دین الہٰی کے بانی اکبر نے ملک میں کسی نالے تک کا نام بدلنے کی کوشش نہیں کی، تو اس کو پریاگ سے کیونکر چڑھ ہو سکتی تھی؟
بنا بچارے جو کرے سو پاچھے پچھتائے،
کام بگارے آپنو جگ میں ہوت ہنسائے
کوی گردھر کے یہ مصرعے ان دنوں الہ آباد کا نام پریاگ راج کرنے کے اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے فیصلے کے تناظر میں خوب با معنی ہو رہی ہے۔ ہندتووادیوں کی طرف سے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے انتخابی وعدہ پورا کرنے کو لےکر لگاتار دباؤ جھیل رہی اس حکومت نے ‘ مغل سرائے ‘ کو ‘ دین دیال اپادھیائے نگر ‘ بنانے کے بعد ‘ الہ آباد ‘ کو ‘ پریاگ راج ‘ کرنے کا فیصلہ کیا تو ایسا جتایا تھا کہ جیسے اس نے ایک ساتھ دونوں جہاں پا لئے ہیں۔
اس خوشی میں اس کے کئی تھنک ٹینک، ظاہر ہے کہ مسلم مخالف فرقہ وارانہ ایجنڈے کو نئی دھار دینے کے لئے، اسے نام بدلنے کے بجائے ‘ پریاگ کا قیامِ نو ‘ اور ا س کے مخالفوں کو ‘ مٹھی بھر ‘ بتانے کی حد تک چلے گئے تھے۔ ان میں سے کئی نے یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا کہ یہ مٹھی بھر مخالف ثقافتی محسوسات کے رس، لطف اورراشٹر کے جذبے سے آشنا نہیں ہیں اور دیر سویر ان کو اس کی ندامت ضرور ہوگی۔ لیکن ان تھنک ٹینکوں کی بدقسمتی سے ان کی یہ خوشی بےحد کم عمر ثابت ہوئی اور اب مخالفوں سے پہلے ان کے ہی پچھتاوے کی نوبت سامنے آ گئی ہے۔
اتناہی نہیں، ‘ ثقافتی محسوسات کے رس، لطف اور راشٹر کے جذبے ‘ سے ان کی ناآشنائی کچھ ایسی شکل میں ظاہر ہو رہی ہے کہ ان کے ‘ اپنے لوگ ‘ بھی ان کی اس قیامِ نو کو بےمعنی کہنے لگے ہیں۔ یہ کہہکر کہ الہ آباد تو دراصل منو کی بیٹی الا کا ‘ الاواس ‘ نام سے جانا جانے والا شہر تھا اور جب تک تھا، اس کو کسی بیٹی کے نام پر بسا سنسار کا تقریباً اکیلا شہر ہونے کا فخر حاصل تھا۔
اب یہ لوگ بےلوث ہوکر پوچھ رہے ہیں کہ اکبر اور الہٰی سے نفرت میں اندھے ہوکر الہ آباد کو مٹانے کے چکر میں بیٹی الا کی یادوں کو سواہا کرنے کی کیا ضرورت تھی، تو نہ حکومت سے جواب دیتے بن رہا ہے اور نہ اس کے تھنک ٹینکوں سے، جبکہ ان کے ‘ اپنے لوگوں ‘ کا کہنا ہے کہ 443 سال پہلے مغل بادشاہ اکبر نے الاواس کو الہ آباد کیا توبھی اس میں ‘ الا ‘ کی موجودگی ان کے ڈھارس کی وجہ ہوا کرتی تھی، جو اب ‘ جدید اکبروں ‘ کی وجہ سے نہیں رہ گئی ہے۔
ان لوگوں کے مطابق الہ آباد کا الاواس نام پریاگ سے پرانا ہے اور اس کو پروروا ایل (بدھ اور الا کے بیٹے) نے اپنی ماں کے نام پر بسایا تھا۔ پریاگ کے ساتھ لگاتار کوسم اور کوشامبی نام ملتے ہیں، لیکن الاواس کے ساتھ اور نام نہیں ملتے۔ پرتشٹھان پوری، جو اب جھونسی کے نام سے مشہور ہے، منودہیتا الا کے بیٹے کی راجدھانی تھی، جہاں وہ رہتی تھیں۔
اب حکومت کی مشکل یہ ہے کہ اس کے حمایتیوں کے ذریعے کیا جا رہا پریاگ راج کا مہیماگان بھی اس کیریکٹر سرٹیفیکٹ سے اس کا پیچھا نہیں چھڑا پا رہا۔ سو، پہلے جن مخالفوں کو مٹھی بھر قرار دےکر بنا کان دئے درکنار کر دیا گیا تھا، ان کو جواب دینے کے بہانے قیامِ نو کے فیصلے کی مناسب نمائش کی جھڑی-سی لگا دی گئی ہے، جس کا مقصد مخالفوں سے زیادہ اپنوں کو پیغام دینا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ بات اس سے آگے بڑھ ہی نہیں پا رہی کہ ‘ پریاگ راج کو ودھاتا نے خود گڑھا ہے ‘، ‘ اس کے نام میں، جو آفاقیت ہے، تہذیبی روایت کا احساس ہوتا ہے ‘ اور ‘ وہاں لگنے والا کنبھ دنیا کا سب سے بڑا میل ملاپ ہے۔ ‘
ان سب کے باوجود یہ جھوٹ مشہور نہیں ہو پا رہا کہ اکبر نے 443 سال پہلے پریاگ کا نام بدلکر الہ آباد کیا تھا یا کہ الہ آباد پرانے پریاگ علاقے کا ہی حصہ ہے۔ جانکاروں کی مانیں تو پریاگ اس وقت ‘ شہر ‘ ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس پار گنگا اور جمنا کا دوآب، دو ندیوں کے پانی سے دلدلی تھا۔ اکبر بھی الہ آباد کو تبھی شکل دے پایا تھا، جب اس کے ایک طرف قلعہ اور دوسری طرف باندھ بنوایا۔ شہنشاہ کے طور پر اس نے سنگم پر مضبوط قلعہ بنوا کر کڑا اور کوسم (کوشامبی) کی جگہ جنگلوں اور ڈوب والی زمین پر الہ آباد کا وجود ممکن کیا تھا۔
پریاگ اس وقت صرف جنگل تھا، جہاں اکّا-دکّا مُنی رہتے تھے۔ گوسوامی تلسی داس نے بھی اپنے ‘ رام چرت مانس ‘ میں اس کو ‘ اگم علاقہ ‘ ہی بتایا ہے۔ شہر ہوتا تو وہ اگم نہیں سگم ہوتا۔ پورانک ادب میں بھی پریاگ کبھی شہر نہیں، جنگل اور گنگا جمنا کے سنگم کے طور پر ہی درج ہے۔ کئی الہ آبادی اس کا بھی گلہ کر رہے ہیں کہ ‘ الہ آباد ‘ کے وجود میں رہتے اس میں ‘ پریاگ ‘ اور ‘ پریاگ گھاٹ ‘ بھی باقاعدہ تھے ہی، لیکن اب ‘ پریاگ راج ‘ میں ‘ الہ آباد ‘ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
پریاگ کی اس ‘ قیامِ نو ‘ کے پیچھے کے جھوٹ اور ریاکاری کی سازش سے وہ بےحد دکھی ہیں اور غصے میں شہروں کے نام رکھنے کے سلسلے کے خلاف بھی جارحانہ ہو رہے ہیں۔ پوچھ رہے ہیں کہ کتنے شہروں کے نام سماجوادی بدلیںگے، کتنوں کے مایاوادی اور کتنوں کے عقیدت پسند؟ یہ سب اپنے-اپنے کوٹے کے نام ایک ساتھ کیوں نہیں بدل لیتے، جس سے ملک اور ریاست ایسے بےحس بدلاؤ سے آزادی پاکر آگے بڑھ پائے۔
حکومت کے حمایتی ان کو سمجھا رہے ہیں کہ پوری دنیا میں شہروں کے نام بدلے جاتے رہے ہیں۔ جان کار بھی اس کو قبول کرتے ہیں لیکن اس تبصرہ کے ساتھ کہ ایسا ہمیشہ ثقافتی وجہوں سے ہی نہیں ہوا کرتا۔ کئی بار نام بدلنے کے پیچھے تسلط قائم کی بدنیتی سے ترغیب پا کر جاگیردارانہ وجہ بھی ہوتی ہیں۔ یہ وجہ اس معاملے میں صاف دکھائی دے رہی ہیں اور اس کو نام بدلے جانے کی اس جاگیردارانہ روایت سے جوڑ رہے ہیں، جس میں ہارے ہوئے راجاؤں-مہاراجاؤں کو نیچا دکھانے کے لئے ایسا کیا جاتا تھا۔
سرکار کے حمایتی ، یہاں تک کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی جانے-انجانے اکبر پر ‘ کافر ‘ ہندوؤں کو نیچا دکھانے کے لئے پریاگ کا نام الہ آباد کر دینے کا الزام لگاکر اس کی تائید کر رہے ہیں۔ اس جھوٹ سے جلے-بھنے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا اس قیامِ نو کو انہوں نے اس لئے ضروری سمجھا کہ 443 سال بعد اکبر کو ہرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں؟ اس اکبر کو، جس نے کاشی، ایودھیا، متھرا، ہری دوار، اجین، وندھیا چل، میہر اور چترکوٹ جیسے بڑے ہندو تیرتھوں کے نام نہیں بدلے، صرف پریاگ کو الہ آباد کرکے کافروں کو نیچا دکھانا چاہا!
سرکار اور اس کے حمایتی اس سوال کے سامنے بھی لاجواب ہیں کہ سُرج سہسرنام رٹنے والے دین الہٰی کے بانی اکبر نے ملک میں کسی نالے تک کا نام بدلنے کی کوشش نہیں کی، تو اس کو پریاگ سے کیونکر کوئی چڑھ ہو سکتی تھی؟ وہ تو ٹوڈرمل کھتری، بیربل پانڈے اور مان سنگھ کچھواہا کو نورتن بناکر سرکار چلاتا تھا اور اس نے ‘ کافروں ‘ کے من پسند بھگوان رام اور سیتا کے نام پر سکے جاری کئے تھے۔ اس کے نورتن مان سنگھ برسانے میں رادھارانی کا مندر بنواتے رہے اور وہ خود تان سین سے راگ راگنی سنتا رہا تھا۔
اس کے دورحکومت میں تلسی داس بلا روک ٹوک رام چرت گاتے اور ٹھسک سے خود کو رگھوویر کا چاکر بتاتے رہے۔ ایک بار تو اس کے بلاوے کی بھی بے عزتی کی۔ ورنداون میں سور کی کرشن لیلا بھی اکبر نے نہیں ہی روکی، جبکہ اس کا ایک من پسند سپہ سالار شاعر رحیم ویشنو ہو گیا-پشٹی مارگ کا پیروکار۔ وہ برج میں بروے اور نیتی کے دوہے رچتا رہا۔
اکبر یوگی آدتیہ ناتھ کی راہ چلتا تو اس کو جونپور میں پل نہیں بنوانا تھا، بس جوناشاہ کی جگہ ہر نئی پرانی تعمیر کو اکبر کے ذریعے تعمیر کئے جانے کی منادی کروا دینی تھی۔ لیکن تب اس کے انتقال پر جونپور، الہ آباد، مرزاپور اور بنارس غم میں ڈوبکر ہفتوں اپنے شہنشاہ کے جانے کا ماتم نہ مناتے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر