خبریں

میلا ڈھونے والوں کے متعلق حکومتی اعداد و شمار کی حقیقت کیا ہے؟

مرکز کے تحت کام کرنے والا ادارہ نیشنل صفائی کرمچاری فائننس اینڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے بتایا کہ 163اضلاع میں کرائے گئے سروے میں 20000 لوگوں کی پہچان میلا ڈھونے والوں کے طور پر ہوئی ہے۔  حالانکہ ادارہ نے یہ اعداد و شمار نہیں بتایا کہ کتنے لوگوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ میلا ڈھونے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ  کے تحت کام کرنے والا ادارہ نیشنل صفائی کرمچاری فائننس اینڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن(این ایس کے ایف ڈی سی)کے ذریعے میلا ڈھونے کے کام میں لگے لوگوں کو صوبہ وار اعداد و شمار جاری کیا ہے۔  مارچ 2018 سے لےکر ستمبر 2018 کے درمیان کرائے گئے سروے میں کل 20596 لوگوں کی پہچان میلا ڈھونے والوں کے طور پر ہوئی ہے۔

اس سے پہلے سال 2013 میں ہوئے اسی طرح کے سروے میں میلا ڈھونے والوں کی تعداد 13368 بتائی گئی تھی۔ حالانکہ این ایس کے ایف ڈی سی نے ابھی سرکاری طور پر یہ جانکاری جاری نہیں کی ہے کہ سروے کے دوران کل کتنے لوگوں نے خود کو میلا ڈھونے والا بتاتے ہوئے رجسٹریشن کرایا تھا۔ادارہ کے ڈپٹی مینجر اور اس سروے کی ذمہ داری سنبھالنے والے آر کے گپتا نے بتایا کہ وہ یہ جانکاری ابھی نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ لوگ اس کاغلط مطلب نکال لیتے ہیں۔

انہوں نے دی وائر سے بات چیت میں کہا، ‘ پچھلی بار اس کی غلط رپورٹنگ ہوئی تھی۔ لوگ کہنے لگے کہ ملک میں میلا ڈھونے والوں کی تعداد چارگنا بڑھ گئی ہے۔ہم ابھی یہ جانکاری نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ لوگ اس کا غلط مطلب نکالتے ہیں۔  ‘وہیں این ایس کے ایف ڈی سی کے ایک دیگر افسر نے نام نہ لکھنے کی شرط پر بتایا کہ ریاستوں نے ہمیں جو جانکاری بھیجی ہے اس کے مطابق 50000 لوگوں نے خود کو میلا ڈھونے والا بتاتے ہوئے رجسٹریشن کرایا تھا۔  اتناہی نہیں آنے والے وقت میں یہ اعداد و شمار 60سے70 ہزار کے پار جائے‌گا۔

مرکز اور ریاست کی حکومتوں پر یہ الزام لگتے رہے ہیں کہ وہ جان بوجھ‌کر میلا ڈھونے والوں کی پہچان نہیں کر رہے ہیں۔اسی سروے کے لئے بھاری تعداد میں لوگوں نے رجسٹریشن کرایا تھا لیکن تمام ریاستوں نے کافی کم لوگوں کو سرکاری طور پر منظور کیا ہے۔جیسےاتر پردیش میں 28796 میلا ڈھونے والے رجسٹر کئے گئے تھے، لیکن ریاست نے سرکاری طور پر صرف 6126 لوگوں کو منظور کیا ہے۔

فی الحال29 میں سے صرف 13 ریاستوں نے قبول کیا ہے کہ ان کے یہاں کل ملاکر تقریباً 20 ہزار میلا ڈھونے والے ہیں۔ ملک میں 700 سے زیادہ ضلع ہیں لیکن 163اضلاع میں ہی یہ سروے کرایا گیا۔اس میں سے بھی تقریباً 100 ضلعوں کی ہی پوری جانکاری آئی ہے۔ آنے والے وقت میں ان کی تعداد بڑھنے کی امید ہے۔

بہار، ہریانہ ،تلنگانہ اور اتراکھنڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے یہاں میلا ڈھونے والے نہیں ہیں ۔حالاں کہ زمینی سطح پر سروے کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ ضلعی سطح سے سے جانکاری کی تصدیق کرکے بھیج دی جاتی ہے لیکن ریاستی سطح کے آفیسیل اعداوشمار میں پھیر بدل کر دیتے ہیں ۔معلوم ہو کہ میلا ڈھونے والوں کی پہچان‌کرکے ان کی بازآبادکاری کرنے کے لئے یہ سروے کرایا جا رہا ہے۔  لیکن مرکز میں پچھلے چار سالوں سے حکمراں نریندر مودی حکومت نے اپنی مدت کے دوران میلا ڈھونے والوں کی بازآبادکاری کے لئے ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا ہے۔  اتناہی نہیں موجودہ حکومت نے پچھلی یو پی اے حکومت کے ذریعے جاری کی گئی 55 کروڑ روپے کی رقم کا تقریباً آدھا حصہ ابھی تک خرچ نہیں کیا ہے۔

این ایس کے ایف ڈی سی کے ذریعے تیار کی گئی رپورٹ

این ایس کے ایف ڈی سی کے ذریعے تیار کی گئی رپورٹ

میلا ڈھونے والوں کی تعداد جاننے کے لئے این ایس کے ایف ڈی سی کے ساتھ مل‌کر کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم راشٹریہ گریما ابھیان کے ممبر آصف شیخ نے کہا، ‘جتنے لوگوں کو ریاستی حکومتوں نے میلا ڈھونے والا منظور کیا ہے دراصل یہ اعداد و شمار کافی نہیں ہے۔  میلا ڈھونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ریاستی حکومتیں جان-بوجھ‌کر اس کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، کیونکہ وہ اس کو ختم کرنے کے بجائے یہ سوچتی ہیں کہ اگر یہ جانکاری باہر آ گئی کہ ان کے یہاں ابھی تک میلا ڈھونے والے لوگ ہیں تو ان کی بدنامی ہوگی۔  ‘

این ایس کے ایف ڈی سی کی رپورٹ کے مطابق اتر پردیش میں سب سے زیادہ 6126 میلا ڈھونے والے ہیں۔  وہیں دوسرے نمبر پر مہاراشٹر ہے، یہاں پر 5269 میلا ڈھونے والے ہیں۔اس کے بعد راجستھان میں 2039 میلا ڈھونے والے ہیں۔اسی طرح آندھرا پردیش میں 1721 لوگ، کرناٹک میں 1744 لوگ، مدھیہ پردیش میں 1447 لوگ، آسام میں 542 لوگ، کیرل میں 600 لوگ میلا ڈھونے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔

خاص بات یہ ہے کہ 2013 میں ہوئے سروے میں گجرات نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے یہاں ایک بھی میلا ڈھونے والے نہیں ہے۔  لیکن اس سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گجرات میں 108 میلا ڈھونے والے ہیں۔سال 2013 کے بعد اب دوسری بار میلا ڈھونے والوں کی پہچان اور ان کی  تعداد جاننے کے لئے سروے کیا جا رہا ہے۔

ملک میں میلا ڈھونے کی روایت ختم کرنے سے جڑا پہلا قانون 1993 میں آیا تھا۔ اس کے بعد 2013 میں اس سے متعلق دوسرا قانون بنا، جس کے مطابق نالیوں اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے لئے روزگار یا ایسے کاموں کے لئے لوگوں کی خدمات لینے پر پوری طرح سے پابندی ہے۔میلا ڈھونے کے کام کی اہم وجہ انسینٹری لیٹرینس یا سوکھے بیت ٹوائلٹ  ہیں۔2013 میں بنائے گئے قانون ‘مینول اسکیوینجرس کے طور پر روزگار ممنوع اور ان کی بازآبادکاری قانون 2013 ‘ کی دفعہ 5 کے مطابق سوکھےٹوائلٹ کی تعمیر کرنا غیر قانونی ہے۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں 26 لاکھ سے زیادہ فیملی میں الگ الگ قسم کے سوکھے ٹوائلٹ ہیں۔اس میں سے 7 لاکھ 94 ہزار فیملی میں ایسے ٹوائلٹ  ہیں، جس کی غلاظت کو ہاتھ سے صاف کرنا پڑتا ہے۔  سب سے زیادہ5 لاکھ 58 ہزار سوکھے ٹوائلٹ  اتر پردیش میں ہیں۔

میلا ڈھونے پر پوری طرح سے پابندی لگنے کے بعد بھی آج تک حکومت میلا ڈھونے والوں کی پوری تعداد نہیں بتا پائی ہے۔  2013 میں ہوئے سروے میں میلا ڈھونے والوں کی تعداد 13000 بتائی گئی تھی۔غور طلب ہے کہ منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ  کی میلا ڈھونے والوں کی بازآبادکاری کے لئے ایس آر ایم ایس کے تحت میلا ڈھونے والوں کی بازآبادکاری کی جاتی ہے۔

اس اسکیم کے تحت بنیادی طور پر تین طریقے سے میلا ڈھونے والوں کی بازآبادکاری کی جاتی ہے۔ اس میں’ایک بار نقدی مدد ‘کے تحت میلا ڈھونے والی فیملی کے کسی ایک فرد کو ایک مشت 40000 روپے دئے جاتے ہیں۔  اس کے بعد حکومت مانتی ہے کہ ان کی بازآبادی کر دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ میلا ڈھونے والوں کو تربیت دےکر بھی ان کی بازآبادی کی جاتی ہے۔ اس کے تحت ہر مہینہ3000 روپے کے ساتھ 2 سال تک مہارت کی تربیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک طےشدہ رقم تک کے لون پر میلا ڈھونے والوں کے لئے سبسیڈی دینے کا اہتمام ہے۔این ایس کے ایف ڈی سی نے بتایا کہ دسمبر کے آخری ہفتے تک سروے کے بارے میں پوری جانکاری ان کی ویب سائٹ پر ڈال دی جائے‌گی۔