آر ایس ایس لیڈر کا کہنا ہے کہ ؛ اگر ہم نے بنگلہ دیشی مسلمانوں کو مغربی بنگال میں آنے کی اجازت دے دی تو کئی ضلعوں میں ہندو اقلیت میں ہوجائیں گے ۔
نئی دہلی : مغربی بنگال میں آر ایس ایس سکریٹری جشنو باسو نے کہا ہے کہ ہندوؤں کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے اب این آر سی ہی ایک راستہ ہے ۔ خبررساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق؛باسو کا کہنا ہے کہ کئی طرح کی زیادتی کا شکار ہوچکے بنگلہ دیشی ہندو بھی اب یہاں آرہے ہیں اور شہریت سے متعلق ترمیمی بل ان کی مدد کرے گا۔
NRC is the only option to save Bengali Hindus from annihilation from West Bengal. Bangladeshi Hindus who have faced several atrocities are coming here & Citizenship Amendment Bill would be helpful for them: RSS West Bengal secretary Jishnu Basu pic.twitter.com/ShRzid1Dt3
— ANI (@ANI) September 18, 2018
آر ایس ایس لیڈر نے مزید کہا کہ اگر ہم نے بنگلہ دیشی مسلمانوں کو مغربی بنگال میں آنے کی اجازت دے دی تو کئی ضلعوں میں ہندو اقلیت میں ہوجائیں گے ۔ اگر ہمارے پاس این آر سی نہیں ہوگا تو ہم گھس پیٹھیوں کی پہچان نہیں کر پائیں گے۔ باسو کا کہنا ہے کہ سرحد سے سٹے مغربی بنگال کے کئی ضلعے متاثر ہیں ۔ہم لوگوں کا چھوٹا گروپ بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ این آر سی اور شہریت سے متعلق ترمیمی بل کے لیے حقائق سامنے لائیں جائیں ۔ہم چوں کہ سماجی تنظیم ہیں اس لیے لوگوں کو حقائق کے بارے میں بیدار کرسکتے ہیں ۔
On the other hand, if we allow Bangladeshi Muslims to come to West Bengal, then in several districts Hindus are becoming minority. If we don't have NRC, we will not be able to assess the no. of infiltrators: RSS West Bengal secretary Jishnu Basu
— ANI (@ANI) September 18, 2018
Bordering districts in West Bengal are most affected areas. We are trying to make small groups to help propagate facts about NRC and Citizenship Amendment Bill. We are a social organisation, we can only make people aware of facts: RSS West Bengal secy Jishnu Basu pic.twitter.com/lWYTZITEcG
— ANI (@ANI) September 18, 2018
غور طلب ہے کہ گزشتہ روزبی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھو نے کہاتھا کہ آسام کی این آر سی کی آخری فہرست میں شامل نہیں کیے جانے والے لوگوں سے ووٹ کرنے کا حق چھین لیا جائے گا اور ان کو واپس ان کے ملک بھیج دیا جائے گا۔حالانکہ اس سے پہلے 30 جولائی کو این آر سی کا آخری مسودہ جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے واضح کیا تھا کہ آسام میں این آر سی سے نام ہٹنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ووٹر لسٹ سے بھی یہ نام ہٹ جائیں گے۔
اسی طرح بی جے پی صدر امت شاہ نے کہا تھا کہ اپوزیشن چاہے جتنا شور شرابہ کرے، وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت آسام کے 40 لاکھ گھس پیٹھیوں میں سے ایک ایک کو باہر کرےگی۔ مرکزی حکومت گھس پیٹھیوں کے انہوں نے آسام میں جھگڑے کی جڑ بن رہے شہریت سے متعلق ترمیم بل 2016 پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ہندو پناہ گزینوں کو ملک میں لایا جائےگا اور ان کو شہریت عطا کی جائےگی۔متعلق فیاضی برتنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
اس معاملے میں مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے ترمیم لانے کی مانگ کرتے ہوئے سوال کیاتھا کہ ،’جن 40 لاکھ لوگوں کے نام ہٹا دیے گئے ہیں وہ کہاں جائیںگے؟کیا مرکز کے پاس ان لوگوں کی بازآبادکاری کے لئے کوئی پروگرام ہے؟آخر میں مغربی بنگال کو ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑےگا۔ یہ بی جے پی کی ووٹ پالیٹکس ہے۔ ‘
انہوں نےحکومت کے خلاف مورچہ کھولا اور کہا تھا کہ آسام میں این آر سی میں 40 لاکھ لوگوں کو شامل نہیں کئے جانے سے ملک میں خون خرابہ اور خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔مودی حکومت سیاسی فائدے کے لئے لاکھوں لوگوں کو ریاست سے باہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔حالانکہ 30 جولائی کو ایوان میں ہی مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے واضح کیا کہ اس میں ان کی حکومت کا کوئی رول نہیں ہے۔
Categories: خبریں