آج اشوک گہلوت کانگریس کے مرکزی دفتر کی سب سے اہم شخصیت ہو چلے ہیں۔ ایسے میں کانگریسیوں کا یہ یقین درست معلوم ہوتا ہے کہ راجستھان میں کانگریس کی فتح کا فاصلہ کم رہا تو اشوک ہی راہل کی پہلی پسند ہوں گے۔
1970 کے اوائل میں اشوک گہلوت کو کانگریس میں اتفاقی موقعہ اس وقت ملا جب اندرا گاندھی کے فرزند سنجے گاندھی سیاست میں سرگرمِ عمل تھے۔ سنجے اس وقت راجستھان میں ایک دیگر گہلوت، جوڑتوڑ کے ماہر جناردھن گہلوت کو آگے بڑھا رہے تھے، جس نے 1972 میں جے پور کے گاندھی نگر سے زورآور بی جےپی نیتا بھیروں سنگھ شیخاوت کو زیر کر دیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے سنجے کی نظروں سے کشتریہ جناردھن اتر گئے اور ان کی جگہ ایک دوسرے گہلوت (مالی) آ گئے۔ انہیں یکایک کانگریس کی قومی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹ یونین آف انڈیا کی راجستھان اکائی کا صدر نامزد کیا گیا تھا۔ اس طرح اچانک کہ انکی تقرری کا پروانہ ایک خصوصی بائیک سوار دہلی سے جےپور لے کر پہنچا تھا۔
اشوک گہلوت کا تعلق ایک جادوگر خاندان سے ہے، سو سنجے کانگریس کے حلقوں میں انہیں “گِلی بِلی” کے نام سے یاد کیا جاتا رہا۔ وہ ایک خوش مزاج، گہرے مذہبی رجحان والے ایسے کانگریسی تھے، جو گاندھی جی کے کئی اصولوں پر عمل پیرا تھے۔ شراب نوشی سے کوسوں دور، سبزی خور اشوک ‘ساتوِک بھوجن’ کرتے ہیں اور غروب آفتاب کے بعد کسی بھی طرح کی غذا نہیں کھاتے۔
آج ‘راہل گاندھی کانگریس’ کے اس طاقتور نیتا کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں، سوائے اس کے کہ ان کے والد بابو لکشمن سنگھ دکش ایک مشہور جادوگر تھے اور دنیا کے کئی ملکوں میں وہ اپنے شوز پیش کر چکے تھے۔ بچپن میں اشوک خود ان کے ساتھ شوز میں چلے جاتے اور ننھی جادوگری دکھایا کرتے تھے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا بھی تھا کہ “اگر میں سیاست میں نہ آتا تو ایک جادوگر ہوتا۔” حالانکہ وہ نہیں بتاتے لیکن کہا جاتا ہے کہ اندرا گاندھی کی موجودگی میں انہوں نے راہل اور پرینکا کو جادو دکھایا تھا۔
کچھ لوگ اندرا گاندھی کو اس کا کریڈٹ دیتے ہیں کہ سب سے پہلے انہوں نے اشوک گہلوت کی صلاحیتوں کو پہچانا، جب شمال مشرقی ریاستوں میں سنگین ہو رہے مہاجرین کے معاملے میں نوجوان اشوک سے ان کا سامنا ہوا۔ تب اندرا گاندھی نے اندور میں منعقد ہونے والے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں اشوک کو مدعو کیا، جہاں سنجے گاندھی سے ان کا تعارف کرایا گیا۔ اس کے بعد سے اشوک گہلوت نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ سنجے گاندھی کی دیکھ ریکھ میں تیار ہوئی سیاستدانوں جیسے کمل ناتھ، دِگوِجے سنگھ، امبیکا سونی، وائلر روی، اے کے انٹونی، غلام نبی آزاد، مُکل واسنِک، بی کے ہری پرساد کی پودھ میں اشوک گہلوت بھی شامل تھے۔
سنجے کی موت کے بعد راجیو گاندھی کے دور میں اشوک گھلوت کو اہمیت ملی، اس سے پہلے وہ راجستھان و دہلی میں خاموشی سے کام کرتے رہے۔ اندرا گاندھی کی قیادت والے منتری منڈل میں راجیو گاندھی نے ان کے لیے وزارت کی سفارش کی۔ ہری دیو جوشی اور شیو چرن ماتھر جیسے راجستھان کانگریس کے دو بڑے نیتاوں کی راہ میں گاہے بگاہے مشکلات کھڑی کرتے رہنے والے اشوک گہلوت تب صوبے کی سیاست کے لیے راجیو کے آنکھ اور کان بن گئے۔
سیاسی مبصرین بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم بننے کے بعد راجیو گاندھی نے راجستھان کے سرِسکا نیشنل پارک میں کیبنیٹ کی میٹنگ کا انعقاد کیا تھا۔ اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اشوک گہلوت نے وزیر اعلیٰ جوشی کو ان کی کرسی سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ملک کی راجدھانی دلی سے 170 کلو میٹر دور اس پارک میں ہونے والی میٹنگ کے لیے راجیو کی سخت ہدایات تھیں کہ صوبے کا کوئی بھی وزیر ان سے ملنے کے لیے سرکاری گاڑی سے نہ آئے۔ اصل میں راجستھان اس وقت ہولناک خشک سالی کا سامنا کر رہا تھا۔ راجیو خود کئی مورچوں پر جوجھ رہے تھے اور سرکاری گاڑیوں کا استعمال کم کرنے کے اپنے فیصلے کے ذریعے کفایت شعاری کا پیغام دینا چاہ رہے تھے۔
کیبنیٹ کی میٹنگ میں پہنچنے کے لیے راجیو خود ایک نئی ایس یو وی کار ڈرائیو کر تے ہوئے آئے۔ کہتے ہیں کہ اجتماع گاہ کے نزدیک گاڑی پہنچنے پر ایک مقامی ٹریفک کانسٹیبل نے اس کار کو چوراہے سے بنسبت سیدھے جانے کے، دائیں طرف مڑنے کا اشارہ (کچھ لوگوں کے مطابق یہ جادوگر اشوک کی جادوگری تھی) کر دیا۔ یہ دایاں موڑ مکھیہ منتری ہری دیو جوشی کو بہت مہنگا پڑا کہ راجیو گاندھی کی کار ایک ایسی جگہ جا کر رکی، جہاں صوبائی وزراء اور اعلیٰ افسران کی سیکڑوں سرکاری گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں۔ راجیو نے اس پر ناراضگی جتاتے ہوئے سب کے سامنے جوشی کی کھنچائی کر دی۔ اس پر جوشی لنچ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے وہاں سے غیر حاضر رہے۔
صوبے کے وزیر اعلیٰ اور میزبان کی لنچ سے غیر موجودگی کو راجیو کیبنیٹ کے تجربےکار و گھاگھ مرکزی وزیر نیز ہری دیو جوشی کے دوست پی وی نرسمہا راو نے محسوس کیا۔ راجیو گاندھی کی کیبنیٹ میں وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کا قلمدان سنبھال رہے وزیر نرسمہا راو نے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ جس کا نتیجہ ایک ماہ بعد ظاہر ہوا، جب ہری دیو جوشی کی جگہ شیوچرن ماتھر کو صوبے کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔
اشوک اس وقت دہلی میں مرکزی وزیر سیاحت و راجیو گاندھی کے قریب تھے۔ اسی لیے وہ سونیا گاندھی کے بھی معتمد رہے اور آج راہل کی صدارت والی کانگریس میں ان کا قد کافی اونچا ہو چکا ہے۔ راہل اپنے ہم عمر ساتھی سچن پائلٹ کے ساتھ راجستھان کی سیاست میں بزرگ اشوک گہلوت کے ساتھ توازن بنائے ہوئے ہیں۔ راہل کی موجودگی میں یقین ہے کہ اشوک سچن کو کوئی جادو نہیں دکھائیں گے۔ دو بار راجستھان کے مکھیہ منتری رہ چکے اشوک گہلوت کا سچن بھی احترام کرتے ہیں۔
نہایت سادہ مزاج اشوک کسی زمانے میں اپنے سینئر لیڈران جیسے احمد پٹیل اور غلام نبی آزاد کے سامنے کرسی پر نہیں بیٹھتے تھے۔ آج وہ شاید 24 اکبر روڈ پر واقع کانگریس کے مرکزی دفتر کی سب سے اہم شخصیت ہو چلے ہیں۔ ایسے میں کانگریسیوں کا یہ یقین درست معلوم ہوتا ہے کہ راجستھان میں کانگریس کی فتح کا فاصلہ کم رہا تو اشوک ہی راہل کی پہلی پسند ہوں گے۔
Categories: فکر و نظر