2014 کے پہلے تک’سیاسی اکثریت’اور’فرقہ وارانہ اکثریت’کے بیچ کی کھائی رسمی طور پر بنی رہی۔زمین پر جو بھی حالات رہے ہوں لیکن انتخاب غلط فہمی پیدا کرنے والے ایک مکھوٹا کے طور پر کام کرتا رہا۔لیکن مرکز میں بی جے پی کے آنے کے بعد یہ مکھوٹا بھی اتر گیا۔
آل انڈیا شیڈیولڈ کاسٹس فیڈریشن (اے آئی ایس سی ایف)کے تحت 1945 میں ایک تقریر میں بی آر آمبیڈکر نے ایک ‘سیاسی اکثریت ‘اور’فرقہ وارانہ اکثریت ‘کے درمیان فرق کو سامنے رکھا تھا۔ ان کے مطابق، ‘سیاسی اکثریت مستحکم یا ہمیشہ کے لئے اکثریت نہیں ہوتی۔اس کو ہمیشہ تیار کیا جاتا ہے۔اس کو توڑا بھی جاتا ہے اور دوبارہ تیار بھی کیا جاتا ہے۔لیکن فرقہ وارانہ اکثریت ایک مستقل اکثریت ہوتی ہے، اور اس کی سوچ سناتن اور مستحکم ہوتی ہے۔اس کو ختم کیا جا سکتا ہے، لیکن اس میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ ‘
امبیڈکر نے بلا تکلف یہ اعلان کیا تھا کہ’ہندوستانی حالات’میں صرف ایک فرقہ وارانہ اکثریت ہی موجود ہے۔ایسے حالات میں ایک معمولی انتخابی اکثریت پر پورے انتخابی حلقے کی نمائندگی کی ذمہ داری نہیں سونپی جا سکتی ہے۔کسی بھی منتخب پارٹی یا شخص کو تمام کمیونٹی کی نمائندگی کرنے کی ذمہ داری نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی ان کو ان کے سچے نمائندہ کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔
امبیڈکر کے مطابق، ایسا کرنے سے ‘ فرقہ وارانہ تعطل ‘کی ایک حالت پیدا ہوتی ہے، جس کو نہ تو اقلیتی کمیونٹی پر اکثریت والی دھونس کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان ستائے جانے والے کمیونٹی کے لامتناہی خوش آمد کے ذریعے۔ اس تعطل کو صرف ایک نئے اصول کو اپناکر ہی دور کیا جا سکتا ہے، جو انتخابی اکثریت کی حکومت کے ایک تکملہ کے طور پر کام کرےگا : وہ اصول ہے انصاف کا اصول۔
انصاف کے اصول کے مطابق،محض انتخابی اکثریت کو ایک سماج کی سیاسی زندگی میں شراکت داری کو طے کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔مثال کے لئے،ایوان میں صرف اکثریت والی پارٹی کے ممبروں سے ہی حکومت نہیں بنائی جانی چاہیے۔ امبیڈکر کے نظریہ میں، اقلیت اور اقلیتوں کو بھی سماج میں اپنی حالت کی بنیاد پر حکومت میں شراکت داری کی جگہ ملنی چاہیے۔اصول یہ ہے :سماجی حالت جتنی ہی کمزور ہوگی، کمیونٹی اور آدمی کے حصے میں سیاسی شراکت داری کا موقع اتنا ہی زیادہ ہوگا۔
‘ فرقہ وارانہ تعطل ‘کو توڑنے کا راستہ یہی ہے، جس میں اکثریتی کمیونٹی کو سیاسی عمل میں آزاد اکثریت حاصل ہونے کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے اور اقلیتی کمیونٹی کو نہ تو دھونس اور ظلم کو سہنا پڑتا ہے اور نہ ہی کسی سر پرست کی خوش آمدکو جھیلنا پڑتا ہے۔ امبیڈکر ایسا نہیں سوچتے تھے کہ برٹش حکمرانوں نے اس سمت میں کافی کام کیا ہے اور وہ فرقہ وارانہ تعطل کو حل کرنے کے معاملے میں ‘ کانگریس کے ہندوؤں ‘(یہ امبیڈکر کے ہی لفظ ہیں)پر بھی بھروسہ نہیں کرتے تھے۔
آزادی کی دہلیز پر کھڑے ہو کر، امبیڈکر کو اس بات پر کوئی یقین نہیں تھا کہ جمہوریت کے مستقبل کے آئین کو صرف اداروں کی تشکیل، جیسے اکثریت پسند اکثریت کی حکمرانی پر مبنی تنظیم قرار دیا جا سکتا ہے۔بلکہ آئین کو ایسے آزاد اصولوں کی بنیاد رکھنا تھا، جو ان ساختیاتی مسائل کی بھرپائی کر سکے جو آزادی اور مساویانہ دوستی کے بنیادی اصولوں کو ظاہر کرنے کے دوران سامنے آتے ہیں۔
ورنہ سیاسی اکثریت اور فرقہ وارانہ اکثریت کے درمیان کے رسمی فرق کو سیاسی اقتدار کی زمینی حالات میں لگاتار ہی جھوٹا اور ناکارہ بنایا جاتا رہےگا۔ایسے میں انتخاب وقفہ وقفہ پر استعمال کئے جانے والے ایسے رسمی آلہ بنکے رہ جائیںگے جو محض اقلیتوں پر اکثریتی کمیونٹی کی حکومت کو مضبوط کرنے کا کام کریںگے۔1945میں امبیڈکر نے بحران کی پہچان اس شکل میں کی تھی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تب اور 2014 کے بیچ میں، جب زیادہ تر کانگریس حکومت میں رہی، یہ فرقہ وارانہ تعطل قائم رہا۔اس حد تک ‘ہندوستانی حالات’میں سیاسی اکثریت اور ایک فرقہ وارانہ اکثریت کے درمیان کی کھائی بھی رسمی طور پر بنی رہی۔زمین پر جو سچ مچ کے حالات تھے، انتخاب ان کے متعلق غلط فہمی پیدا کرنے والا ایک پیچیدہ مکھوٹا کے طور پر کام کرتا رہا۔
اگر وقت کا پیمانہ چھوٹا رکھیں تو ایسا ممکن ہے کہ کبھی کبھار سیاسی اکثریت اور فرقہ وارانہ اکثریت میں فرق نظر آئے، لیکن اگر اس پورے دور کو ملاکر دیکھیں تو ہم پائیںگے کہ ‘ کانگریس کے ہندوؤں ‘کی حکومت ابھی بھی قائم تھی۔ 2014 میں بی جے پی کی جیتکے بعد یہ مکھوٹا بھی اتر گیا ہے اور حالات نے کروٹ لی ہے کہ فرقہ وارانہ تعطل کی جگہ فرقہ وارانہ ایمرجنسی کی حالت نے لے لی ہے۔ ‘ فرقہ وارانہ ایمرجنسی ‘سے میرا مطلب ایک ایسے رجحان سے ہے، جس کی طرف اشارہ خود امبیڈکر نے ہی کیا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ ہندو ایک مطلق اکثریت (Absolute Majority)کے لئے ‘اڑے ہوئے’ہیں:وہ متعلقہ اکثریت (Relative Majority) کو قبول نہیں کریںگے اور ان کو اقلیتوں کے ساتھ ہم آہنگی اور ان کے ساتھ ملکر کام کرنے سے انکار ہے۔
2014 سے، ہم نے دیکھا ہے کہ بی جے پی، ان کی پارٹی کے صدر، وزیر اعظم، آر ایس ایس کے ممبر،میڈیا مفکر، سب اڑے ہوئے ہیں اور سب کی ضد ہے۔اس کی ضدہے کہ 2014 کے انتخاب کسی اور انتخاب کی طرح محض ایک اور انتخاب نہیں تھا، جس میں سیاسی اور فرقہ وارانہ اکثریت کے درمیان فرق ابھی بھی قائم تھا۔یہ انتخاب محض ایک ‘ نتیجہ’نہیں تھا :2014 کا نتیجہ اصل میں ایک فیصلہ تھا، ایک فرمان تھا کہ ہندوستان کی تاریخ کو ایک بار بدل دئے جانے کے بعد اس کی سمت کو واپس موڑا نہیں جا سکتا۔
اور آج جس وقت میں یہ لکھ رہا ہوں، تب بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس تبدیلی کا بنیادی ماخذ یہ ہے کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کا فیصلہ یہ تھا کہ یہ ایسا انتخاب تھا، جن کی کسوٹی پر مستقبل کے سارے انتخابات کو کھرا اترنا ہوگا۔ اس معنی میں، ہم ایک ایسی جمہوریت کو چھوڑکر، جو انتخابات پر مبنی ہو اور اپنے آپ میں جو آئینی جمہوریت کی ایک ابتر اور کانگریس پرست شکل تھی، ایک ایسے مقام پر پہنچا دئے گئے ہیں، جہاں جمہوریت صرف ایک انتخاب پر مبنی ہو گئی ہے۔
صاف طور پر امت شاہ کا خواب یہی ہے : ہرایک انتخاب میں ایک ہی انتخاب کو سام، دام، دنڈ، بھیدسے لڑنا، جہاں کھلےعام، بڑے فخر سے اور صحیح طریقے سے سیاسی اکثریت کو فرقہ وارانہ اکثریت کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔کانگریسی حکومت کی لمبی تاریخ، جس میں یہ اقلیتوں کے ظلم وستم اور خوش آمدی کے درمیان ڈولتی رہی تھی، ایک جھٹکے سے ختم ہوتی ہوئی دکھتی ہے جب ہم اس خوفناک معجزے کو دیکھتے ہیں کہ ایک خاص پارٹی اور ان کا اعلیٰ ترین رہنما دونوں ہی یہ سچ بیان کرتے ہیں کہ ‘ ہم واقعی ایک فرقہ وارانہ اور ایک مطلق اکثریت ہیں اور ہم اس پر اڑے ہوئے ہیں۔ ‘
یہ ضد کہ 2014 ایک معجزہ تھا اور اس کے بعد سے ہر چیز ہی نئے سرے سے بنائی گئی ہے اور ‘ نئے ہندوستان ‘کے پاس جمہوری یا آئینی اصولوں کے بارے میں سوچنے کے لئے وقت نہیں ہے، یہ ضد آج ایمرجنسی کے دور میں اقلیتوں کو ایک گہرائی تک پیوست ہوتے ہوئے تشدد کے طور پر محسوس ہو رہی ہے۔ اقلیتوں کے لئے، نظریاتی سوچ پر ہی تو ہر چیز منحصر کرتی ہے۔جب انصاف کے اصول پر سوچا جاتا ہے، صرف تبھی امبیڈکری معنی میں دلت، مسلمان، آدیواسی اور خواتین وجود میں آتے ہیں اور وہ سیاسی طور پر وجود حاصل کرتے ہیں۔
ورنہ تو صرف فرقہ وارانہ اکثریت ہی وجود میں رہتی ہے، اور یہ وجود کسی کی بھی پرواہ نہیں کرتا، مطلق اور کھوکھلا ہوتا ہے، بنا کسی غوروفکر یا خیال کے، جو کہ ایک برانڈ کے طور پر ‘نئے ہندوستان ‘کا معجزہ ہے، جس میں سوچ کے ساتھ جڑے شرم اور پریشانی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔جو ایک ایسا برانڈ ہے جس پر چمتکاری بابا اڑے ہوئے ہیں اور جس کی وہ مسلسل تشہیر کرتے ہیں۔ لیکن 2014 کے بعد سے جس جارحانہ معجزے پر بار بار زور دیا جاتا رہا ہے، اس کی گہرائی اور بڑھتی گئی ہے۔جب اقلیتوں کو ان کے سیاسی وجود سے محروم کیا جاتا ہے، تب ان کی زندگیاں محض ایک طبعی وجود میں سمٹ جاتی ہیں اور وہ بس ایک ‘ آبادی ‘ بنکر رہ جاتے ہیں۔
یہی وہ حالات ہیں، جن میں مسلمانوں کی حالت خاص طور سے تشویشناک بن جاتی ہے۔اگر بی جے پی بنیادی طور پر ایک ہندو اکثریت پارٹی ہے جو اپنے کو ایک’فرقہ وارانہ معجزہ ‘کے طور پر پیش کرتی ہے اور جس کو کانگریس کے برعکس مسلمان کمیونٹی کو استعمال کرنے میں بھی دلچسپی نہیں ہے، تب اس مسلمان ‘آبادی ‘کے ساتھ اس کا کیا رشتہ رہ جاتا ہے؟ لگتا ہے کہ یہ ایک منفی اور سطحی رشتہ ہے، جیسے بی جے پی کے مسلمانوں سے نہ کچھ لینا ہے اور نہ دینا ہے۔اس کمیونٹی سے نہ تو ان کا کوئی امیدوار ہوتا ہے اور نہ زیادہ ووٹ کی امید ہوتی ہے
لیکن فوراً ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ظاہری طور پر ‘ ناموجود رشتے ‘سے گڑھی ہوئی منفی امیج کا ایک سلسلہ نکل پڑتا ہے :بد ذات تصور کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ مسلمان موٹے طور پر ایک ایسی ‘ مسلم دنیا ‘ کا حصہ ہے جس میں وہ ملک بھی شامل ہے، جس کو ہندوستان کا سب سے بڑا ‘ دشمن ملک ‘ بتایا جاتا ہے۔ مسلمان جو اپنی بناوٹ میں ہی ‘ پسماندہ ‘ہے مانو پسماندہ پن تاریخی جانبداری کا معاملہ نہ ہو بلکہ سماجی یا مذہبی پیدائشی یا زین جیسی کوئی چیز ہواور مسلمانوں سے (صرف مسلمان نام والوں کو ہی نہیں بلکہ خود ‘ مسلمان ‘ نام سے ہی)یہ صاف نفرت، ان کو خارج کرنے کی انتہائی کوششیں، خاص طور پر ایک المیہ ہی ہے۔
کیونکہ جب ہم یاد کرتے ہیں کہ 1945 میں امبیڈکر جب ‘فرقہ وارانہ تعطل ‘کو خیالات اور اصولوں کی کسوٹی پر کس رہے تھے،تب وہ ہندوستانی مسلمانوں کو ایک مستقبل کے جمہوری ہندوستان اور مستقبل کے ایک پاکستان کے درمیان، جس کی پوری اسکیم ایک فرقہ وارانہ اکثریت پر مبنی تھی، سچ مچ کا ایک اختیار پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایسا انہوں نے ذاتی فیصلے کے اصول کو منظور کرتے ہوئے کیا تھا، جس پر پاکستان کی مانگ پر مبنی تھی۔آج جب ملک کے مفکر’ذاتی فیصلہ’کا نام بھر سنکر بھڑک اٹھتے ہیں، وہ سارے لوگوں کو شامل کرنے والے ایک مقبول عام جمہوریت کے طور پر ہندوستان کے ذاتی فیصلے پر سوچنے کی محنت کرنے سے نفرت کرتے ہیں۔
لیکن صرف اس لئے کہ بی جے پی ایک غیر تغیر پذیر انتخابی معجزہ (2014) کو ہندوستان کی تقدیر پر تھوپنا چاہتی ہے اور اس لئے اس کے صدر چاہتے ہیں کہ ہرایک انتخاب اسی ایک انتخاب کے انکشاف راز پر چلے اور اس کی نقل کرے، صرف اس لئے کہ وہ اس کے لئے ‘ اڑے ‘ ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چیزیں ہر حال میں اسی شکل میں سامنے آئیںگی۔ اسی لئے بی جے پی 2014 کے بعد سے کئی ریاستوں میں، مقامی انتخابات میں اور لوک سبھا ضمنی انتخاب میں ہاری ہے۔لیکن پھر بھی پارٹی اڑی ہوئی ہے! 2014 کے اپنے ‘ معجزہ ‘ کے اصول پر مبنی، جس سے فرقہ وارانہ اکثریت کا نیا جنم ہوا، بلکہ یہ پہلی بار پیدا ہوا،نظریات : یہ 2014 کے بعد کی کسی انتخابی ہار کو ایک بھول یا غلطی مانتی ہے۔
کوئی بھی ایسا انتخاب جس میں سیاسی اور فرقہ وارانہ اکثریت کے درمیان کا فرق پھر سے دکھنے لگے، تو وہ ایک پرانی، باسی چیز ہوگی۔اس لئے، تاریخ چاہے جو کہے، تقدیر کی دلیل سے پارٹی (بی جے پی)کو انتخابی غلطی میں مداخلت کرنے اور اس کو سدھارنے کا حق ہے، چاہے یہ مداخلت کتنی ہی غیر قانونی کیوں نہ دکھے (مثال کے لئے گورنروں کے بے دھڑک استعمال کو دیکھا جا سکتا ہے)۔ یہ انتخابی سائنسی زین کا ایک نیا فسطائی پروگرام ہے، جس میں لمحاتی طور پر فسطائی اور سیاسی ایمرجنسی کی جانی پہچانی شرط یعنی آئین کو معطل کئے جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ساتھ ہی، یہ انتخابی سائنسی زین انتخابی نتائج میں ہیر پھیرکرنے میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتا، جتنا اس کو یقینی بنانے میں کہ نتیجہ چاہے جو ہوں،انتخاب کے بعد ابھرنے والے منظرنامےمیں اقتدار کے لئے ہوڑ لگا رہے بےشمار جماعت، پارٹیوں یا گروپوں والے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے سامنے ایک انتخابی فیصلہ پیش کیا جائے اور ان پر فرقہ وارانہ اکثریت کی ایک ایسی تہہ چڑھا دی جائے، جس کو انتخابات سے پہلے سے ہی تیار رکھا گیا ہے۔
آخرکار اب ضرورت دھاندلی یا پھر ایماندار انتخابات کے ذریعے جمہوری جواز حاصل کرنے میں مشتمل نہیں ہیں، بلکہ ضرورت اقتدار پر گرفت بنائے رکھنے سے ہے، اس حد تک جس حد تک اس عمل اور گرفت سے ایک مخصوص خود مختار اور پھوہڑ شان و شوکت جڑا ہوا ہے۔ لیکن اس انتہائی شان و شوکت تک پہنچنے کے لئے، سب سے پہلے انتخابی نمائندگی کی دلیل کو اس طرح سے توڑ مروڑکرنا پڑےگا :عوام کو فرقہ وارانہ اکثریت کی ایک بے رحم ‘حقیقت ‘ اور الہی ‘اصول ‘کے آگے خودسپردگی کے لئےجشن منانا ضروری ہے۔
اگر وہ اس بات کو لےکر بےفکر ہوں کہ ایک سیاسی اکثریت کو ‘ تیار کرنا، توڑنا اور پھر سے تیار کرنا ‘ اب ممکن نہیں رہا، کہ صرف فرقہ وارانہ اکثریت کا وجود ہے، تب انتخابات ایک بلیک میل یا اغوا والی حالات بن جاتے ہیں :اگر آپ اکثریتی پارٹی کے لئے ووٹ نہیں کرتے تو آپ اقتدار کے پھوہڑ ذائقے سے محروم ہو جائیںگے اور اس کے بجائے آپ کو اس کے خود مختار تشدد کا قہر برداشت کرنا پڑےگا۔ دوسری طرف، اگر آپ اس کے لئے ووٹ کرتے ہیں تو ایک طرح سے آپ اس تشدد کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں (جیسا آج فرقہ وارانہ ماب لنچ کیا کرتی ہے)۔
ایسے میں اقلیتوں کے لئے راستہ یہی ہے کہ وہ یا تو خاموش ہو جائیں یا پھر فرقہ وارانہ دہشت کی سیاسی طور پر مزاحمت کریں-یا پھر بلیک میلر یا اغوا کار کے پیار میں پڑ جائیں (آر ایس ایس سے جڑ جائیں) اسٹاک ہوم سنڈروم کے اس رجحان کو بی جے پی اور مودی کے متعلق اس خوب سارے پیار میں دیکھا جا سکتا ہے جس کا چلن پورے ملک میں ان دنوں چل پڑا ہے۔ میری نظر میں موجودہ دور میں چل رہے منصوبہ کا یہ بنیادی رجحان ہے جو فریب سے بھرا ہوا، تشدد آمیز اور تشویشناک شکل سے کارگر دکھ رہا ہے۔لیکن اس بدتر کامیابی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آج کے وقت میں فاتح دکھ رہی فرقہ وارانہ عام متفقہ رائے کے خلاف ایک مایوس کن اعتدال پسند عام رائے قائم کی جائے کہ اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کی سیاسی علیحدگی، ثقافتی ذلت اور جسمانی تشدد ہماری قومی زندگی کا نیا رجحان (نیو نارمل)’ ہے ۔
باقی ہم سبھی لوگ مایوسی یا جوش کے ساتھ جس بات کو ایک ‘ رجحان ‘ (نارمل) کے طور میں قبولکر سکتے ہیں، اس کو اقلیتوں کو ایک ایمرجنسی کی طرح جینا پڑتا ہے۔نئے ‘ہندوستانی حالات ‘، چاہے جتنے بھی ضد کے ساتھ اس پر اڑے رہیں، وہ کبھی بھی ایک رجحان یا عام بات نہیں بن سکتے اور ان کو بننا بھی نہیں چاہیے۔
(یہ مضمون بنیادی طور پر انڈین کلچر فورم کی ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا۔اس کو مضمون نگار کی اجازت سے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔سومیہ برت چودھری جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے اسکول آف آرٹس اینڈ ایستھیٹکس میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور حال ہی میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے نظریات پر ان کی کتاب’ امبیڈکر اینڈ ادر امارٹلس :این انٹچیبل ریسرچ پروگرام’ شائع ہوئی ہے۔ )
Categories: فکر و نظر