پہلے اس وقت تک انتظار کرتا رہے جب تک کہ وہ یا اس کا دوست زخمی نہ ہو جائے یا مار نہ گرایا جائے۔
ایک گولی کو جان لینے میں سیکنڈ کا سوواں وقت لگتا ہے اور اس لئے گولی چلانے یا نہ چلانے کا فیصلہ بھی اتنی ہی تیزی سے لینا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں قانونی حیثیت اور منصفانہ عمل کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں رہتا۔ ایسا تبھی کیا جا سکتا ہے، جب وہ جوکھم اور موقع واردات سے جسمانی اور پیشہ ور دوری پر ہوں۔اندرونی حفاظت کے لئے فوج کو تعینات کرنے کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے پارلیامنٹ نے 1958 میں آرمڈ فورسیز(اسپیشل پاورس)ایکٹ(افسپا)کو نافذ کیا تھا۔ حکومتیں اس قانون کا استعمال ملک کی اندرونی حفاظت کے لئے فوج کو تعینات کرنے کے لئے کرتی ہیں۔
مرکزی حکومت، ریاست اور مرکزی پولیس دستوں کے ذریعے قانون اور انتظام بنائے رکھنے میں ناکام رہنے اور مقامی اور علاقائی حفاظت کے ان کے قابو سے باہر نکل جانے کی حالت میں فوج کی تعیناتی کرتی ہے۔چونکہ ہندوستان میں فوج سول کنٹرول میں ہے، اس لئے انتہاپسندی مخالف مہم کے لئے فوج کی تعیناتی کا فیصلہ سول ایڈمنسٹریشن کی پہل پر ہوتا ہے۔اس کے لئے کسی علاقے کو گزٹ نوٹی فکیشن نکالکر’فساد زدہ ‘قرار دیاجاتا ہے۔سول ایڈمنسٹریشن افسپا کو اس لئے نافذ کرتا ہے، کیونکہ ایک فوجی شہریوں کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال حکومت کے حکم کے بغیر نہیں کر سکتا ہے۔
یہ حقیقت کہ فوج انتہاپسندی مخالف مہم میں دہائیوں سے لگاتار کام کر رہی ہے ان دہائیوں میں انتظامیہ کے معاملے میں مرکزی اور ریاستی سطح کی حکومتوں کی افسوسناک ناکامی کو نشان زد کرتا ہے۔جدو جہد کی حالت کو لےکر تمام متاثرین کے درمیان بحث ومباحثہ، مکالمہ یا سمجھوتہ-مذاکرہ کی ایماندارانہ سیاست کی مسلسل کمی رہی ہے۔ اس کے علاوہ، ریاست اور مرکزی انتظامیہ کی سیاست بھی، جن میں ریاست کی پولیس اور مرکزی مسلح پولیس فورس شامل ہیں، حکومتوں کے ذریعے علاقوں کو ‘ فسادزدہ ‘ اعلان کرنے اور وہاں افسپا نافذ کرنے کی وجہ بنی ہے۔
یہ سب کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غلطی کرنے والے فوج کے جوانوں کو سزا نہیں دی جانی چاہیے، لیکن یقینی طور پر یہ دھیان میں رکھا جانا چاہیے کہ – ایک فوجی کو وہ کام کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے، جس کو پورا کرنے میں سول ایڈمنسٹریشن(جس میں پولیس بھی شامل ہے)ناکام ثابت ہوتا ہے۔ یہ کام ہے اپنے دائرہ اختیار کے اندر قانون اور انتظام بنائے رکھنا، جو کہ اس کا بنیادی فرض ہے۔ اور- فوجی افسپا کے قانونی آہنی لباس کے بغیر کام نہیں کر سکتا، جبکہ اپنے اس کردار میں اس کا اپنا کوئی مفاد نہیں ہوتا ہے۔
356 فوجیوں کے ذریعے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا معاملہ کئی پریشان کن سوال کھڑے کرتا ہے۔ کیا فوجیوں کا اپنے اوپر کے افسروں پر اعتماد نہیں رہا ہے جو ان سے ملکر یہ انتہائی قدم (جو ان کے کیریئر کو نقصان پہنچا سکتا ہے) اور اپنے اعلیٰ افسروں کو نظرانداز کرتے ہوئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں عرضی دینے کی خطرناک شعبہ جانتی پہل کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا؟یہ قدم اچانک نہیں اٹھایا گیا ہوگا۔ خاص کر یہ دیکھتے ہوئے کہ 350 سے زیادہ ورکنگ فوج کے جوانوں نے ایک ساتھ یہ قدم اٹھایا ہے۔اعلیٰ عہدے پر بیٹھے ایک قابل کمانڈر کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے کمانڈ کے اندرانتہاپسندی مخالف مہم میں تعینات کئے گئے فوجیوں کے درمیان کیا پک رہا ہے؟
کیا اس قدم کو ایک حد تک اوپر کے کمانڈ کی ناکامی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے؟ کیا فوج اور سیاسی اقتدار کی اعلیٰ سطح کی قیادت کو اس طرح کی باتوں کے بارے میں پہلے سے جانکاری دی گئی تھی؟ آخر اس سب کا قصوروار کون ہے؟یہ سب ہمیں نارمن ڈکسن کے ذریعے ان کی اہم تخلیق On the Psychology of Military Incompetence میں فوجی کمانڈ کی اعلیٰ سطحوں پر اخلاقی جرأت کی ناکامی کے کئی مثالوں کی یاد دلاتا ہے۔
یہ قدم شاید اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ فوجی کو یہ لگتا ہے کہ افسپا نافذ ہونے کے باوجود اس پر غیرمنصفانہ طریقے سے مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ چاہے جو بھی آئے، مگر ایسا لگتا ہے کہ فوجی اپنے صبر کے آخری نقطے پر پہنچ گیا ہے۔ ایک فوجی کے پاس کوئی بھی ہتھیار ہو، وہ لڑنے سے پیچھے نہیں ہٹےگا۔انتہائی ضروری فوجی ہارڈویئر اور اوزاروں کی کمی اس کے حوصلے کو پست نہیں کر پاتے۔ یہ پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی فوجی بے مثال ہے۔ لیکن بہترین فوجی بھی لشکری اور سیاسی قیادت کی ناکامی کی وجہ سے ناکام ہو سکتا ہے۔یہی امید کی جا سکتی ہے کہ یہ حالات، جس کو دیکھکر ہندوستان کے دشمنوں کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا، ایسے پوائنٹ تک نہیں پہنچے، جہاں سے اس کی ‘مرمت ‘ ممکن نہ رہ جائے۔
ان سب کا ایک ایسے وقت میں ہونا، جب مختلف سیاسی سطحوں پر کئی بیانات اور کاروائیوں نے فوج کی عزت کو گھٹانے لگانے کا کام کیا ہے، ہندوستان کے آخری سہارے (فوج) اور اس طرح سے ہندوستان کے لئے اچھا شگون نہیں کہا جا سکتا ہے۔
(میجر جنرل ایس جی وومباٹکیرے، وی ایس ایم، فوج کے ہیڈ کوارٹر کی اے جی شاخ میں ایڈیشنل ڈی جی، ڈسپلن اینڈ ویجلینس کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ اسٹریٹجک اور ترقی سے متعلق مسائل ان کی دلچسپی کے میدان ہیں۔)
Categories: فکر و نظر