اس فیصلے سے ایک بات اور صاف ہوتی ہے وہ یہ کہ ایک شہری کیا کھاتا اور کیا پیتا ہے یا کیا کھا، پی، پہن اور پڑھ – لکھ سکتا یا نہیں یہ اس پر منحصر نہیں کرتا کہ ‘عوام’ یا ‘اکثریت’ اسے پسند کرتی ہے یا نہیں۔ کئ معنوں میں کورٹ کا یہ فیصلہ رائٹ ٹو پرائیویسی والے فیصلے کو آگے بڑھانے والے فیصلے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے جمعرات کوتعزیرات ہند کی دفعہ 377 کے اس حصے کو غیر آئینی قرار دیا ہے جس کے مطابق دو بالغ ہم جنسوں کے درمیان رضامندی کے ساتھ سیکس کو جرم مانا جاتا رہا ہے۔البتہ کورٹ نے اس موقع پر صاف کیا ہے کہ بچو ں اور جانوروں کے ساتھ ایسا کرنا اب بھی جرم کے زمرے میں آئے گا۔کورٹ کا یہ تاریخی فیصلہ 5 ججوں کی آئینی بنچ نے متفقہ طور پر سنایا۔ اس موقع پر چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا کہ ایل جی بی ٹی کمیونٹی کو عام شہریوں کے برابر حقوق حاصل ہیں اور ہم جنسی غیر قانونی رشتہ یا جرم نہیں ہے ۔اس موقع پر ایک جج (جسٹس کھانولکر)نے یہ بھی کہا کہ اکثریت کے خیالات اور پاپولر اخلاقیات ملک میں شہریوں کے حقوق کوطے نہیں کر سکتے ہیں۔
کورٹ کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اپنے اس فیصلے کے ذریعے کورٹ نےاسی کورٹ کے ایک فیصلہ(دسمبر 2013) کو مسترد کر دیا ہے۔ واضح ہو کہ جولائی 2009 میں جسٹس اے پی شاہ اور جسٹس مرلی دھر والی دہلی ہائی کورٹ کے ایک بنچ نے ہم جنسی کو قانونی قرار دیا تھا، جسے دسمبر 2013 میں سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے مسترد کر دیا تھا۔ اس فیصلے کو اگر وسیع تر پس منظر میں دیکھا جائے تو ایک اور بات سمجھ میں آتی ہے، جس کا عام طور پر خیال نہیں رکھا جاتا رہا ہے۔وہ یہ ہے کہ کورٹ کے فیصلے کی بنیاد حقائق اور شواہد کو سامنے رکھ کر دیے جاتے ہیں نہ کہ اکثریت کے خیالات اور احساسات کے پیش نظر۔
ویڈیو : ہندوستان میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے حقوق اورمسائل
اب یادکیجیے پارلیامنٹ اٹیک معاملے میں افضل گرو کو پھانسی سنایا جانے والا وہ فیصلہ جس میں کورٹ نے کہا تھا کہ یہ صحیح ہے کہ افضل کےخلاف اس معاملے میں کوئی ثبوت نہیں ہے پر اس کو سزا اس لئے دی جانی چاہئے کیونکہ جس جرم میں اس کو ملزم بنایا گیا ہے وہ بہت ہی سنگین ہے اور اس کو پھانسی دینے سے ہی سماج کے Collective Conscience کو تشفی ہوگی۔ تمام تر کوششوں کے باوجود افضل کوتختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ فرض کیجئے اس وقت ایسی کوئی نظیر ہوتی جس کو بنیاد بناکر کہا جا سکتا کہ صرف اکثریت کے احساس اور خیالات کی بنیاد پر کس کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔اس لحاظ سے موجودہ فیصلہ آنے والے وقت میں ایک نظیر کی حیثیت رکھتا ہے اور جہاں تک اس پر عمل یا اس پر سیلیکٹو عمل کرنے کی بات ہے تو اس کو آنے والے وقتوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔
اس فیصلے سے ایک بات اور صاف ہوتی ہے وہ یہ کہ ایک شہری کیا کھاتا اور کیا پیتا ہے یا کیا کھا، پی، پہن اور پڑھ – لکھ سکتا یا نہیں یہ اس پر منحصر نہیں کرتا کہ ‘عوام’ یا ‘اکثریت’ اسے پسند کرتی ہے یا نہیں۔ کئ معنوں میں کورٹ کا یہ فیصلہ رائٹ ٹو پرائیویسی والے فیصلے کو آگے بڑھانے والے فیصلے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔لہٰذا، آنے والے دنوں میں جب کوئی یہ کہتا ہے کہ لوگوں کو گائے کا گوشت نہیں کھانا چاہیے کیونکہ اس سے اکثریت کے احساسات مجروح ہوتے ہیں تواس کو یہ کہتے ہوئے یاد رکھنا ہوگا کہ اس یہ کہنا دراصل ایک ہندوستانی شہری کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔
اب چند باتیں ہم جنسی کے تعلق سے۔ کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم جنسی کے قانونی ہو جانے سے ایک قسم کا ہیجان پھیل جائے گا، ‘ہم جنس پرست’ لوگ جدھر دیکھو ادھر منہ مارنے لگیں گے۔عریانیت عام ہو جائے گی،Morality نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جائے گی۔ دراصل یہ اسی طرح کی سوچ اور غلط فہمی ہے جو عام طور پر مسلمانوں کے تعلق سے اکثریت میں پائی جاتی ہے۔مثلاً، کیونکہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے تو اس کو اکثر ایسا سمجھا جاتا ہے یا یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہر مسلمان کی کم سے کم ایک سےزیادہ بیوی ہوتی اور مسلمان زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔جبکہ حقیقت اس سے کوسوں دور ہے۔
مسلمانوں کے پاس اور بھی دکھ ہیں …لیکن ،اکثر لوگ ایسا نہیں مانتے کیونکہ وہ مسلمانوں اور مسلم سماج کو نہیں جانتے۔ وہ اکثر انہی چیزوں پر یقین کر لیتے ہیں جو انہیں بتایا جاتا ہے یا پھر وہ ادھر ادھر سے سنتے ہیں۔ ٹھیک یہی معاملہ LGBTQ برادری سے متعلق ہماری رائے کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ ان کے بارے میں ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کی رائے سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے۔ ہم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم سے الگ جنسی رجحان رکھنے والے بھی انسان اور برابر کے شہری ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سے جیسے گوشت کھانے والے، سبزی کھانے والوں کے ہیں۔ اوراس فیصلہ کا پیغام بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم سب یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں گے اور یہ ذمہ داری LGBTQ برادری سے کہیں زیادہ ہم پر ہے کیونکہ ہم کو اپنی رائے بدلنی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں کورٹ اپنا یہ تیور برقرار رکھے گی اور اس کے فیصلے بلا تفریق مذہب، زبان، علاقہ اور ذات اپنے فیصلے شواہد اور حقائق کی بنیاد پر سناتی رہے گی۔ ٹھیک اسی طرح سے جیسے کہ اس معاملے میں کیا ہےیہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس سے یہ پیغام جائے گا کہ کورٹ کی نظر میں ہر خاص و عام برابر ہے اور ہندوستان کا ہر شہری Equal Citizen ہے اوریہ بنیادی حق کوئی حکومت یا قانون بھی نہیں چھین سکتا۔
مکمل فیصلہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں:
Section 377-1 by The Wire on Scribd