خبریں

بنگال میں ہندوؤں کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے این آر سی ہی واحد راستہ : آر ایس ایس سکریٹری

آر ایس ایس لیڈر کا کہنا ہے کہ ؛ اگر ہم نے بنگلہ دیشی مسلمانوں  کو مغربی بنگال میں آنے کی اجازت دے دی تو کئی ضلعوں میں ہندو اقلیت میں ہوجائیں گے ۔

فوٹو:این آر سی اے ایس ایس اے ایم ڈاٹ این آئی سی ڈاٹ ان

فوٹو:این آر سی اے ایس ایس اے ایم ڈاٹ این آئی سی ڈاٹ ان

نئی دہلی : مغربی بنگال میں آر ایس ایس سکریٹری جشنو باسو نے کہا ہے کہ ہندوؤں کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے اب این آر سی ہی ایک راستہ ہے ۔ خبررساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق؛باسو کا کہنا ہے کہ کئی طرح کی زیادتی کا شکار ہوچکے بنگلہ دیشی ہندو بھی اب یہاں آرہے ہیں اور شہریت سے متعلق ترمیمی بل ان کی مدد کرے گا۔

آر ایس ایس لیڈر نے مزید کہا کہ اگر ہم نے بنگلہ دیشی مسلمانوں کو مغربی بنگال میں آنے کی اجازت دے دی تو کئی ضلعوں میں ہندو اقلیت میں ہوجائیں گے ۔ اگر ہمارے پاس این آر سی نہیں ہوگا تو ہم گھس پیٹھیوں کی پہچان نہیں کر پائیں گے۔ باسو کا کہنا ہے کہ سرحد سے سٹے مغربی بنگال کے کئی ضلعے متاثر ہیں ۔ہم لوگوں کا چھوٹا گروپ بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ این آر سی اور شہریت سے متعلق ترمیمی بل کے لیے حقائق سامنے لائیں جائیں ۔ہم چوں کہ سماجی تنظیم ہیں اس لیے لوگوں کو حقائق کے بارے میں بیدار کرسکتے ہیں ۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ روزبی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھو نے  کہاتھا کہ آسام کی این آر سی کی آخری فہرست میں شامل نہیں کیے جانے والے لوگوں سے ووٹ کرنے کا حق چھین لیا جائے گا اور ان کو واپس ان کے ملک بھیج دیا جائے گا۔حالانکہ اس سے پہلے 30 جولائی کو این آر سی کا آخری مسودہ جاری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے واضح کیا تھا کہ آسام میں این آر سی سے نام ہٹنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ووٹر لسٹ سے بھی یہ نام ہٹ جائیں گے۔

اسی طرح بی جے پی صدر امت شاہ نے کہا تھا کہ اپوزیشن چاہے جتنا شور شرابہ کرے، وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت آسام کے 40 لاکھ گھس پیٹھیوں میں سے ایک ایک کو باہر کرے‌گی۔  مرکزی حکومت گھس پیٹھیوں کے انہوں نے آسام میں جھگڑے کی جڑ بن رہے شہریت سے متعلق ترمیم بل 2016 پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ہندو پناہ گزینوں کو ملک میں لایا جائے‌گا اور ان کو شہریت عطا کی جائے‌گی۔متعلق فیاضی برتنے کے موڈ میں نہیں ہے۔

اس معاملے میں مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے ترمیم لانے کی مانگ کرتے ہوئے سوال کیاتھا کہ ،’جن 40 لاکھ لوگوں کے نام ہٹا دیے گئے ہیں وہ کہاں جائیں‌گے؟کیا مرکز کے پاس ان لوگوں کی بازآبادکاری کے لئے کوئی پروگرام ہے؟آخر میں مغربی بنگال کو ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے‌گا۔ یہ بی جے پی کی ووٹ پالیٹکس ہے۔ ‘

انہوں نےحکومت کے خلاف مورچہ کھولا اور کہا تھا کہ آسام میں این آر سی میں 40 لاکھ لوگوں کو شامل نہیں کئے جانے سے ملک میں خون خرابہ اور خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔مودی حکومت سیاسی فائدے کے لئے لاکھوں لوگوں کو ریاست سے باہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔حالانکہ 30 جولائی کو ایوان میں ہی مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے واضح کیا کہ اس میں ان کی حکومت کا کوئی رول نہیں ہے۔