ایک لبر ل ، روشن خیال مسلمان، جو ہندوستان کے سیکولر کلچر میں رچ بس گیا ہو، جن کے گھر پر عید اور محرم کے ساتھ ساتھ دیوالی اور ہولی بھی اتنی ہی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہو، جن کی بیٹی، برادر ، بھانجی اور دیگر قریبی رشتہ داروں نے ہندو خاندانوں میں شادیاں کی ہوں، اگر وہ اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتے ہوں، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔
ایک عرصہ قبل ایک ہندو دوست اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں منانے کشمیر جا رہا تھا۔ جانے سے قبل ہچکچاتے ہوئے اس نے کہا کہ اس کا 14سالہ بیٹا، جو دہلی کے ایک اعلیٰ اسکول میں زیر تعلیم ہے، مسلمانوں کے بارے میں عجب و غریب خیالات رکھتا ہے، وہ ان کو ایک طرح سے عفریت سمجھتا ہے۔ اس نے جاننے کی کوشش کی کہ کیا اس کا بیٹا کچھ وقت کسی مسلم فیملی کے ساتھ گزار سکتا ہے، تاکہ وہ خود مشاہدہ کرسکے۔
خیر سرینگر میں ایک دوست نے میزبانی کا بیڑا اٹھایا ۔ ان کی فیملی اور بچوں کے ساتھ چند روز گزارکر جب و ہ واپس دہلی وارد ہوا، اس میں ایک انقلابی تبدیلی آچکی تھی۔ اس کے ساتھ اکثر مکاملہ اور تعامل ہوتا تھا۔ بعد میں اس کے والد نے مجھے بتایا کہ نہ صرف ان کے صاحبزادے بلکہ خود اس کی اپنی کئی غلط فہمیاں دور ہوگئیں ، جنہوں نے ان کے ذہنوں کو مکڑی کے جالے کی طرح جکڑ کر رکھا تھا۔
حال ہی میں آفس میں میری ایک کولیگ نے بتایا کہ ان کے والد ، جو ممبئی کے ایک نامور بزنس مین ہیں، مسلمانوں کو پاس نہیں آنے دیتے ہیں۔ گو کہ کام کے سلسلے میں اکثر ان کا واسطہ مسلمان کاریگروں سے ہوتا ہے، مگر وہ زیادہ سے زیادہ گھر کے برآمدہ تک ، یا ان کے آفس میں انکے کیبن کے باہر اپنے معاملات کو نپٹانے آسکتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ میں واحد مسلمان ہوں جن سے ان کے والد خوش اخلاقی اور گرم جوشی کے ساتھ ملتے ہیں۔
اب مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا اس کو تعریف یا توہین کے طور پر لے لوں۔ہندوستان کے مشہور دانشور اور معروف صحافی سعید نقوی نے اپنی کتاب Being the Other میں کچھ اسی طرح کے مشاہدوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کی اصل کتاب انگریزی میں گو کہ پچھلے سال منظر عام پر آئی تھی، مگر اس کا اردو ترجمہ ’’وطن میں غیر ہندوستانی مسلمان‘‘ کا اجرا چند روز قبل دہلی میں سابق نائب صدر حامد انصاری نے کیا۔
نقوی رقم طراز ہیں کہ ایک بار الہ آباد یونیورسٹی میں لیکچر دیتے ہوئے انہوں نے سامعین سے سوال کیا کہ کتنے ہندو طالب علم یا اساتذہ ، کبھی کسی مسلم ساتھی کے گھر گئے ہیں یا قریب سے مسلمانوں کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ چند ایک نے کہا کہ ان کے والد یا دادا اردو اور فارسی جانتے تھے یا ان کی والدہ یا دادی مٹن یا مرغ بہت اچھا پکاتی تھی۔یہ ان کے مذہبی تعصب سے آزاد ہونے کی شہادت تھی۔ ایک حقیقت جو اس سے منکشف ہوئی کہ ہم دہائیوں سے نسلی تفریق کی حالت میں جی رہے ہیں اور اس کو تسلیم بھی نہیں کرتے ہیں۔
سعید نقوی ہندوستان کے ان گنے چنے مسلمانوں میں ہیں، جنہوں نے ذاتی طور سے بہت کامیاب زندگی گزاری ۔ پانچ دہائیوں پر محیط اپنے صحافتی کیریئر کے دوران وہ مقتدر اخبارات اسٹیٹس مین اور انڈین ایکسپریس کے مدیر رہے۔ ان کی بیٹی صبا نقوی اور برادار جاوید نقوی نے بھی صحافت کی دنیا میں خاصا نام کمایا ہے۔ مگر ان پانچ دہائیوں میں شاید ہی کبھی ان کو اپنی شناخت کا مسئلہ درپیش آگیا ہوگا۔
ایک لبر ل ، روشن خیال مسلمان، جو ہندوستان کے سیکولر کلچر میں رچ بس گیا ہو، جن کے گھر پر عید اور محرم کے ساتھ ساتھ دیوالی اور ہولی بھی اتنی ہی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہو، جن کی بیٹی، برادر ، بھانجی اور دیگر قریبی رشتہ داروں نے ہندو خاندانوں میں شادیاں کی ہوں، اگر وہ اب اپنے آپ کو ’غیر‘ محسوس کرتے ہوں، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عام مسلمان کا کیا حال ہوگا۔
کتاب میں ایک ٹیس ہے۔ نقوی کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ تعصب کوئی نئی بیماری ہے۔ 1960 میں جب وہ دہلی میں انڈین ایکسپریس میں کام کرنے آئے تو انہیں گھر نہیں مل رہا تھا۔ تو کلدیپ نیر نے مدد کرکے گھر دلادیا۔ مگر نقوی کا کہنا ہے کہ اب گھر نہ دینے والوں اور گھر دلانے پر بضد لوگوں کے درمیان تناسب مسلسل کم ہوتا چلا گیا ہے، جو بتا رہا ہے کہ مسلمانوں کو دھیرے دھیرے اپنے ہی وطن میں ’’غیر ‘‘ بنایا گیا ہے۔
کتاب کے مطابق ہندوستانی مسلمان ایک ٹرائنگل (مثلث) میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور اسکے تین ضلع کچھ اس طرح ہیں، ہند۔مسلم، ہندوستان ۔پاکستان اور کشمیر ۔ ان تینوں کو حل کئے بغیر مثلث کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔مگر پاکستان سے اگر صلح ہوجائے تو ہندو انتہا پسندوں کے پاس سیاست کرنے کیلئے ایشو ختم ہوجائے گا۔
نقوی کے بقول بڑے شہری مراکز میں ہندو قوم پرست بی جے پی اور سیکولر کانگریس کے مابین فرق مٹ چکا ہے۔ ان کے درمیان جو دھوکے کا پردہ 1947سے حائل تھا وہ بے نقاب ہوچکا ہے۔ آبادی کے اجتماعی رویہ میں، ان کے سیاسی نظریات سے قطع نظر یکساں نوعیت کی فرقہ واریت سرایت کرچکی ہے۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ مسلمان اپنے خول میں سمٹتا جا رہا ہے۔
غیر فرقہ پرست ہندو بھی بھونچکا رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں ممکن ہوتا ہے وہ ’’سیکولر ‘‘ کی اصطلاح سے اجتناب کرتے ہیں ، کیونکہ اسی کی حرمت کو بہت زیادہ پامال کیا گیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ایک ایسا پلیٹ فارم بن گئی ہے جس پر ہندو قوم پرستی تعمیر کی جارہی ہے۔ اب یہ کوئی معمولی اتفاق نہیں کہ ہزاروں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے اور اکثریتی فرقے کو ان بے گناہوں سے ذرا بھی ہمدردی نہیں ہے۔
گویا فرض کرلیا گیا ہے کہ خواہ ان کے خلاف کوئی شہادت نہ ہو تب بھی وہ مجرم ہیں۔ پس ماندہ مسلم بستیوں میں رہنے والوں کے اندر سلگتی ہوئی شکایتوں سے ذہنوں کے اندر خلیج تقویت پاتی ہیں۔ کرکٹ کا کھیل ہو یا امریکی انتخابات۔ ہر مسئلہ پر خیالات ایک دوسرے کے برعکس۔ نقوی کا مزید کہنا ہے کہ ان پر ایک اور حقیقت منکشف ہوگئی کہ جہاں کوئی مسلمان اعلیٰ عہدہ تک پہنچتا ہے وہ اپنی کمیونٹی کے افراد کی مدد کرنے سے منھ موڑتا ہے، مبادا اس پر ’’فرقہ پرست‘‘ ہونے کا لیبل نہ لگا دیا جائے۔
مگر شاید اس سے قبل صورت حال اتنی خراب نہیں تھی۔اب کوئی دن نہیں گذرتا جب کوئی ہندوستانی مسلمانوں کی شہریت پر سوال نہ کرے۔ حتیٰ کہ بالی ووڈ کو بھی ، جس کا اپنا مذہب ہے ،بخشا نہیں گیا ہے۔ جب 2015کے آواخر میں ملک کے نامی فلمی ستاروں شاہ رخ خان اور عامر خان نے فرقہ وارانہ زیادتیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف آواز اٹھائی تو دونوں کو ہندو اکثریت کے غضبناک رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔
چند تنظیموں نے تو مطالبہ کیا کہ ان اداکاروں کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔نقوی کے خاندان کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں ہے۔ ان کے کزنز یاور عباس، مظہر عباس نے پاکستان کی صحافت میں خاصا نام کمایا۔ جنرل اطہر عباس تو پاکستانی فوج کے ترجمان تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب پاکستان میں رشتہ داروں سے ملنے کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
ہندوستانی وزارت خارجہ میں ان کے ایک دوست نے ان کو مشورہ دیا کہ اب اپنے اقارب کو بھول جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عملی طور پر میں ا ن سب کو بھول چکا ہوں، پر ایک حسرت ہے، سو وہ بھی چند نسلوں میں زائل ہو جائےگی۔ کتاب میں کئی مقامات پر مغربی اسکالروں کی نقل میں مسلمانوں کے ایک فرقہ کو معتوب کرکے تمام مسائل ان کی گردن میں ڈالے گئے ہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 80کی دہائی کے اواخر میں جب امام خمینی مغرب سے برسرپیکار تھے اور جب انہوں نے سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ دیا تھا، تو شیعہ فرقہ ہدف ملامت تھا۔ افغانستان میں جب طالبان نے مغرب کے خلاف علم بلند کیا تو دیوبندی نشانہ پر آگئے۔ القاعدہ کے ظہور کے بعد اب وہابی اسلام کو معتوب و مغضوب بنانے کا فیشن چل پڑا ہے۔ نقوی نے بھی کچھ اسی طرح کی دلیل کا سہار ا لیکر وہابی ازم پر کھل کر تنقید کی ہے۔
مگر یہ بھول گئے ہیں کہ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابولکلام آزاد اسی طرز فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ اور اس کتاب میں ان کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انتہاپسند ی یا لبرل ہونا کسی ایک فرقہ کا خاصہ نہیں ہے ۔بلکہ اس کا تعلق اس سیاسی ماحول سے ہے۔ ہر فرقہ میں اعتدال پسند اور انتہا پسند پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے سرسید احمد خان کو نشانہ بناکر لکھا ہے کہ علی گڑھ کالج جو بعد میں یونیورسٹی بن گیا کو مسلمان اشرافیہ کیلئے مخصوص رکھا گیا تھا ۔
اگر ایسا ہوتا تو شاید شیخ محمد عبداللہ یا دیگر کئی افراد علی گڑھ کے فارغ التحصیل نہ ہوتے۔ علی گڑھ کالج کے پہلے گریجویٹ ہی ایک ہندو ایشوری پرساد تھے۔خیر یہ تو ایک حقیقت ہے کہ 1857کے بعد ہی سے مسلمانوں کو انگریز حکمرانوں نے دشمن سمجھ کر’ غیر‘ تصور کرنا شروع کیا تھا۔ مگر 1947میں تقسیم کے بعد جہاں مسلمانوں کو پاکستان کی شکل میں ایک ملک ملا، وہیں ہندوستان میں رہنے والی ایک کثیر آبادی کو اسکا ذمہ دار ٹھہرا کر ایک مستقل احساس جرم میں مبتلا رکھ کر ’غیر ‘بنا دیا گیا۔
سابق نائب صدر حامد انصاری نے توجہ دلائی کہ 1947میں آزادی سے چار روز قبل وزیر داخلہ سردار ولبھ بائی پٹیل نے کہا کہ ہندوستان کو متحد رکھنے کیلئے تقسیم ضروری تھی۔ مگر مسلمانوں کو ذمہ دار بنادیا گیا اور سب نے اس کو مان بھی لیا۔انہوں نے کہا کہ جب نومبر 1949 کو آئین کے مسودہ پر گفتگو ہورہی تھی تو کانگریس کے رکن اجیت پرشاد جین نے کہا : ’’پاکستان کے پیدا ہوجانے کی وجہ سے اب ہم کو آئین بنانے میں آسانی ہورہی ہے‘‘۔
انصاری نے مزید کہا کہ مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں رہنے والا ہر ساتواں شہری مسلمان ہے۔ کیا اتنی بڑی تعداد کو ’’غیر‘‘ بنایا جاسکتا ہے اور اگر بنا دیا گیا تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟
Categories: فکر و نظر