ایس سی ایس ٹی ایکٹ کو لےکر سمترا مہاجن نجی طور پر کوئی بھی رائے رکھیں، لیکن لوک سبھا اسپیکر کے طور پر ان کا چاکلیٹ والا بیان کہیں سے بھی جائز اور ان کے عہدے کے وقار کے مطابق نہیں مانا جا سکتا۔
حکمراں بھارتی جنتا پارٹی کے ترجمانوں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ مرکزی وزراء اور وزرائے اعلیٰ کی طرف سے بھی پچھلے لمبے وقت سے اوٹ پٹانگ بیان بازی کرنے کا بے لگام سلسلہ بنا ہوا ہے۔اقتدار کے غرور میں چور ہوکر دئے جا رہے اس طرح کے بیان نہ صرف غیراخلاقی ہیں بلکہ آئینی وقار کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔اس طرح کی بیان بازی کے سلسلے میں لوک سبھا اسپیکرسمترا مہاجن بھی الگ نہیں ہیں۔ ان کے بیانات سے کئی بار تو ایسا لگتا ہے مانو وہ خودہی اپنے کو پارٹی کا عام کارکن دکھانے کی حد درجہ کوشش میں ایسے بیان دیتی ہیں۔
لوک سبھا میں پچھلی قریب تین دہائی سے اندور کی نمائندگی کر رہیں سمترا مہاجن پچھلے چار سالوں سے لوک سبھا کی اسپیکر ہیں۔اس سے پہلے وہ مرکزی حکومت میں وزیر اور مختلف وزارتوں سے متعلق پارلیامانی کمیٹیوں کی اسپیکر اور ممبر بھی رہی ہیں۔اس کے علاوہ وہ اپنی پارٹی کی قومی نائب صدر اور جنرل سکریٹری بھی رہ چکی ہیں۔ ان کی رسمی تعلیمی صلاحیت بھی عام سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ ان سب سے ان کی امیج موٹے طور پر ایک سنجیدہ اور پختہ رہنما کی بنتی ہے۔ لیکن قومی اہمیت کے مسائل پر ان کے کئی بیان ان کے اس امیج کی بےرحمی سے تردید کرتے ہیں۔
مشہور’ایٹروسٹی ایکٹ’ایس سی ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم پراشرافیہ طبقےکے غصے کے درمیان سمترا مہاجن نے جو بیان دیا ہے وہ اپنے آپ میں قابل اعتراض تو ہے ہی، قانون بنانے والے اعلیٰ ترین ادارہ یعنی لوک سبھا کے عہدے کے وقار سے بھی میل نہیں کھاتا ہے۔
سمترا مہاجن کا کہنا ہے کہ دلتوں کو ‘ایٹروسٹی ایکٹ’کے طور پر پہلے بڑی چاکلیٹ دے دی گئی، جس کو اب فوراً چھیننا ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ اس سے ان کے غصے کا دھماکہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے تھوڑے وقت بعد سمجھا-بجھا کر وہ چاکلیٹ واپس لے لی جائےگی۔ ‘ ایٹروسٹی ایکٹ ‘ کی مخالفت میں ہندوستان بند کے دوران انہوں نے اپنے انتخابی حلقہ اندور میں بھارتی جنتا پارٹی کے کاروباری سیل کے ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی شخص کو دی گئی کوئی چیز اگر کوئی اس سے فوراً چھیننا چاہے تو یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
اپنی بات کو واضح کرنے کے لئے انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا، ‘مان لیجئے کہ اگر میں نے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں ایک بڑی چاکلیٹ تھما دی اور بعد میں مجھے لگا کہ اتنی بڑی چاکلیٹ کھانا اس کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ اب اگر ہم بچّے کے ہاتھ سے وہ چاکلیٹ زبردستی لینا چاہیں، تو ہم نہیں لے سکتے، کیونکہ ایسا کرنے پر وہ غصہ کرےگا اور رونے لگےگا۔ لیکن دو-تین عقلمند لوگ بچّے کو سمجھا-بجھاکر اس سے وہ چاکلیٹ واپس لے سکتے ہیں۔ ‘لوک سبھا اسپیکر کے عہدے پر جلوہ افروز بی جے پی کی سینئر رہنما کا یہ قول صرف ان کی ہی نہیں، بلکہ ان کی پارٹی اور اس کی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی بھی ذہنیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ان کے لئے دلت کمیونٹی ایک ایسا بگڑیل بچہ ہے جس کو ‘ایٹروسٹی ایکٹ’کے طور پر بڑی سی چاکلیٹ تھما دی گئی ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ ابھی اگر اس چاکلیٹ کو جبراً چھیننے کی کوشش کی گئی تو پچھلے کچھ سالوں کے دوران بڑی مشکل سے سیاسی طور پر ساتھ آیا دلت طبقہ ہمیشہ کے لئے بی جے پی سے چھٹک جائےگا اور اس سے جو سیاسی نقصان ہوگا، اس کی بھرپائی کہیں سے نہیں ہو پائےگی۔سمترا مہاجن کی منشا یہ بھی ہے کہ ابھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو بدلنا بی جے پی حکومت کی مجبوری تھی، لیکن آئندہ انتخاب کے بعد دلت طبقے کو دی گئی یہ’چاکلیٹ’اس سے چھین لی جائےگی۔
دراصل،دلتوں کے تئیں بی جے پی اور سنگھ کی یہ ذہنیت نئی نہیں ہے۔دلت کمیونٹی کے تئیں اس کی حقارت بھری ذہنیت کا مظاہرہ وقت وقت پر ہوتا رہتا ہے اور ایسا کرنے میں خود وزیر اعظم نریندر مودی بھی پیچھے نہیں رہتے ہیں، جو مختلف مواقع پرخود کو پچھڑا اور بہت پچھڑے طبقے کا اور کبھی کبھی دلت ماں کا بیٹا بتانے سے بھی نہیں چوکتے۔
یاد کیجئے وہ واقعہ جب دہلی اسمبلی کے انتخاب کے وقت مرکزی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی کے ‘رامزادے بنام حرامزادے ‘والے بیان پر تیکھا رد عمل ہوا تھا اور پارلیامنٹ میں بھی خوب ہنگامہ ہوا تھا، تب وزیر اعظم مودی نے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے لوک سبھا میں کہا تھا کہ چونکہ نرنجن جیوتی دلت کمیونٹی اور دیہات سے آتی ہیں، اس لئے وہ ایسا بول گئی ہیں۔ لہذا ان کے بیان کو زیادہ طول نہ دیا جائے۔
وزیر اعظم کا یہ قول بےحد قابل اعتراض اور واضح طور پر پوری دلت کمیونٹی کی بے عزتی کرنے والا تھا۔ ان کے قول کا مقصد صاف تھا کہ دلت کمیونٹی کے لوگوں کی زبان ایسی ہی ہوتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ پارلیامنٹ میں وزیر اعظم کے اس قول پر اس وقت کسی نے اعتراض نہیں جتایا اور معاملہ ختم ہو گیا۔
بہر حال،’ایٹروسٹی ایکٹ’کے بارے میں سمترا مہاجن نجی طور پر کوئی بھی رائے رکھے، لیکن لوک سبھا اسپیکر کے روپ میں ان کا بیان کہیں سے بھی جائز اور ان کے عہدے کے وقار کے مطابق نہیں مانا جا سکتا۔یہ پہلا موقع بھی نہیں ہے جب انہوں نے لوک سبھا اسپیکر کی حیثیت سے اس طرح کا غیرذمہ دارانہ بیان دیا ہو۔اس سے پہلے وہ دلتوں،آدیواسیوں اور دیگر پچھڑے طبقے کو سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ملنے والے ریزرویشن کو لے کر بھی ایسا ہی بیان دے چکی ہیں۔
معاملہ کوئی تین سال پرانا ہے، جب گجرات کے بڈودرا میں ایک پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ‘آئین میں ریزرویشن کا اہتمام محض 10 سالوں کے لئے رکھا گیا تھا، لیکن آہستہ آہستہ یہ مستقل نظام بن گیا۔اب وقت آ گیا ہے جب ہمیں اس نظام کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ ‘
لوک سبھا اسپیکر کا یہ بیان نہ صرف غیرذمہ دارانہ بلکہ ان کی عدم واقفیت کا بھی مظہر تھا۔ ان کو یا تو معلوم نہیں ہوگا یا پھر وہ بھول گئیں ہوںگی کہ آئین میں جس ریزرویشن کا اہتمام 10 سال کے لئے ہونے کی بات کہی گئی ہے، اس کا تعلق قانون سازی یعنی لوک سبھا اور اسمبلی کے ریزرویشن سے ہے۔
اس اہتمام کا بھی تجزیہ ہر 10 سال بعد پارلیامنٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے اور عام رضامندی سے یہ مدت اگلے دس سال تک کے لیےبڑھا دی جاتی ہے۔ جہاں تک سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن کی بات ہے، تو اس کے لئے آئین میں کوئی وقت و حدمتعین نہیں ہے اور دیگر پچھڑے طبقے کو تو یہ سہولت 1992 سے ہی ملنا شروع ہوئی ہے۔یہ چند واقعے تو آئین اور دلت-آدیواسی کمیونٹی کے تئیں ان کی سوچ کو ظاہر کرنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم کے نجی کاری اور تعلیمی مافیا سے اپنے لگاؤ کو بھی وہ بےجھجک ظاہر کرتی رہی ہیں۔
کچھ وقت پہلے جب ان کے انتخابی حلقہ کے لوگوں نے بڑی تعداد میں ان سے ملاقات کر نجی تعلیمی اداروں کے ناظم کی من مانی اور اناپ شناپ فیس وصولنے کی شکایت کی تو انہوں نے اس شکایت پر جھلاتے ہوئے کہا تھا، ‘جب آپ لوگوں کے پاس فیس بھرنے کے پیسے نہیں ہیں تو آپ اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں کیوں نہیں پڑھاتے آپ سے کس نے کہا کہ آپ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں ہی پڑھائیں۔ ‘یہ تو محض کچھ نمونے ہیں لوک سبھا اسپیکر کے غرور اور عدم واقفیت کے۔ باقی لوک سبھا کی کارروائی کے دوران ان کے عجیب و غریب طور طریقے تو ایک الگ ہی بحث کی درکار رکھتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر