کچھ امیر صنعت کار اور امیر ہوتے رہے، عوام ہندو-مسلم کرتی رہی، اس لئے کانگریس بھی نہیں بتاتی ہے کہ وہ جب اقتدار میں آئےگی تو اس کی الگ اقتصادی پالیسی کیا ہوگی۔ بی جے پی بھی یہ سب نہیں کرتی ہے جبکہ وہ اقتدار میں ہے۔
اپریل 2015 میں ہندوستان ٹائمس نے لکھا تھا کہ رگھو رام راجن نے نان پرفارمنگ اسیٹ کے کچھ ہائی-پروفائل فراڈ کی فہرست وزیر اعظم دفتر کو سونپی تھی۔ مانگ کی تھی کہ تفتیش ہو اور کچھ کو جیل بھیجا جائے۔اخبار کے مطابق راجن نے 17500 کروڑ کے فراڈ کے بارے میں اطلاع دی تھی۔ اس میں وینسم ڈائمنڈ اینڈ جوئیلری، زوم ڈیولپرس، تیواری گروپ، سوریہ ونایک انڈسٹری، ڈکن کرانیکل ہولڈنگ، فرسٹ لیجنگ کمپنی آف انڈیا، سوریہ فارما۔ ان کمپنیوں کے نام ہندوستان ٹائمس نے اپنی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے لکھا تھا۔ دو سال بعد وینسم ڈائمنڈ کے خلاف سی بی آئی نے معاملہ درج کیا تھا۔
رگھو رام راجن نے پارلیامانی کمیٹی کے سامنے 17 پیج کی ایک رپورٹ سونپی ہے۔ اس رپورٹ کو انہوں نے اپنے بلاگ پر بھی ڈالا ہے جہاں آپ پورا پڑھ سکتے ہیں۔ پارلیامانی کمیٹی جاننا چاہتی ہے کہ 9 لاکھ کروڑ این پی اے کی کیا وجوہات ہیں اور اس کو ابرنے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے۔
دی وائر میں سواتی چترویدی نے لکھا ہے کہ راجن نے تاریخ نہیں بتائی ہے کہ کس تاریخ کو پی ایم او کو لکھا تھا کہ کچھ کمپنیاں اپنی لاگت کو بڑھاچڑھاکر پیش کرنے والی ہیں تاکہ جو قرض لیا ہے اس کو ڈوب جانے کے طور پر دکھایا جا سکے۔ مگر ہندوستان ٹائمس کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم کے دفتر کو گورنر نے اطلاع دی تھی۔ پھر ان سب کے خلاف فوراً کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟سواتی تو لکھتی ہیں کہ وزارت خزانہ کے پاس بھی یہ فہرست تھی۔ پھر کسی نے کارروائی کیوں نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں :رگھو رام راجن نے پی ایم او کو دی تھی این پی اے سے جڑے گھوٹالےبازوں کی فہرست، لیکن نہیں ہوئی کارروائی
راجن نے یہ بھی بتایا ہے کہ08-2006 سے برے لون کا بڑھنا شروع ہوتا ہے۔جب معیشت میں تیزی تھی اور پاور پروجیکٹ وقت سے پورے ہو رہے تھے۔تبھی بینکوں نے ایسی غلطی کی۔ انہوں نے گروتھ کا زیادہ ہی اندازہ لگا لیا اور اس کی بنیاد پر بنا احتیاط کے لون بانٹنا شروع کر دیا۔ جب 2008 میں مندی آئی تو بینک لون ڈوبنے لگے۔گورننس کے کئی مسائل تھے۔ کوئلہ کان کے بٹوارے کو لےکر سوال اٹھ رہے تھے۔ تفتیش کے ڈر سے حکومت نے فیصلہ لینا دھیما کر دیا۔ یو پی اے میں بھی اور این ڈی اے میں بھی یہ جاری رہا۔ ہندوستان میں بجلی کی کمی ہے پھر بھی پاور پلانٹ کی حالت میں اصلاح نہیں ہوئی۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ آج تک حکومت کے فیصلے سے اس سیکٹر میں اصلاح تیز نہیں ہوئی۔ این پی اے کا بننا بعد تک جاری رہا۔
تب بینکرپسی کوڈ نہیں تھا۔اس سبب بینک لون نہ دینے والے قرضدار کے خلاف کارروائی نہیں کر پا رہے تھے۔نتیجہ یہ ہوا کہ ڈوبے ہوئے قرض کی ذمہ داری بڑھتی گئی۔ سسٹم بھی غیر جانب دار بنا رہا۔ فراڈ کا بھی حصہ بڑھتا جا رہا تھا مگر وہ این پی اے کی تمام رقم کے سامنے چھوٹا ہی تھا۔فراڈ این پی اے سے الگ ہوتا ہے۔ اس کے خلاف کارروائی ہو سکتی تھی مگر نہیں ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فراڈ بند نہیں ہوا۔ رگھو رام راجن کے وقت میں فراڈ پر نظر رکھنے کے لئے ایک سیل بھی بنایا گیا تاکہ فراڈ کی اطلاع فوراً مل سکے۔ اسی کی فہرست پی ایم او کو بھیجی گئی مگر کارروائی نہیں ہوئی۔
مودی حکومت نے بینکرپسی کوڈ کے عمل پر تنقید کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ بڑے پروموٹر فالتو اپیل کے ذریعے اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اس کے عمل میں ایمانداری بہت ضروری ہے۔پروموٹر کسی مددگار کمپنی کے ذریعے اس کی نیلامی میں شامل ہو جا رہے ہیں اور کمپنی خرید لے رہے ہیں۔ پہلے سے کافی کم دام میں۔ ایک بار کورٹ میں جانے کے بعد پروموٹر کو کوئی چانس نہیں ملنا چاہیے۔ ہمارا عدالتی نظام ہر طرح کے فراڈ کو ڈیل کرنے میں اہل نہیں ہے۔
راجن نے یہ بھی لکھا ہے کہ لون میں ڈوب رہے بینکوں کے انضمام کا راستہ صحیح نہیں ہے۔ بینک کو ہی صحیح کرنا ہوگا۔ لون لینے والے پورموٹر کو کسی طرح کا فائدہ نہیں ملنا چاہیے۔یہ تو ان کو تحفہ دینے جیسا ہوگا۔ بینکوں کے سی ای او کے اثاثوں کی تحقیقات کی جانی چاہئے تب ہی معلوم ہو سکے گاکہ قرض دینے میں بدعنوانی ہوئی ہے یا نہیں۔
راجن نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ کرنسی لون پر نظر رکھی جائے۔ یہ ایک اور بحران پیدا کرنے والا ہے۔ کوئی بھی بینکر بتا دےگا کہ کس طرح کرنسی لون بانٹا گیا ہے۔ اس کا اچھا خاصا حصہ این پی اے بننے کی طرف ہے۔ کرنسی کے تحت چھے لاکھ کروڑ سے زیادہ کی رقم بانٹی جا چکی ہے۔
این ڈی ٹی وی کے شری نواسن جین نے این پی اے پر ایک رپورٹ کی تھی۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے کہا ہے کہ 14-2013،میں جنتا لون دیا گیا تھا اس کا 3.8 فیصد حصہ این پی اے ہو چکا تھا۔ مگر وزیر اعظم مودی نے کہہ دیا کہ جب وہ اقتدار میں آئے تو کل لون کا 82 فیصدی این پی اے ہو چکا تھا۔ اب یہ تعداد کہاں سے آئی، کوئی نہیں جانتا ہے۔
ریزرو بینک کا ڈیٹا بھی بتاتا ہے کہ مودی حکومت میں این پی اے کا بڑھنا جاری رہا ہے۔16-2015 میں کل دئے گئے لون میں این پی اے کا حصہ دو گنا ہو گیا۔ مودی حکومت میں این پی اے کا فیصد جون 2017 میں 82 فیصد ہو گیا۔ جبکہ مارچ 2014 میں 36 فیصد تھا۔
وزیر اعظم مودی کی یہ بات صحیح ہے کہ این پی اے کا مسئلہ ان کو وراثت میں ملا ہے۔ اگر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت میں دیا گیا لون ذرا بھی این پی اے نہیں ہوا تو یہ جھوٹ ہوگا۔ اقتصادی سروے نے بھی کہا ہے کہ جتنا این پی اے ہے اس میں ٹیلی کام سیکٹر کا حصہ 16-2015 میں 5 فیصد سے بڑھکر 8.7 فیصد ہو گیا۔ یعنی مودی حکومت میں بھی این پی اے بڑھتا رہا۔
اس معاملے میں یو پی اے اور این ڈی اے ایک جیسے ہیں۔ اقتصادی پالیسی اور مقصد دونوں کا ایک ہے۔ کچھ امیر صنعت کار اور امیر ہوتے رہے۔ عوام ہندو-مسلم کرتے رہی۔ اس لئے کانگریس بھی نہیں بتاتی ہے کہ وہ جب اقتدار میں آئےگی تو اس کی الگ اقتصادی پالیسی کیا ہوگی۔
کیا وہ پنشن دےگی، کیا وہ سرکاری نوکریوں کے عمل کو ایماندار اور شفاف بنائےگی۔ بی جے پی بھی یہ سب نہیں کرتی ہے جبکہ وہ اقتدار میں ہے۔ اس لئے آپ دیکھیںگے کہ چار رہنما اور چار صنعت کار کا دور چلےگا۔ اسی لئے کوئی امت شاہ ٹھاٹ سے دعویٰ ٹھونک دیتا ہے کہ 50 سال تک ہمیں اقتدار میں رہیںگے۔یہ دعویٰ جتنے رہنما کا نہیں ہے بلکہ ان صنعت کاروں کا ہے جو پیچھے سے ہم پر حکومتکر رہے ہیں۔ کچھ بولنے پر ہتک عزت کا مقدمہ کر دیتے ہیں۔
کیا روپیہ ایک ڈالر کے سامنے 100 تک جائےگا؟
کوئی مارک فیبر ہیں، مدیر، دی گلوم، بوم اینڈ ڈوم رپورٹ کے۔ ان کا انٹرویو چھپا ہے بزنس اسٹینڈرڈ میں۔ ان کا کہنا ہے کہ روپے کا گرنا جاری رہےگا۔ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں ہمیشہ سخت اقتصادی پالیسی ہونی چاہیے۔اس لئے وہ رگھو رام راجن کی تعریف کرتے رہے ہیں مگر وہاں کئی لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ اقتصادی پالیسی میں ڈھیل دی جانی چاہیے۔ راجن نے روپے کو سنبھالے رکھا۔مجھے پورا لگتا ہے کہ روپیہ ایک ڈالر کے سامنے 100 کا ہو جائےگا۔ کیونکہ 1990 سے جب گرنا شروع ہوا ہے تب روپے نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا ہے۔ وقت کا نہیں کہہ سکتا کہ 6 مہینے میں ہوگا یا دس سال میں لیکن ایک ڈالر 100 روپے کا ہو جائےگا۔
اب تو روپیہ اور نیچے چلا گیا ۔گزشتہ کل سوا 9بجےایک ڈالر 72روپے 89پیسے کا ہوگیاتھا۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر