یونین منسٹری آف وومین اینڈ چائلڈ ویلفیئر نے اس معاملے کی جانکاری لیتے ہوئے 15ستمبر تک رپورٹ مانگی ہے ۔مارچ میں لکشمی ششو گریہہ کو بلیک لسٹ بھی کیا گیا تھا۔
نئی دہلی :دیوریااور ہردوئی شیلٹر ہوم اسیکنڈل کے بعد اب اترپردیش کے 2شیلٹر ہوم سے 24بچوں کے لاپتہ ہونے کی خبریں مل رہی ہیں ۔ ٹائمس آف انڈیا کی ایک خبرکے مطابق؛وارانسی کے لکشمی ششو گریہہ اور مرزا پور کے مہادیو ششو گریہہ سے بچوں کے لاپتہ ہونے کی خبر کے بعد ہنگامہ برپا ہے۔
یونین منسٹری آف وومین اینڈ چائلڈ ویلفیئر نے اس معاملے کی جانکاری لیتے ہوئے 15ستمبر تک رپورٹ مانگی ہے ۔اس کے بعد متعلقہ اضلاع کے ڈی ایم نے معاملے کی جانچ کے حکم دیے ہیں ۔ افسروں کا کہنا ہے کہ منسٹری نے سینٹرل اڈاپشن ری سورس ایجنسی (سی آر اے)کے چائلڈ اڈاپشن ری سورس انفارمیشن اینڈ گائیڈنس سسٹم (کیئرنگ )سے ملے 3سال کی تفصیلات کے بعد یہ قدم اٹھایاہے۔تنظیم کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ وارانسی میں 7اور مرزاپور میں 17بچوں کو نہ تو کسی نے گود لیا اور نہ ہی وہ شیلٹر ہوم میں پائے گئے۔
یونین منسٹری آف وومین اینڈ چائلڈ ویلفیئرمیں اڈیشنل سیکریٹری اجئے ترکے نے اترپردیش کے چائلڈ ویلفیئر کے چیف سیکریٹری رینوکا کمار کو 21اگست کو ایک خط لکھا تھا۔ اس میں انہوں نے کہا کہ لکشمی ششو گریہہ کے 3سالوں کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ 15بچوں کو یہاں لایا گیا لیکن اس دوران کسی کو گود نہیں لیاگیا۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ کیئرنگس کے مطابق اس شیلٹر ہوم میں 16اپریل کو 8بچے ملے تھے جبکہ یہاں نہیں پائے گئے 7بچوں کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا ۔ اسی طرح مرزا پور کے مہادیو ششو گریہہ نے یہ ظاہر کیا کہ وہاں 38بچے آئے جبکہ اس دوران 15 بچوں کو گود لیا گیا ۔ 16اپریل کو یہاں 6بچے موجود ملے۔خط میں کہا گیا ہے کہ باقی 17بچوں کے بارے میں نہ تو کوئی جانکاری ملی ہے اور نہ ہی وہ ششو گریہہ میں پائے گئےہیں۔دریں اثنا وارانسی کے ضلع پروبیشن افسر پروین کمار ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ مارچ میں لکشمی ششو گریہہ کو بلیک لسٹ کیا گیا تھا۔
غور طلب ہے کہ اس سے پہلے اتر پردیش کے دیوریا بالیکا گریہہ معاملے کے بعد ہردوئی سے بھی ایک ایسا معاملہ سامنے آیاتھا۔ اس معاملے میں ڈی ایم نے اپنی جانچ میں پایا تھا کہ یہاں کے ایک این جی او کے ذریعے بےسہارا خواتین کے لئے چلائے جارہے سوادھار گریہہ میں 21 میں سے 19 خواتین غائب ہیں۔
جانچکے دوران موقع پر صرف دو ہی خواتین ملی تھیں ۔ بعد میں انتظامیہ کا کہنا تھاکہ مذکورہ سوادھار گریہہ فرضی طریقے سے چلایاجارہا تھا اور رجسٹر میں فرضی نام درج کئے گئے تھے۔ مقامی خواتین کو جانچ کے دوران سوادھار گریہہ میں رہ رہیں خواتین کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
Categories: خبریں