راجستھان کی وزیراعلیٰ وسندھرا راجے کا راجاکھیڑا سے انتخاب لڑنے بات پہلے سے کی جارہی تھی۔ بی جے پی کی طرف سے کی گئی رائےشماری میں بھی اس سیٹ سے دعوے دار میں ان کا نام سامنے آیا، لیکن وسندھرا نے قیاس آرائیوں کو دور کرتے ہوئے اپنی روایتی سیٹ جھالراپاٹن سے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
راجستھان میں7 دسمبر کو ہونے والے اسمبلی انتخاب کے لئے بی جے پی میں ٹکٹ کے بٹوارےکو لےکر منتھن چل رہا ہے، لیکن وزیراعلیٰ وسندھرا راجے نے اپنی امیدواری کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ اپنی روایتی سیٹ جھالراپاٹن سے انتخاب لڑیںگی۔ یہ لگاتار چوتھا موقع ہوگا جب وہ جھالاواڑ ضلعے کی اس سیٹ سے انتخابی میدان میں اتریںگی۔گزشتہ ہفتے کانگریس صدر راہل گاندھی کے ہاڑوتی دورے کے بعد پہلی بار جھالاواڑ پہنچیں وسندھرا نے جھالراپاٹن میں ہوئے بی جے پی بوتھ کارکن کانفرنس میں اپنی امیدواری کا اعلان کیا۔ کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے راجے نے کہا، ‘ میں جھالراپاٹن سے ہی اگلا انتخاب لڑوںگی۔ یہ انتخاب میں نہیں، جھالراپاٹن حلقہ کا ہر آدمی لڑےگا۔ ‘
وسندھرا کے اس اعلان کے بعد ان کے جھالراپاٹن سے انتخاب نہیں لڑنے کے قیاس کو سکتہ لگ گیا ہے۔غور طلب ہے کہ سیاسی گلیاروں میں یہ ذکر زور شور سے ہو رہا تھا کہ وزیراعلیٰ اس بار اپنا انتخابی حلقہ بدلیںگی۔ نئی سیٹ کے طور پر دھول پور ضلع کے راجاکھیڑا کا نام سامنے آ رہا تھا۔وزیراعلیٰ کے راجاکھیڑا سے انتخاب لڑنے کا تذکرہ اس وقت تیز ہو گیا جب ٹکٹ طے کرنے کے لئے جئے پور میں ہوئی بی جے پی کی رائے شماری میں پارٹی کے مقامی اہلکاروں نے وسندھرا کو وہاں سے امیدوار بنانے کی تجویز رکھی۔ ان قیاس آرائیوں کو اس وقت اور طاقت ملی جب دھول پور کے کانگریس ضلع صدر اشوک شرما نے بی جے پی کا دامن تھاما۔
اشوک شرما دھول پور میں کانگریس کے قد آور رہنما اور پانچ بار ایم ایل اے رہے بنواری لال شرما کے بیٹے ہیں۔ ان کی فیملی کا ضلع کے براہمن کمیونٹی میں خاصی پیٹھ ہے۔ اشوک شرما کے بی جے پی میں آنے کے بعد یہ قیاس لگایا جا رہا تھا کہ پارٹی ان کو دھول پور سے میدان میں اتارےگی اور راجاکھیڑا سے وسندھرا انتخاب لڑیںگی۔بی جے پی کے اندرونی ذرائع کے مطابق وسندھرا کی ہدایت سے ہی راجاکھیڑا کی پارٹی اہلکاروں نے رائےشماری میں راجا کا نام لیا اور اشوک شرما کانگریس چھوڑ بی جے پی میں آئے۔ یعنی وسندھرا نے راجاکھیڑا سے میدان میں اترنے کا پورا دل بنا لیا تھا۔ پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ ان کو جھالراپاٹن سے انتخاب لڑنے کا اعلان کرنا پڑا؟
پچھلے 30 سال سے وسندھرا راجے کے قریبی ایک مقامی رہنما آف دی ریکارڈ بات چیت میں اس کی بڑی وجہ ان کے ایم پی بیٹے کا سیاسی مستقبل بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘راجا صاحب (دشینت سنگھ)مہارانی صاحبہ (وسندھرا راجے) کی بدولت ہی تیسری بار ایم پی بنے ہیں۔ اگر مہارانی صاحبہ یہاں سے چلی گئیں تو راجا صاحب کا انتخاب جیتنا ناممکن ہے۔ ‘دشینت سنگھ کے اب تک کے سیاسی سفر پر غور کریں تو بی جے پی کے مقامی رہنما کا کہا معقول لگتا ہے۔ دشینت نے 2004 میں پہلی بار جھالاواڑ لوک سبھا سیٹ سے میدان میں اترے تھے۔ اس وقت اس سیٹ سے لگاتار پانچ بار رکن ایم پی رہ چکیں ان کی ماں وسندھرا صوبے کی وزیراعلیٰ تھیں۔ اس انتخاب میں دشینت کی تشہیر کی کمان پوری طرح سے راجا کے ہاتھوں میں رہی۔
حالانکہ لوک سبھا انتخاب سے محض 6 مہینے پہلے ہوئے اسمبلی انتخاب میں 200 میں سے 120 سیٹیں جیتنے کی وجہ سے ریاست میں بی جے پی کے حق میں ماحول تھا، لیکن دشینت کی جیت کی اسکرپٹ وسندھرا نے لکھی۔ وہ آسانی سے انتخاب جیتنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے کانگریس کے سنجےگرجر کو 81 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہرایا۔2009 کا لوک سبھا انتخاب دشینت کے لئے سب سے مشکل رہا۔اس کے 6 مہینے پہلے وسندھرا راجستھان کے اقتدار سے بے دخل ہو چکی تھیں۔ باراں-جھالاواڑ کے انتخابی میدان میں اتارنے کے لئے ان کے پاس نہ تو وزراء کی فوج تھی اور نہ ہی حکومت میں ہونے کے ناطے ملنے والا انتظامی عملہ۔ یہی وجہ ہے کہ وسندھرا انتخاب کے دوران باراں-جھالاواڑ میں ہی خیمہ ڈالے رہیں۔
ہونے کو تو لوک سبھا انتخاب میں وسندھرا کے کندھوں پر پوری ریاست کی ذمہ داری تھی، لیکن تشہیر کے معاملے میں انہوں نے پارٹی کے بجائے اپنے بیٹے کو ترجیح دی۔ راجے کو دشینت کے ہار کا ڈر اس قدر ستا رہا تھا کہ انہوں نے انتخاب کے آخری 19 دنوں میں سے 18 دن باراں-جھالاواڑ کو دئے۔ اس دوران انہوں نے کارکنان اور مختلف ذاتوں کے جھنڈابرداروں سے ذاتی رابطہ کیا۔
وسندھرا کی حکمت عملی اثردار رہی۔ دشینت نے کانگریس کی ارمیلا جین کو 52 ہزار ووٹ سے ہرایا۔ اس انتخاب پر بات کرتے ہوئے باراں کے ایک بی جے پی رہنما کہتے ہیں،’اگر مہارانی صاحبہ 18 دن تک یہاں نہیں رکتیں تو راجا صاحب کا انتخاب جیتنا مشکل تھا۔ کانگریس اگر ارمیلا جین کے بجائے پرمود بھایا کو ٹکٹ دیتی تو ملکہ صاحبہ کو بھی پسینہ آ جاتا۔ ‘2014 کا انتخاب دشینت سنگھ کے لئے بےحد آسان رہا۔ 6مہینے پہلے ہوئے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی 200 میں سے 163 سیٹیں جیتکر اقتدار میں آئی تھی اور پورے ملک میں مودی لہر چل رہی تھی۔ اس قدر موافق سیاسی ماحول ہونے کے بعد بھی وسندھرا راجے نے اپنے بیٹے کی انتخابی تشہیر کا کمان اپنے ہاتھ میں رکھی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ دشینت 2 لاکھ 80 ہزار کے بڑے فرق سے انتخاب جیتے۔
باراں-جھالاواڑ کی بی جے پی رہنماؤں کے مطابق 2019 میں ہونے والا لوک سبھا انتخاب دشینت کے لئے اپنی سیاسی زندگی کا سب سے مشکل انتخاب ثابت ہو سکتا ہے۔ نام نہیں ظاہر کرنے کی شرط پر ایک رہنما کہتے ہیں، ‘پرانے رہنماؤں کو ایک ایک کر چھٹکنے کی وجہ سے حلقے میں اس بار راجا صاحب کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ ‘وہ آگے کہتے ہیں، ‘راجا صاحب کی پارٹی کے کارکنان اور عام لوگوں سے سلوک روکھا ہونے کی وجہ سے ناراضگی بہت زیادہ ہے۔ مرکز میں بی جے پی کی حکومت اور ریاست میں ان کی ماں کے وزیراعلیٰ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو امید زیادہ تھی، لیکن اتنا کام نہیں ہوا۔ خاص طور پر ریاستی حکومت کے خلاف لوگوں میں بھاری غصہ ہے۔ ‘
علاقے کی سیاست کے جان کار بھی یہ مانتے ہیں کہ دشینت سنگھ کے سیاسی انداز کی وجہ سے 30 سال سے وسندھرا راجے کے ساتھ کھڑے کئی مضبوط ستون اب ان سے دور ہو چکے ہیں۔ چھبڑا کے بی جے پی ایم ایل اے پرتاپ سنگھ سنگھوی اس فہرست میں بڑا نام ہے۔ پانچ بار کے ایم ایل اے سنگھوی ہاڑوتی کی سیاست میں خاصہ دخل رکھتے ہیں۔2013 میں وسندھرا حکومت بننے کے بعد سے سنگھوی حاشیے پر ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ راجے نہ ہوکر ان کےایم پی بیٹا ہیں۔ بی جے پی کارکنان میں یہ ذکر عام ہے کہ سنگھوی کا اونچا قد دشینت کو اکھرتا ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے وسندھرا حکومت میں شامل نہ کرنے کی ٹھانی۔ وہیں، راجے نے بھی ‘بیٹا موہ ‘کی وجہ سے سنگھوی کو نظرانداز کیا۔
وسندھرا کو یہ پتہ ہے کہ سنگھوی کی ناراضگی لوک سبھا انتخاب میں ان کے بیٹے پر بھاری پڑ سکتی ہے اس لئے دشینت آج کل ان سے پھر سے بغل گیر ہو رہے ہیں، جس کا نظارہ گورو یاترا کے دوران وسندھرا کی موجودگی میں سنگھوی کے انتخابی حلقہ میں دیکھنے کو ملا۔ یہ دیکھنا مزےدار ہوگا کہ یہ مرہم سنگھوی کے زخموں کو کتنا بھر پاتا ہے۔اپنوں کی ناراضگی سے الگ علاقے کے کسانوں کا غصہ وسندھرا اور ان کے بیٹے کے لئے سردرد ثابت ہو سکتا ہے۔غور طلب ہے کہ اپج کا مناسب دام نہیں ملنے کی وجہ سے ہاڑوتی کے کسان غصے میں ہیں۔ کئی کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے دخل کے باوجود زیادہ تر کسان کم از کم امدادی قیمت(ایم ایس پی) پر اپنی فصل نہیں بیچ پائے۔ حکومت انتخاب کے موسم میں بھی کسانوں کو صحیح دام نہیں دلوا پائی۔
البتہ ریاستی حکومت کے خلاف اینٹی-ان کمبینسی کا اثر تو علاقے میں ہے ہی۔ باراں-جھالاواڑ کے آٹھ میں سے تین ایم ایل اے کے خلاف خود وزیراعلیٰ وسندھرا سیدھے یا اشاروں میں بول چکی ہیں۔وہ باراں-اٹرو ایم ایل اے رام پال، ڈگ ایم ایل اے رام چندر سناریوال اور کشن گنج ایم ایل اے للت مینا کے کام کاج سے خوش نہیں ہیں۔ وہیں، انتا سے ایم ایل اے اور زراعتی وزیر پربھولال سینی دوسری جگہ سے انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ایسے میں اگر وسندھرا راجے جھالراپاٹن سیٹ چھوڑکر راجاکھیڑا سے انتخاب لڑتیں تو بیٹے کے لئے 2019 کی لڑائی بےحد مشکل ہو جاتی۔اسی وجہ سے جھالراپاٹن میں ہوئے بی جے پی بوتھ کارکن کانفرنس میں انہوں نے نہ صرف یہاں سے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا، بلکہ اس دوران اپنے ایم پی بیٹے دشینت سنگھ اور ان کی بیوی نہاریکا کو بھی ساتھ رکھا۔
اس دوران وسندھرا جذباتی نظر آئیں۔ انہوں نے کہا، ‘جھالاواڑ سے میرا 30 سال پرانااور اٹوٹ رشتہ ہے، جو جب تک سانس ہے تب تک رہےگا۔ یہ رشتہ وزیراعلیٰ اور کارکنان کے درمیان کا نہیں ہے۔ یہ رشتہ ماں-بیٹے، ماں-بیٹی، بہن-بھائی کے درمیان کا ہے۔ یہاں کے لوگوں نے مجھے بہت پیار دیا ہے۔ میں نے بھی پورے دل سے جھالاواڑ-باراں کے لئے جو بھی بن پڑا، کیا ہے۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر