اب یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ کیا مودی حکومت ان بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے خلاف کارروائی کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے، جو آنے والے عام انتخابات میں نامعلوم انتخابی بانڈس کے سب سے بڑے خریدار ہو سکتے ہیں۔
ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے سابق گورنر رگھو رام راجن کے ذریعے مرلی منوہر جوشی کی صدارت والی پارلیامنٹ کی اسٹی میٹس (Estimates)کمیٹی کو سونپے گئے نوٹ کو بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی غیر جانبدارانہ قرار دے رہی ہیں۔ بی جے پی اس بات کو لےکر خاصی پُر جوش ہے کہ اس رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ نہیں چکائے گئے خراب قرضوں کا ایک بڑا حصہ یو پی اے حکومت کے دوران دیا گیا تھا۔ دوسری طرف کانگریس بھی رپورٹ کے کچھ حصوں کو لےکر کافی پرجوش ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ آر بی آئی کے گورنر کے طور پر راجن نے وزیر اعظم دفتر کو ایک خط لکھکر اہم پرموٹروں کے ذریعے چلائے جا رہے ایسے منصوبوں کی فہرست سونپی تھی، جن کی مربوط طریقے سے جانچ کیا جانا تھا، کیونکہ ان پر فرضی واڑہ کرنے کا شک تھا۔
اس بات کاامکان زیادہ ہے کہ یہ فہرست موجودہ این ڈی اے-2 حکومت کے دوران سونپی گئی تھی اور اس میں طاقتور لوگوں کے نام لئے گئے ہیں، جن میں ہندوستان سے بھاگکر کیریبین ملک کی شہریت لینے والا ایک ہیرا کاروباری بھی شامل ہے۔ راجن نے ‘ بےایمان / غیراخلاقی پرموٹروں ‘ پر خاص طور سے زور دیا ہے، جو عادتاً در امپورٹ کی اوور-انوایسنگ (بل کو بڑھاکر دکھانا) کرتے ہیں اور بینکوں سے قرض کے طور پر ملے پیسے کو غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر لےکر جاتے ہیں۔
مرکزی بینک کے سابق گورنر کا کہنا ہے کہ ان کو اس بات کی جانکاری نہیں ہے کہ انہوں نے پی ایم او سے جس مربوط تفتیش کی مانگ کی تھی، اس سمت میں کتنی ترقی ہوئی ہے۔ راجن کی دلیل تھی کہ اگر حکومت کچھ بےایمان پرموٹروں پر کارروائی کرکے ایک نذیر پیش نہیں کرےگی، تو آنے والے کئی سالوں تک بینکنگ سسٹم اس مسئلہ سے جوجھتا رہےگا۔اس لئے، اگر یہ قرضے یو پی اے-1 یا یو پی اے-2 کے وقت میں بھی دئے گئے تھے، توبھی حزب مخالف وزیر اعظم سے یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان بےایمان پرموٹروں کے خلاف کیا کارروائی کی، جو آج بھی شان سے آزاد گھوم رہے ہیں اور فی الحال اعلیٰ عدلیہ کا استعمال کرکے Insolvency and Bankruptcy Code (آئی بی سی) پر عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔
یہاں یہ درج کرنا دلچسپ ہوگا کہ ابھی تک آئی بی سی، جس کو این ڈی اے-2 کے ذریعے سب سے بڑی اصلاح کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، کچھ چھوٹی کمپنیوں کے معاملے کو نپٹانے میں ہی مددگار ثابت ہوا ہے۔ مثال کے لئے سیاسی طور پر طاقتور کاروباری گھرانوں کے ذریعے اسپانسرکیے گئے بڑے پاور پروجیکٹ ، جن کے پاس تین لاکھ کروڑ کا ڈوبا ہوا قرض ہے، کسی بھی قیمت پر دیوالیہ عدالتوں میں جانے سے بچنا چاہتے ہیں۔یہاں تک کہ ان پرموٹروں نے حکومت کو اس بات کے لئے بھی منا لیا تھا کہ بجلی شعبہ کے این پی اے سے نپٹنے کے لئے ایک الگ اسیٹ مینجمنٹ کمپنی (اے ایم سی) یا بیڈ بینک کی تشکیل کی جانی چاہیے ۔ پاور منسٹری کے اعلیٰ افسروں نے تو ان کمپنیوں کو 12 فروری کے سرکلر سے چھوٹ دینے تک کی صلاح دی تھی، جو 1 اکتوبر کے بعد ان کمپنیوں کو دیوالیہ کارروائیوں کے اندر لانے کو لازمی بناتا ہے۔
اصل میں، اے ایم سی کی تشکیل کرنے میں غیر مناسب جلدبازی دکھائی گئی-ایک کمیٹی نے محض دو ہفتے کے اندر اس کی سفارش کر دی۔ یہ ظاہری طور پر بجلی کے بڑے پروجیکٹس کو، جن میں سے کچھ کی تفتیش وزارت خزانہ کے ذریعے تقریبا 50000 کروڑ روپے کے امپورٹ کی غیر قانونی اوور-انوایسنگ(Over-invoicing) کے لئے کی جا رہی ہے، دیوالیہ عدالتوں کا سامنا کرنے سے بچانے کے مقصد سے کیا گیا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو بجلی شعبہ کی کئی بدنما سچائی دنیا کے سامنے آ جاتی۔ فکر کی اصلی وجہ یہی ہے۔رگھو رام راجن نے مرلی منوہر جوشی کو بھیجے گئے اپنے نوٹ میں بےحد واضح طریقے سے اس بات کو لےکر آگاہ کیا ہے کہ بڑے پرموٹر ماضی میں کامیابی سے لیگل سسٹم کو چکما دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ ریزرو بینک کے سابق گورنر کا کہنا ہے کہ انہوں نے قرض وصولی ٹربیونل اور Securitisation and Reconstruction of Financial Assets & Enforcement of Securities Interest Act 2002 (ایس اے آر ایف اے ای ایس آئی یعنی سرفیسی ایکٹ )کو چکما دیا۔
انہوں نے یہ آگاہ کیا ہے کہ شروع میں سرفیسی ایکٹ اور قرض وصولی ٹربیونل کو بھی کامیابی کی کہانیوں کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن بعد میں یہ پایا کیا گیا کہ ان کے پاس بھیجے گئے 250000 کروڑ روپے کی قیمت کے ڈوبے ہوئے قرضوں میں سے صرف 13 فیصدی کی ہی وصولی کی جا سکی۔ راجن نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ ماننے کی وجہ ہے کہ آئی بی سی کا حشر بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے اور ممکن ہے کہ طاقتور پرموٹر اس کو بھی اسی طرح سے چکما دینے میں کامیاب نہ ہو جائیں، جیسا وہ ابتک کرتے رہے ہیں۔
اصل میں مودی حکومت کو اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ آخر امپورٹ کی اوور-انوایسنگ کرنے والے اور بڑے پیمانے پر ملک سے باہر پیسہ لے جانے والوں کے خلاف مختلف ایجنسیوں کی مربوط تفتیش کیوں نہیں کی گئی ہے۔ ایک کے بعد ایک آئی حکومتوں کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی طور پر طاقتور پرموٹر سسٹم کو چکما دیتے رہے ہیں۔ آج بینکنگ سسٹم کے 10 لاکھ کروڑ کے این پی اے میں تقریباً ایک تہائی حصےداری ان کی ہے۔
میری نظر میں راجن کی پیشکش کا سب سے بڑا سبق یہی ہے۔ نہ صرف راجن، بلکہ ہندوستان کے سابق چیف اکانومک ایڈوائزر اروند سبرامنیم نے بھی مرلی منوہر جوشی کو یہ کہا کہ جس طرح سے بڑے پرموٹروں کے پروجیکٹوں میں بینک کے پیسوں کا استعمال کیا گیا ہے، اس میں مجرمانہ امکانات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بیڈ بینک کا خیال، جو کہ دوسرے ممالک میں کامیاب رہا ہے، ہندوستان کے لئے مفید نہیں ہے، جہاں بہت زیادہ خراب / داغدار سرمایہ ہے۔ ایک طرح سے داغدار سرمایہ کسی خراب وائرس کی طرح تمام اداروں میں پھیل جانے کا رجحان رکھتا ہے۔
اس بات کا امکان ہے کہ اسٹی میٹس کمیٹی سسٹم میں سانٹھ-گانٹھ والے کرپشن سے لڑنے کے طریقوں پر اپنی توجہ مرکوز کرےگی، جس کے سامنے بینکنگ کے شعبے کے تمام اچھی نیت والی بہتری بھی ناکافی ثابت ہوتی ہے۔ حال کے مہینوں میں ریزرو بینک نے مضبوطی دکھائی ہے اور 1 فروری کے اپنے اس سرکلر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے، جس نے تمام بقایادار کمپنیوں، جن میں سے سیاسی طور پر رسوخ دار کمپنیاں بھی ہیں، کو دیوالیہ کارروائیوں میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔یہ اچھا ہوتا اگر جوشی معاملوں کی بڑی تعداد سے نپٹنے کے لئے دیوالیہ عدالتوں کے بنیادی ڈھانچے (عدالتوں کی تعداد اور انسانی وسائل کا معیار، دونوں ہی تناظر سے) کو مضبوط کرنے کی سفارش کرتے۔ جوڈیشیل انفراسٹرکچر مہیا نہیں کرانا بھی بد عنوان سرمایہ داروں کے ساتھ سانٹھ-گانٹھ کرنے کا ایک طریقہ ہے جو کہ غیراخلاقی پرموٹروں کو بچ نکلنے کی حالت تیار کرتا ہے۔
بطور چیئر مین جوشی کو پارلیامانی کمیٹی کو بھی یہ سفارش کرنے کے لئے تیار کرنا چاہیے کہ وزارت خزانہ کی جانچ ایجنسی کے ذریعے پہلے سے ہی بجلی کے شعبے میں امپورٹ کے بڑے پیمانے کا اوور-انوایسنگ (بڑھاچڑھاکر بل بنانے) کی چلائی جا رہی جانچ کو سپریم کورٹ کی نگرانی میں ملٹی ایجنسی ڈھانچے کے تحت لایا جائے، کیونکہ کل این پی اے کے ایک تہائی کا کوئی نہ کوئی تعلق پرموٹروں کے فرضی واڑے والے رویے سے ہو سکتا ہے۔
بڑے قرضوں کو چکانے میں ناکام رہے غیراخلاقی پرموٹروں کے ذریعے امپورٹ کی اوور-انوایسنگ کی مربوط طریقے سے تفتیش کو لےکر سب کی نگاہیں وزیر اعظم دفتر کی طرف بھی ہوں گی۔ حال ہی میں وزارت خزانہ نے دہلی ہائی کورٹ کو یہ یقین دلایا تھا کہ اس کی جانچ ایجنسی نے یو اے ای اور سنگاپور جیسے ممالک کو خطوطبھیجے ہیں ، جہاں سے بجلی پروجیکٹ کی 200 فیصد تک اوور-انوایسنگ کی گئی۔
یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ کیا مودی حکومت ان بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے خلاف کارروائی کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے، جو آنے والے عام انتخابات میں نامعلوم انتخابی بانڈس کے سب سے بڑے خریدار ہو سکتے ہیں۔
Categories: فکر و نظر