فارما کمپنیوں کے ذریعے انسانوں پر ڈرگ ٹرائل کے خلاف دائر عرضی میں درخواست گزاروں کا الزام ہے کہ ملک میں کئی ریاستوں میں دوا کمپنیاں من مانے طریقے سے دواؤں کا ٹیسٹ کر رہی ہیں،جن کی وجہ سے کئی لوگوں کی جانیں گئی ہیں۔
نئی دہلی : سپریم کورٹ نے بدھ کو مرکزی حکومت کو حکم دیا کہ دوا کمپنیوں کے ذریعے انسانوں پر دواؤں کے کلینیکل ٹیسٹ کو کنٹرول کرنے کے لئے اصول بنائیں کیونکہ ان سے لوگوں کی صحت پر سنگین اثر پڑےگا۔ مرکز نے سپریم کورٹ سے کہا کہ اس نے اس سال فروری میں کلینیکل ٹیسٹ کے بارے میں اصولوں کا مسودہ جاری کیا تھا جس میں ایسے ٹیسٹ کے متاثرین کو پانچ سے 75 لاکھ روپے تک معاوضہ دینا بھی شامل تھا اور اس پر اعتراضات اور مشورہ دینے کے لئے 45 دن کا وقت دیا گیا تھا۔
جسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے درخواست گزاروں سے کہا کہ وہ اصولوں کے مسودہ پر اپنے اعتراضات اور مشورے حکومت کو دیں تاکہ ان پر غور کیا جا سکے۔ درخواست گزاروں کا الزام ہے کہ کئی دوا بنانے والے فرم ملک بھر میں بڑے پیمانے پر انسانوں پر دواؤں کا کلینیکل ٹیسٹ کر رہی ہیں اور ان میں بہت سی موتیں ہو چکی ہیں۔ درخواست گزاروں کا یہ بھی الزام ہے کہ ملک کی کئی ریاستوں میں دوا بنانے والی کمپنیاں من مانے طریقے سے دواؤں کا ٹیسٹ کر رہی ہیں۔
مرکز کے وکیل نے بنچ سے کہا کہ وہ مسودہ پر اعتراضات اور مشورے منگاتے ہوئے نوٹس جاری کریںگے اور ان کو داخل کرنے والوں کو سنائیں گے۔ جب وکیل نے کہا کہ تقریباً سو آدمیوں نے مسودہ پر اپنے اعتراضات اور مشورے دیے ہیں، تو بنچ نے تبصرہ کیا کہ اس سے ملک کے لوگوں پر سنگین اثر ہوگا۔ آپ ان آدمیوں کو بلائیں اور ان سے بات کریں۔
ایک درخواست گزار کے وکیل سنجے پارکھ نے کہا کہ دواؤں کے کلینیکل ٹیسٹ کے مدعے کوکنٹرول کرنے کے لئے اصول تیار کئے گئے ہیں کیونکہ اس عمل کے دوران لوگوں کو محض ایک ‘ موضوع ‘ کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان ٹیسٹ کی وجہ سے ہونے والی موت کے سوال کو کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے تو لوگوں کو جانکاری دیے بغیر ہی ان پر یہ ٹیسٹ کئے جا رہے تھے۔
اس پر بنچ نے کہا کہ آخر کار مرکز اور ریاستی حکومتوں کو ہی ریگولیشن اور عمل کرنا ہوگا۔ ہم تو صرف ہدایت ہی دے سکتے ہیں لیکن یہ کسی طرح سے مددگار نہیں ہوگا۔ ایک دیگر درخواست گزار کی طرف سے سینئر وکیل کولن گونجالوس نے کہا کہ ریاستی حکومتیں قانون کی سراسر خلاف ورزی کر رہی ہیں اور اس طرح کے کلینیکل ٹیسٹ کی وجہ سے کئی لوگ جان گنوا چکے ہیں۔ اس تعلق سے انہوں نے پارلیامانی کمیٹی کی 2012 اور 2013 کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا۔
گونجالوس نے کہا کہ اس کام میں لگی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو کلینیکل ٹیسٹ کے متاثرین کو معاوضہ دینے سے باہر رکھا جاتا ہے اور جو ان فرموں سے ٹھیکے دار کے طور پر جڑے ہوتے ہیں، ان کو معاوضے کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے لئے کسی طرح کی سزا نہیں ہے اور نجی اسپتال بھی اس طرح کے کلینیکل ٹرائل کی نگرانی کے لئے ایتھکس کمیٹی بنا سکتے ہیں۔ اس پر بنچ نے درخواست گزاروں سے کہا کہ ان کو اصول بنانے کے لئے اپنے اعتراضات اور مشورے مرکزی حکومت کو دینے چاہیے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں