گراؤنڈ رپورٹ : ارد کی Minimum Support Price(ایم ایس پی)5600 روپے فی کوئنٹل ہے، لیکن سرکاری مراکز پر خرید شروع نہیں ہونے کی وجہ سے کسانوں کو 500 سے 2000 روپے فی کوئنٹل کی قیمت سے اپنی اپج بیچنی پڑ رہی ہے۔
راجستھان کے کوٹہ ضلع کے کانجیہیڑا گاؤں کے گوپال مینا نے تین ماہ پہلے بڑی امید سے اپنی 10 بیگھہ زمین میں ارد بوئے تھے۔ بےموسم بارش سے فصل خراب ہونے کے باوجود اس کو بھروسہ تھا کہ لاگت تو نکل ہی جائےگی، لیکن کوٹہ کی بھاماشاہ منڈی میں گوپال کی پیداوار کی بولی لگی تو اس کے ہوش اڑ گئے۔گوپال کے 7 کوئنٹل ارد محض 3500 روپے میں بکی۔ وہ کہتے ہیں،’ کھیتوں کی جتائی، بیج، دوائی، نرائی-گڑائی، فصل کاٹنے اور نکالنے میں میرے 30000 روپے خرچ ہو گئے۔ پکی فصل پر پانی گرنے سے یہ خراب ہو گئی۔ پھر بھی لاگت نکلنے کی امید تھی پر منڈی میں 500 روپے کی ریٹ لگی۔ ہم سے پہلے رام روٹھا اور اب راج روٹھ گیا۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’ارد کی سرکاری ریٹ 5600 ہے۔ میں15 دن سے سرکاری کانٹا شروع ہونے کا انتظار کر رہا تھا ۔ مجھے پیسوں کی ضرورت تھی۔ سیٹھ کو پیسے لوٹانے تھے اور آگے کی فصل بونے کے لئے کھیتوں کو تیار کرنا تھا۔ اس لئے مجبوری میں مال منڈی میں بیچنا پڑا۔ اگر سرکاری کانٹا شروع ہو جاتا توبھی میری لاگت نکل جاتی۔ ‘زراعت کے لحاظ سے سرسبز مانے جانے والے راجستھان کے ہاڑوتی سمبھاگ (کوٹہ، بوندی، باراں اور جھالاواڑ ضلع)میں ارد کی پیداوار کو اونے پونے دام پر بیچنے والے گوپال اکیلے کسان نہیں ہیں، علاقے کے ہزاروں کسانوں کی یہی کہانی ہے۔ہاڑوتی کی منڈیوں میں 500 سے 2000 روپے فی کوئنٹل کے بھاؤ سے ارد خریدی جا رہی ہے۔
محکمہ زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق ہاڑوتی میں اس بار 42730 ہیکٹر ارد کی بوائی ہوئی۔ کسانوں کو بمپر پیداوار کی امید تھی، لیکن بےموسم بارش نے کھیل خراب کر دیا۔ کئی علاقوں میں تو پوری فصل تباہ ہو گئی۔ قدرت کے اس قہر کو تو کسانوں نے اپنی قسمت سمجھ کر سہہ لیا، لیکن حکومت کی سستی ان کو کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے۔غور طلب ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے اس بار ارد کی ایم ایس پی 5600 روپے فی کوئنٹل جبکہ لاگت قیمت 3438 روپیے کوئنٹل طے کی ہے، لیکن ہاڑوتی میں سرکاری مراکز پر خرید شروع نہیں ہونے کی وجہ سے کسانوں کو اونے پونے داموں پر اپنی پیداوار بیچنی پڑ رہی ہے۔
منڈیوں میں ارد کی خرید کرنے والے کاروباریوں کی مانیں تو کوالٹی اچھی نہیں ہونے کی وجہ سے کسانوں کو زیادہ قیمت نہیں دے پا رہے ہیں۔ بوندی کی کوارتی منڈی کے کاروباری گوپال کماوت کہتے ہیں،’پکی فصل پر بارش ہونے کی وجہ سے ارد میں پھپھوندی لگ گئی ہے۔ اس وجہ سے قیمت کم ہے۔ اچھی قسم کی ارد آئے تو زیادہ قیمت دیں۔ ‘کم دام ملنے کے بعد بھی ہاڑوتی کی منڈیوں میں ارد کی خوب فروخت ہو رہی ہے۔ علاقے کی بڑی منڈیوں میں پچھلے ہفتے روزانہ تقریباً 20000 کوئنٹل ارد فروخت کے لئے آئی۔ کاروباریوں کے مطابق اس ہفتے اس کی مقدار بڑھکر 30000 کوئنٹل ہو جائےگی۔
ایسے میں سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کسانوں کی اتنی خستہ حالت ہونے کے باوجود وسندھرا حکومت ایم ایس پی پر ارد کی خرید کیوں نہیں کر رہی ہے۔ انتخابی موسم میں کسانوں کی تیوریاں چڑھانے والا کام کیوں کر رہی ہے؟ اس کے جواب میں معاون وزیر اجئے سنگھ کلک اتناہی کہتے ہیں کہ جلدہی ارد کی خریدکے سرکاری مرکز کھولے جائیںگے۔
غور طلب ہے کہ راجستھان میں ایم ایس پی پر فصلوں کی خرید کوآپریٹیو کمیٹیوں کی معرفت ہوتی ہے۔ عموماً ستمبر کے تیسرے ہفتے میں خریدکے لئے سرکاری مرکز کھل جاتے ہیں، لیکن اس بار اب تک کوئی سگبگاہٹ نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق بارش سے فصلوں کے خراب ہو جانے کی وجہ سے حکومت جان بوجھ کر کوآپریٹیو کمیٹیوں کو خرید شروع کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔
علاقے کے کسان رہنما حکومت کی اس منشاء کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہاڑوتی کسان یونین کے جنرل سیکریٹری دشرتھ کمار کہتے ہیں،’حکومت یہ جانتی ہے کہ بارش کی وجہ سے خراب ہوئی فصل کو کسان زیادہ دن تک اپنے پاس نہیں رکھیںگے۔ وہ اس کو فوراً منڈی میں بیچیںگے۔ ویسے بھی کسانوں کو ربی کی فصل کی تیاری کے لئے فوراً پیسہ چاہیے اس لئے وہ جو بھی دام ملےگا اس پر اپنی فصل کو بیچیںگے۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’ کاروباری حکومت کی شہ پر کسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وہ اونے پونے دام پر اپنی فصل بیچ رہے ہیں۔ جب تب سرکاری کانٹا شروع ہوگا تب تک زیادہ تر کسان اپنی فصل بیچ چکے ہوںگے۔ جو اپنی فصل روک بھی لیںگے ان کی فصل بکنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ افسر ان کی فصل کو رجیکٹ کر دیںگے۔ لہسن کی خریدکے وقت ایسا ہو چکا ہے۔ ‘
غور طلب ہے کہ ہاڑوتی میں اس سال لہسن کی بمپر پیداوار ہوئی تھی۔ وسندھرا حکومت نے اس کو بازار مداخلت اسکیم کے تحت 3257 روپیے فی کوئنٹل کی قیمت سے خریدنے کے لئے سرکاری خرید مراکز تو کھولے، لیکن بےتکی شرطوں کی وجہ سے علاقے کے 20 فیصد کسان بھی اپنی فصل یہاں نہیں بیچ پائے۔ اس سے غم زدہ ہوکر پانچ کسانوں نے خودکشی کر لی جبکہ دو کے صدمے سے موت ہو گئی۔ اس بارے ‘دی وائر ‘نے 9 مئی اور 27 مئی کو رپورٹ شائع کی تھی۔
لہسن کے سرکاری خرید مراکز کا حشر دیکھ چکے کسانوں کو خدشہ ہے کہ یہی حالت ارد کے ساتھ بھی ہوگی۔ بوندی ضلع کے سندرپورا گاؤں کے کسان مہندرکہتے ہیں،’میں نے ارد نہیں بیچا ہے۔ میں سرکاری کانٹا شروع ہونے کا انتظار کر رہا ہوں۔لیکن میرا نمبر آنا مشکل ہے۔ میرے موبائل پر لہسن کا میسیج آیا تھا لیکن میرا نمبر آنے سے پہلے ہی کانٹا بند ہو گیا۔ ‘
مہندر آگے کہتے ہیں،’میں سرکاری کانٹا کھلنے کے بعد پانچ-سات دن دیکھوںگا۔ اگر لہسن کے کانٹےجیسا ہی حال رہا تو میرے پاس اپنا مال منڈی میں بیچنے کے علاوہ اور کوئی چارا نہیں بچےگا۔ حکومت ہماری طرف بالکل بھی دھیان نہیں دے رہی ہے۔ انتخاب کے وقت تو ہماری یاد آنی چاہیے۔ ‘ہاڑوتی کے کسانوں کو حکومت کی بےرخی اس لئے بھی زیادہ اکھر رہی ہے، کیونکہ یہ سمبھاگ وزیراعلیٰ وسندھرا راجے اور زراعتی وزیر پربھو لال سینی کا اسمبلی حلقہ ہے۔ راجے جھالاواڑ ضلع کے جھالراپاٹن سے ایم ایل اے ہیں جبکہ سینی باراں ضلع کے اانتا سے جیت کر اسمبلی پہنچے ہیں۔
کوٹہ ضلع کے آنواں گاؤں کے کسان رمیش پونچھی اس سے بہت اداس ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’وزیراعلیٰ ہمارے سمبھاگ کی ہیں، لیکن ان کو ہم پر ترس نہیں آ رہا ہے۔ میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ مودی جی نے فصل کی سرکاری ریٹ ڈیڑھ گنا بڑھا دی ہے مگر ہماری ارد تو لاگت کے ریٹ پر بھی نہیں بکی۔ ہم کس کے ہاتھ جوڑے؟ پہلے ہی قرض ہو رہا ہے اب اور قرض لینا پڑےگا۔ ‘
کسانوں میں خریف کی فصلوں کی سرکاری خرید شروع نہیں ہونے کا غصہ تو ہے ہی، زیادہ بارش کی وجہ سے ہوئے نقصان کا معاوضہ نہیں ملنے کی ناراضگی بھی ہے۔ علاقے میں اس بار ہوئی بےموسم بارش سے کسانوں کی فصل تباہ ہو گئی۔ کئی جگہوں پر ابھی بھی کھیتوں میں پانی بھرا ہوا ہے۔ اس سے پکی ہوئی فصلوں انکور آ گئی ہے۔انتخاب کی وجہ سے مقامی رہنما کسانوں کو معاوضے کے لئے لگاتار یقین دہانی کرا رہے ہیں، لیکن ابھی تک کسی کو پھوٹی کوڑی نہیں ملی ہے۔ بوندی ضلع کے گڑادیوجی گاؤں کے شوجی لال ناگر اس دواؤکو نہیں جھیل پائے۔ بیتے 23 ستمبر کو ان کے صدمے سے موت ہو گئی۔
شوجی کے بیٹے کہتے ہیں،’ہم نے اس بار 50 بیگھہ زمین بٹائی پر لی تھی۔ پوری زمین میں ارد بویا۔ فصل اچھی تھی، لیکن کٹائی سے پہلے ہوئی بارش نے ایک دانہ بھی نہیں چھوڑا۔ والد صاحب اس کا صدمہ نہیں جھیل پائے۔ انہوں نے کھیت میں ہی دم توڑ دیا۔ پہلے سے قرض سر پر ہے۔ اب اور لینا پڑےگا۔ ‘اسی گاؤں کے منوج یوگی کہتے ہیں،’ہمارے گاؤں کے زیادہ تر کسان بھاری ذہنی دباؤمیں ہیں۔ شوجی لال اپنی آنکھوں کے سامنے پکی ہوئی فصل تباہ ہوتے دیکھ نہیں پائے۔ صدمے سے مر گئے۔ جن کی تھوڑی-بہت فصل بچی بھی ہے تو صحیح ریٹ نہیں مل رہی ہے۔ اس حال میں کسان مرے نہیں تو کیا کرے۔ ‘
ارد کی فصل کے علاوہ ہاڑوتی کے کسانوں کو سویابین کا بھی یہی حشر ہونے کا ڈر ستا رہا ہے۔ سویابین کی کٹائی کا وقت آ گیا ہے،لیکن کھیتوں میں پانی بھرجا نے کی وجہ سے کسان اس کو کاٹ نہیں پا رہے۔ کسان تنظیموں کے مطابق بارش سے اس بار سویابین کے آدھے سے کم پیداوار ہوگی۔
سابق وزیراعلیٰ اور کانگریس کے جنرل سکریٹری اشوک گہلوت نے ہاڑوتی کے کسانوں کی بربادی کے لئے بی جے پی کے قول ور فعل میں فرق کو ذمہ دار بتایا ہے۔ وہ کہتے ہیں،’مودی جی نے انتخاب سے پہلے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ کیا تھا جو جملہ ثابت ہوا ہے۔ جملےباز حکومت ایک طرف ایم ایس پی بڑھانے کا ڈھول پیٹ رہی ہے اور دوسری طرف کسانوں کی پیداوار نہیں خرید رہی ہے۔ ‘
گہلوت آگے کہتے ہیں،’اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ جس ہاڑوتی سمبھاگ سے وزیراعلیٰ اور زراعتی وزیر چنکر آئے ہیں، وہاں ارد اور باقی خریف کی فصلوں کی ایم ایس پی پر خرید نہیں ہو رہی ہے۔ اس حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ہاڑوتی جیسے زراعتی علاقے کے کسانوں کو خودکشی کے لئے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور جئے پور میں رہتے ہیں۔)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ