آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 7 کا استعمال مفاد عامہ میں نہیں ہے-یہ موقع کی تلاش میں بیٹھے کاروباریوں کو آر بی آئی کے ذریعے پیسہ دینے کے لئے مجبور کرنے کے ارادے سے اٹھایا گیا ایک بےشرمی بھرا قدم ہے۔
اس حکومت میں بیٹھے کاروباریوں کے طرفداروں نے ایک بار پھر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ ہر بار ایسے تختہ پلٹ کو درست طریقے سے انجام دیتے ہیں۔ اس بار ایک غیر متوقع قدم اٹھاتے ہوئے مرکزی حکومت نے ریزرو بینک آف انڈیا کو آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت ایک ہدایت دی ہے۔یہ ایک طرح سے مرکزی حکومت کی طرف سے آر بی آئی کو دیا گیا حکم ہے کہ وہ کسی بھی حال میں غیر بینکنگ اقتصادی سیکٹر میں قرض دینے پر لگنے والے ممکنہ توقف کی حالت کا حل نکالے اور چھوٹے کاروباروں کو قرض دینے کے لئے اصولوں میں نرمی برتے۔
گزشتہ سال کے درمیان آر بی آئی نے ویسے کمزور بینکوں پر قرض دینے کو لےکر پابندیاں لگائی ہیں، جن میں این پی اے اور دوسری وارننگ دینے والی علامت عام طور سے کہیں اوپر تھی اور اس طرح سے ان کے سرمایہ میں سیندھ لگا رہے تھے۔آپ اس بات کے لئے بےفکر رہ سکتے ہیں کہ دباؤ میں آئے آر بی آئی کے ذریعے ان اصولوں کو آسان بنا دینے کا نتیجہ حکومت کے کاروباری دوستوں تک براہ راست یا بالواسطہ طور پر بینکوں کے پیسوں کی روانی شروع ہو جائےگی کیونکہ پیسہ فطری طور سے پانی کی مانند بہنے والا ہوتا ہے۔
مجھے یہ پتا چلا ہے کہ گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے مشہور بزنس پرموٹر، جو نریندر مودی کے سرکاری غیرملکی سفر میں ان کے ساتھ سفر کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں، فی الحال اپنے پرانے قرض سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لئے 18 فیصد سے زیادہ سود پر کم مدت والے قرض لے رہے ہیں۔لیکن اگر ایک بار آر بی آئی بینکوں کے لئے قرض دینے کے موجودہ سخت اصولوں میں ڈھیل دے دیتا ہے اور پھنسے ہوئے غیر بینکنگ مالی اداروں کو سیال کی فراہمی کر دی جاتی ہے، تو کچھ چنے ہوئے یار دوست کاروباریوں کو-جن پر بینکوں کا 4 لاکھ کروڑ روپے بقایا ہیں-پیسے ملتے رہنے کا راستہ کھل جائےگا۔
ویسے بھی یہ طاقتور پرموٹر آر بی آئی کے 12 فروری، 2018 کے سرکلر کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے دیوالیہ کارروائیوں میں جانے سے بچ گئے ہیں۔اڈانی گروپ، ایسار اور ٹاٹا کا کچھ بجلی منصوبہ، جن پر 1 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ بقایا ہے، ان کو فی الحال جیون دان دیا جا رہا ہے۔اس لئے کسی مغالطہ میں مت رہیے۔ وزیر خزانہ چاہے جو دعویٰ کر لیں، آزادی کے بعد سے اب تک آر بی آئی قانون کی جس دفعہ 7 کا آج تک استعمال نہیں کیا گیا ہے-یہاں تک کہ1991یا2008کے مالی بحران کے دوران بھی جس دفعہ کا استعمال نہیں کیا گیا-اس کو استعمال میں لانے کا فیصلہ مفاد عامہ میں نہیں کیا گیا ہے۔
یہ فراق میں بیٹھے کارپوریٹس کے لئے بینک فنڈنگ کا راستہ صاف کرنے کے مقصد سے اٹھایا گیا ایک بےشرم قدم ہے۔ ان کارپوریٹوں کو بچائے جانے کی ضرورت اس لئے ہے، کیونکہ تبھی وہ نامعلوم انتخابی بانڈس کے سہارے سیاسی پارٹیوں کو ضروری چندہ دے پانے کی حالت میں آ سکیںگے۔یہ کارپوریٹ گروہ اور ان کے پرموٹر زندہ جاوید ہیں اور حکومت چاہے کسی کی بھی آئے، کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ان پر بھلے بینکوں کا 1 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ قرض ہو،لیکن پھر بھی وہ فائدہ مند دفاعی معاہدے کا ایک حصہ پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
مودی کو اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ آخر پرموٹروں کے ایک خاص گروہ کے ساتھ خاص برتاؤ کیوں کیا جا رہا ہے اور 12 فروری 2018 کا سرکلر ان پر کیوں نافذ نہیں ہوا ہے؟کیا ریزرو بینک پر اس اصول کو کمزور کرنے کا دباؤ ہے جو ایک حد کے اوپر کے تمام قرض داروں کے لئے دیوالیہ کارروائیوں سے گزرنے کو ضروری بناتا ہے؟ کیا ان دوست کارپوریٹوں پر نافذ ہونے والے قاعدے-قانون الگ ہیں۔2019 کے انتخاب کی طرف بڑھتے ہوئے یہ سوال یقینی طور پر مودی حکومت کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ہر بیتتے دن کے ساتھ ان کاروباری گھرانوں کی طاقت کھلکر سب کے سامنے آ رہی ہے۔پہلے ان طاقتوں نے رگھو رام راجن کے خلاف ایک مہم چلائی اور یہ متعین کیا ان کی مدت کار میں توسیع نہ کی جائے، کیونکہ راجن نے وزیر اعظم دفتر کو بڑے سیاسی رسوخ دار پرموٹروں کی ایک فہرست بھیجی تھی، جن پر بینک سے لئے گئے قرض کو اپنے منصوبوں میں لگانے کی جگہ اس کو دھوکہ دھڑی سے کسی دیگر جگہ پر لگانے کا شک تھا۔
راجن نے ان خراب پرموٹروں کے خلاف مختلف ایجنسیوں کی ملی-جلی تفتیش کی سفارش کی تھی، کیونکہ آر بی آئی کا ماننا تھا کہ اس کے پاس اکیلے یہ کام کر سکنے کا ذریعہ نہیں ہے۔دی وائر کی آر ٹی آئی درخواست سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ فہرست 2015 میں ہی بھیجی گئی تھی اور وزیر اعظم دفتر کئی بار تاکید کرنے کے باوجود بی جے پی رہنما مرلی منوہر جوشی کی صدارت والی پارلیامانی کمیٹی کے سامنے بھی اس فہرست کو رکھنے سے انکار کر رہا ہے۔اس طرح سے یہ صاف ہے کہ حکومت کچھ چھپا رہی ہے اور اب وہ آج تک استعمال میں نہیں لائی گئی دفعہ 7 کے اہتماموں کے تحت آر بی آئی صدرکے خلاف کارروائی شروع کرکے، ان کو راستہ سے ہٹانے کا من بنا رہی ہے۔
آر بی آئی گورنر ارجت پٹیل مرکز کی ہدایت پرعمل نہیں کر سکتے ہیں، کیوں کہ ایسا کرنا ادارے کے وقار کو کم کرنے والا ہوگا اور بینکوں کو بہتر اور خراب پرموٹروں پر نکیل کسنے کے لئے سینٹرل بینک کے ذریعے لئے گئے کچھ سخت فیصلوں کے بھروسے کو تباہ کر دےگا۔پٹیل کا استعفیٰ ہندوستان کو دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے درمیان ہنسی کا کردار بنا دےگا اور اس کا نتیجہ کرنسی بازار میں آج تک نہیں دیکھے گئے اٹھا پٹک کے طور پر نکلےگا۔
یاد رکھیےکہ پچھلے جمعہ کو آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر ورل آچاریہ نے 2010 کے ارجینٹائنا کی مثال دی تھی،جہاں کے سینٹرل بینک کے گورنر نے حکومت کے حکومتی خزانےکے نقصان کو پورا کرنے کے لئے ادارہ کے فنڈ میں سے رقم دینے کے لئےحکومت کے ذریعے مجبور کئے جانے پر استعفیٰ دے دیا تھا۔اس کے بعد ارجینٹائنا کا بازار اوندھے منھ گر گیا تھا۔یہاں حالات میں کافی یکسانیت ہے، کیونکہ وزارت خزانہ انتخابی سال میں مرکز کے بڑھتے حکومتی خزانےکے نقصان کو پورا کرنے کے لئے آر بی آئی پر اپنا احتیاطی فنڈ (2.5 لاکھ کروڑ روپے)کا ایک حصہ دینے کے لئے دباؤ بنا رہی ہے۔ یہ تیل کی اونچی قیمتوں، بڑھتے چالو کھاتے کے نقصان اور کمزور ہوتے روپے کے سایے میں ہو رہا ہے۔
ان حالات میں آر بی آئی کے گورنر کے استعفیٰ کا نتیجہ بہت سنگین ہو سکتا ہے۔آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 7 کو لگانا، اس لئے بوکھلاہٹ میں اٹھایا گیا قدم ہے، جو پلٹکر مودی حکومت پر ہی وار کرےگا۔
Categories: فکر و نظر