فرانس کے سابق صدر فرانسوا اُولاند کے بیان کے بعد کہ امبانی کا نام حکومت ہند کی طرف سے آیا تھا، رافیل تنازعے میں شک کی سوئی فیصلہ کن طور پر نریندر مودی کی طرف مڑ گئی ہے۔
ایفل ٹاور کے نیچے بہتی سین ندی کی ہوا بنارس والے گنگا پُتر وزیر اعظم نریندر مودی سے پیرس کی شام کا حساب مانگنے آ گئی ہیں۔ 10 اپریل 2015 کا پیرس سفر سرے سے مشتبہ ہو گیا ہے۔ گنگا کے سامنے سین بہت چھوٹی ندی ہے لیکن وہ گنگا سے بہتر بہتی ہے۔اس کے کنارے کھڑا ایفل ٹاور بنارس کے پل کی طرح یوں ہی ہوا کے جھونکا سے گر نہیں جاتا ہے۔ وزیر اعظم کب تک گنگا پُتر بھیشم کی طرح خاموش رہیںگے۔ کیا امبانی کے لئے خود کو اس مہابھارت میں بھیشم بنا دیںگے؟ نہ کہا جا رہا ہے نہ بچا جا رہا ہے۔
فرانس کے سابق صدر فرانسوا اُولاند کے بیان کے بعد کہ امبانی کا نام حکومت ہند کی طرف سے آیا تھا، رافیل تنازعے میں شک کی سوئی فیصلہ کن طورپر نریندر مودی کی طرف مڑ گئی ہے۔ 10 اپریل 2015 کو نریندر مودی اور اُولاند کے درمیان ہی رافیل قرار ہوا تھا۔ اولاند نے فرانس کے مشہور اخبار میڈیاپارٹ سے کہا ہے کہ ہمارے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ امبانی کا نام حکومت ہند کی طرف سے آیا تھا۔
اب تو بتانا پڑےگا کہ امبانی کا نام حکومت ہند میں کس کے طرف سے آیا تھا۔ زبانی آیا تھا یا دستاویزوں میں یہ نام جوڑا گیا تھا۔ اور اس نام کے لئے کس نے زور ڈالا تھا کہ فرانس کے صدر کے پاس دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ مودی جی، آپ کی طرف سے کون تھا تو امبانی کمپنی کے علاوہ سارے راستوں کو غائب کر رہا تھا اور کیوں کر رہا تھا؟
وزیر اعظم مودی کے سفر کے دوران این ڈی ٹی وی کے پیرس واقع صحافی نے حکومت ہند سے ان صنعت کاروں کی فہرست مانگی تھی جو ایک ایونٹ میں بولنے والے تھے۔ حکومت کی طرف سے لسٹ دینے میں آنا-کانی کی گئی اور جب ملی تو اس لسٹ سے گوتم اڈانی کا نام غائب تھا۔ انل امبانی کا نام نچلی لائن میں تھا۔ نوپور تیواری کو فرانس حکومت سے جو لسٹ ملی اس میں انل امبانی اور گوتم اڈانی کا نام سب سے اوپر کی لائن میں تھا۔
ہے ہندی کے پاٹھکوں، کیا آپ کو اسی سے شک نہیں ہوتا کہ فرانس حکومت کی لسٹ میں گوتم اڈانی اور انل امبانی کے نام سب سے اوپر ہیں۔ حکومت ہند کی لسٹ میں انل امبانی کا نام نیچے ہے تاکہ کسی کو ان کی موجودگی کی برتری پر شک نہ ہو۔ گوتم اڈانی کا نام کیوں غائب تھا۔
اب آتے ہیں فرانس حکومت کے بیان پر۔ اُولاند کے بیان کے بعد ترجمانوں کی حکومت کو کاٹھ مار گیا۔ سارے بہادر ترجمان خاموش ہو گئے۔ وزارتِ دفاع سے ٹوئٹ آتا ہے کہ ہم ان خبروں کی جانچکر رہے ہیں۔ فرانس کی حکومت کے جواب پر ہندی میں غور کریں کیونکہ یہ ساری باتیں آپ کے ہندی کےاخبار اور چینل غائب کر دیںگے۔ یہ آپ کی بدقسمتی ہے کہ آپ کو رافیل کا گھوٹالہ ہی نہیں سمجھنا ہے، میڈیا کا گھوٹالہ بھی بونس میں سمجھنا ہے۔
‘ فرانس حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے کہ فرنچ کمپنی کے ساتھ کون سی ہندوستانی کمپنی ساجھےدار ہوگی۔ ان ہوائی جہازوں کے خریدنے کے ہندوستان کی جو کاطے عمل ہے، اس کے تحت فرانس کی کمپنیوں کو اپنا ہندوستانی ساجھےدار چننے کی پوری آزادی ہے کہ وہ کس کو زیادہ ضروری سمجھتی ہیں۔ اس کے بعد وہ اس کو ہندوستان کی حکومت کے سامنے منظوری کے لئے رکھتی ہیں، کہ فرانس کی کمپنی اس ہندوستانی کمپنی کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے۔ ‘
فرانس حکومت نے اُولاند کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تردید تک نہیں کی۔ فرانس حکومت کے اس بیان کے مطابق امبانی کے نام کی منظوری حکومت ہند نے دی ہے۔ فرانسوا اُولاند کے مطابق امبانی کا نام حکومت ہند کی طرف سے سجھایا گیا تھا۔ کیا آپ کو اب بھی کوئی اس میں تضاد دکھتا ہے؟کیا ارون جیٹلی نے اپنے بلاگ میں یہ بات بتائی تھی کہ امبانی کی کمپنی کو منظوری حکومت نے دی ہے؟ اب تو ان کو ایک اور بلاگ لکھنا ہی ہوگا کہ امبانی کا نام ہندوستان کی طرف سے کس نے دیا تھا؟
انل امبانی کی کمپنی جمعہ-جمعہ چار دن کی تھی۔ سرکاری کمپنی ہندوستان ایرونوٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) کو 50 سے زیادہ ہوائی جہاز بنانے کا تجربہ ہے۔ ساٹھ سال پرانی یہ کمپنی ڈیل کے آخری مرحلے میں شامل ہے، اچانک غائب کر دی جاتی ہے اور انل امبانی کی کمپنی ساجھےدار بن جاتی ہے۔ جبکہ ڈیل سے دو دن پہلے ہندوستان کے خارجہ سکریٹری ایچ اے ایل کے شامل ہونے کی بات کہتے ہیں۔
اس کے کچھ دن پہلے ڈاسسو ایویشن کے چیئر مین کہتے ہیں کہ ‘ ہم نے رافیل کے بارے میں بات کی ہے۔ ہم ایچ اے ایل کے چیئر مین سے اس بات پر متفق ہیں کہ ہم پروڈکشن کی ذمہ داری ساجھا کریںگے۔ میں مانتا ہوں کہ قرار آخری مرحلے میں ہے اور جلد ہی اس پر دستخط ہو جائیںگے۔ ‘اس کا مطلب یہی ہوا کہ انل امبانی کی کمپنی کی انٹری آخری مرحلے میں ہوتی ہے۔ اب یہ بات تفتیش سے ہی سامنے آئےگی کہ انل امبانی کی کمپنی کے نام کا ذکر کس کمیٹی میں، کب اور کیوں ہوئی۔
ایئر فورس میں کس کو اور وزارتِ دفاع میں کس-کس کو پتا تھا کہ ایچ اے ایل کی جگہ امبانی کی کمپنی کو ساجھےدار ہونا ہے۔ آخر کس نے ایک سرکاری کمپنی کے مفاد سے سمجھوتہ کیا، کون تھا جو دیوالیہ ہو چکی کمپنی کو ڈیفینس ڈیل میں پارٹنر بنانا چاہتا تھا؟اب پھر سے آتے ہیں، ہمارے معاون نوپور تیواری کی رپورٹ پر۔ نوپور نے فرانس کے اخبار میڈیاپارٹ کے نامہ نگاروں سے بات کی ہے۔ ایک نامہ نگار نے کہا ہے کہ ہم اس ڈیل کی جانچکر رہے تھے۔ فرانسوا اُولاند 2017 تک صدر رہے اور وہ اس ڈیل کے ڈوزیئر کو خود مینج کر رہے تھے۔
نامہ نگار نے نوپور کو بتایا ہے کہ فرانسوا اُولاند نے یہ بات صاف صاف کہی ہے کہ مجھے تو پتا بھی نہیں تھا کہ انل امبانی کون ہے، اس کی تاریخ کیا ہے، تجربہ کیا ہے، انل امبانی کا نام حکومت ہند کی طرف سے تجویز کیا گیا۔یہ نامہ نگار جاننا چاہتے تھے کہ کس سطح پر ہندوستان کی حکومت نے دخل دیا اور ایک کمپنی کو گھسانے کی کوشش کی۔ ہم نے جن دفاعی معاملوں کے جانکاروں سے بات کی، وہ سبھی اس بات سے حیران ہیں کہ ڈاسسو ایویشن جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ کمپنی کسی ایسی کمپنی سے قرار کیوں کرےگی جس کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔
اس بحث کو اس بات پر لے جانے کی کوشش ہوتی رہتی ہے کہ رافیل ہوائی جہاز کتنا شاندار اور ضروری ہے۔ وہ تو ہے ہی۔ ہندوستان کے لئے ہی نہیں دنیا بھر کے لئے ہے۔ سوال ہے کہ کون اس ڈیل میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہا تھا۔ اس ڈیل کے لئے ہندوستان کی ایک پرانی کمپنی کو ہٹاکر ایک پرائیویٹ کمپنی کو کس کے کہنے پر پارٹنر بنایا گیا۔ مودی جی کو ہی بتانا ہے کہ ان کا پارٹنر کون-کون ہے؟مودی حکومت ترجمانوں کی حکومت ہے۔ اس کو اب غیر منطقی باتوں کو چھوڑ سوالوں کے جواب دینا چاہیے۔ بہتر ہے کہ مودی جی اپنے غلام اینکروں کو چھوڑ جو دفاعی معاملوں کور کرنے والے دھرندھر صحافیوں کے درمیان آئیں اور سوالوں کے جواب دیں۔
بنارس میں بچوں سے کہہکے چلے آئے کہ سوال پوچھا کرو۔ کیا اب ان بچوں کو یاد دلانے کے لئے لانا ہوگا کہ مودی جی سوال پوچھا گیا ہے اس کا جواب دیا کرو۔ سین ندی سے آنے والی ہوا گنگا پُتر سے پوچھ رہی ہے کہ امبانی کا نام کہیں آپ نے تو نہیں سجھایا۔ ورنہ لوگ تو پوچھیںگے کہ بہت یارانہ لگتا ہے۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر