ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی کمی شدت سے محسوس ہوگی۔طالبان میں خاصا اثر ورسوخ رکھنے کے باوجود انہوں نے پولیو ڈراپ کے حق میں فتویٰ جاری کیا۔
2001ہنگامہ آرائیوں اور افراتفری سے پر سال تھا۔ پے درپے واقعات یعنی نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ ٹاور کی تباہی، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آگرہ مذاکرات کی ناکامی، ہندوستانی پارلیامانٹ پر حملہ اور سال کے شروعات میں ہی افغانستان میں طالبان کی طرف سے مہاتما بدھ کے قدیمی مجسمے کی مسماری نے دنیا کو ہیجان میں مبتلا کرکے رکھ دیا تھا۔ اسی سال مارچ کے مہینے میں ، میں ایک کزن کی شادی کے سلسلے میں پاکستان وارد ہوگیا تھا۔
معروف پاکستانی صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید ، جو ان دنوں نئی دہلی میں مقیم تھے، نے راولپنڈی میں مقیم سیاستدان سید کبیر علی واسطی کو میری میزبانی کے لیے کہا، جنہوں نے مہمان نوازی کی انتہا کرکے اپنے گھرپر تقریباًہر شام کوئی نہ کوئی محفل برپا کرکے ، میرے لئے پاکستانی سیاست کے کارپروازوں، صحافیوں، سفارت کاروں نیز دیگر طبقہ ہائے فکر سے ملاقات اور ہم کلام ہونے کے مواقع فراہم کروائے۔
غالباً پہلی بار مجھے پاکستانی سیاست کا پرت در پرت مشاہدہ کرنے اور پرکھنے کا موقعہ ملا۔ان ہی محفلوں میں ایک بار جمیعت علماء اسلام (س)کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو قریب سے دیکھنے اور ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ خیبر پختونخواہ میں اخورہ خٹک کے مقام پر دارلعلوم حقانیہ کے چانسلر کے حیثیت سے اور اس مدرسہ کی افغان طالبان سے نسبت کی بنا پر دنیا بھر میں اور ہندوستان میں بھی میڈیا میں ان کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔
سر پر روایتی پگڑی، دراز قد، روشن اور تیز و طرار آنکھیں اور سنہری داڑھی میں ان کی شخصیت واقعی متاثر کن تھی۔ جونہی واسطی صاحب نے تعارف کرایا، میں نے بے اختیار سوالات کی ایک بوچھار شروع کی۔ چونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی، مولانا کا طوطی بولتا تھا۔ ایک مسکراہٹ کے ساتھ، مولانا نے مجھے اخورہ خٹک آنے کی نہ صرف دعوت دی، بلکہ واسطی صاحب کو بلا کر کہا کہ میرے سفر کا فی الفور بندوبست کریں۔
خیر چند روز تگ و دو کے بعد پشاور وغیرہ کا ویزا لینے کے بعد میں روانہ ہوگیا۔ مدرسہ حقانیہ ، جو دنیا بھر میں طالبان کی پرورش اور پرداخت اور اس سے قبل بھی جنگ افغانستان میں رول کیلئے مشہور تھا، اس کو قریب سے دیکھنے کا اشتیاق بے چینی اور بے قراری کی حد تک غالب تھا۔ راستے میں ٹیکسلا، حسن ابدال اور دریائے سندھ اور دریائے کابل کو بغل گیر ہوتے دیکھ کر تاریخ کے دریچوں کو جھانکتے ہوئے، اخورہ خٹک پہنچ گیا۔
شیر شاہ سوری کے بنائے گرینڈ ٹرنک روڑ کے کنارے مدرسہ کے اس وسیع و عریض کمپلکس میں اس وقت تقریباً7000طلبہ زیر تعلیم تھے ان میں نصف کا تعلق افغانستان سے تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں تعلیم پشتو زبان میں دی جاتی تھی اور جید ترین پختون علماء ہی اکثر مدرس بھی تھے۔ عظیم پشتو شاعر خوشحال خان خٹک کے شہر میں واقع ا س مدرسہ کے مینار دور سے ہی نظرآتے ہیں۔
مولانا کا دبدبہ اور اثر و رسوخ اس قدر تھا کہ مسجد کے گیٹ کے پاس پارکنگ میں کئی سفارتی پلیٹ والی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ گیٹ پر چیکنگ وغیرہ کے مراحل سے گزرکر ڈیوٹی پر مامور ایک شخص نے ہی مولانا کے دفتر تک راہنمائی کی ۔معلوم ہوا کہ اسلام آباد سے آئے مغربی ممالک کے کئی سفارت کاروں کے ساتھ وہ میٹنگ میں مصروف ہیں ۔خیر اس میٹنگ کے بعد مجھے اندر جانے کی اجازت ملی۔
وہ زمین پر بیٹھے ، غالباً ڈاک چھانٹ رہے تھے اور اسی کے ساتھ ساتھ کارندوں کو ہدایات بھی دے رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے پاس ہی کھڑے ایک نوجوان کو پشتومیں کچھ کہا،اور مجھے اس کے ہمراہ جانے کے لیے اشارہ کیا۔نوجوان مدرسہ کا فارغ التحصیل اور پاس کے کسی شہر میں مفتی تھا، اس نے کہا کہ مولانا نے حکم دیا ہے کہ آپ کو مدرسہ کا ٹور کروانا ہے۔
مدرسہ کے طلبا فخراً بتا رہے تھے کہ طالبان کی موجودہ حکومت کے 90فیصد افراد اسی مدرسے کے فارغین ہیں۔ ملا عمر، ملا عبدالمتوکل ان گنت نام ان کی زبانوں پر تھے۔مدرسے کا ایک علیحدہ بلاک وسط ایشیا کے طلباکے لیے وقف تھا، جہاں 500کے قریب طلبا قران حفظ کرنے میں مصروف تھے۔ گائیڈ بار بار بتا رہا تھا کہ دنیا بھر کا میڈیا ادارہ کے بارے میں الٹی سیدھی خبریں نشر کرتا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ مدرسہ کے احاطہ میں اسلحہ لانے کی سخت ممانعت ہے اور نہ ہی یہ کوئی ملٹری اکیڈیمی ہے، جہاں حرب و ضرب کی تربیت دی جاتی ہو۔
ہم یہاں صرف دینی تعلیم دیتے ہیں۔ فارغ ہونے کے بعد طلبا کیا کریں گے اس کی ذمہ داری کیسے مدرسہ پر عائد ہوتی ہے۔ دیگر اداروں یا یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل اگر کوئی جرم کرتے ہیں تو ادارے کو ذمہ دار تو نہیں ٹھہرایا نہیں جاتا۔
مدرسہ کے ٹور کے دوران افغان طلبا سے بھی بات چیت کا موقعہ ملا۔ ان کا متفقہ موقف تھا کہ ا ن کے ملک کو فی الحال ایسی حکومت چاہئے جو اس کو مستحکم کرے اور امن و امان بخشے۔ گو کہ ابھی امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی نہیں کی تھی، مگر اقتصادی پابندیاں عائد ہوچکی تھیں۔ میزائل اور ڈرون حملوں کی ابتدا ہوچکی تھی۔ میرے گائیڈ اور ا ن طالب علموں کا کہنا تھا کہ افغانستان پر سویت یونین کے حملہ کے بعد یہی مغربی ممالک اس علاقہ میں مدرسوں کی پیٹ تھپتھپا رہے تھے۔
جس کی وجہ سے کلاہ باران کی طرح مدرسہ پھوٹ پڑے۔ نان و شبینہ کو محتاج مولوی حضرات پجارو اور ایسی دیگر عالیشان گاڑیوں میں گھومنے لگے۔ کیونکہ ان ممالک کا خیال تھا کہ دینی تعلیم سے مجاہدین کو روسی فوج سے لڑنے کے لیے اخلاقی ترغیب اور تحریک ملتی ہے۔مدرسہ کی لائبریری، میوزیم جس میں مدرسہ کے بانی مولانا عبد الحق کی دارلعلوم دیوبند کی چند یادیں،قلمی نسخوں کا ذخیرہ و مطبخ دیکھنے اور دیگراساتذہ کے ساتھ ہم کلام ہونے کے بعد واپس مہتمم کے دفتر آپہنچا۔
ظہر کا وقت ہو رہا تھا۔ نماز سے فراغت کے بعد مولانا سمیع الحق مجھے پاس ہی اپنے گھر لے گئے، جہاں انہوں نے پر تکلف پشاوری کھانا تیار کروایا تھا۔ مولانا اس وقت 40رکنی افغان ڈیفنس کونسل کے سربراہ تھے۔ طالبان حکومت پر امریکی اقتصادی پابندیوں کے بعد پاکستان اور افغانستان کے علماء اور دیگر افراد پر مشتمل یہ گروپ تشکیل دیا گیا تھا۔ وہ حال ہی میں قندھار میں طالبان کے سربراہ ملا عمر سے ملاقات کرکے واپس لوٹے تھے۔ وہ ان کو قائل کروارہے تھے کہ اسامہ بن لادن کی سرگرمیوں پر قد غن لگا کر اس کو کسی دیگر ملک میں جانے پر تیار کریں۔
میں نے ان سے پوچھا کہ کہ کیا واقعی وہ افغانستان میں اس قدر اثر و رسوخ رکھتے ہیں؟ و ہ گویا ہوئے کہ مدرسہ کے طالب علم ان کا احترام کرتے ہیں، مگر ملک صرف اساتذہ کے احترام کے بل بوتے پر نہیں چلتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان و امریکہ طالبان کو گفت و شنیدو سفارتی ذرائع سے قائل کروانے کے بجائے زبردستی اور دھونس سے کام لے رہے ہیں اور افغانی اس طرز تکلم کے قائل نہیں ہیں۔
یہ ایک حقیقت تھی کہ مولانا اس وقت دنیا ااور طالبان کے درمیان رابطہ کا واحدذریعہ تھے۔ طالبان کی طرف سے بامیان میں گوتم بدھ کے قد آور اور تاریخی مجسمہ کو مسمار کرنے کی اسوقت دنیامیں چو طرفہ مذمت ہو رہی تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جب ہزار سالوں سے کسی مسلم بادشاہ نے اس کو کبھی ایشو نہیں بنایا۔
مصر میں اہرام ایستادہ ہیں اور سیاحت کاذریعہ ہیں۔ اور اس مجسمہ کی پوجا وغیرہ بھی نہیں ہوتی تھی۔ آخر مسمار کرنے سے کیا حاصل ہوا؟ چند لمحے ٹھہر کر مولانا گویا ہوئے کہ ؛
آپ کو پتہ ہے کہ اس سال جنوری اور فروری میں صرف جلوزئی کیمپ میں 500شیر خوار بچے سردی کی وجہ سے جان بحق ہوئے۔ اقوام متحدہ کے یونسکوکے سربراہ نے افغانستان کا دورہ کرکے بتایا کہ ان مجسموں کی دیکھ ریکھ کے لیے انہوں نے کئی ملین ڈالر کی امداد منظور کی ہے۔ ملا عمر اور طالبان حکومت نے ان کو بتانے کی کوشش کی کہ وہ یہ امداد فی الحال ان کو زندہ انسانوں کو زندہ رکھنے پر خرچ کرنے دیں، جس کو حقارت سے ٹھکرایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان پر غیر ملکی حملہ نہیں ہوتا تو آخر کیوں کوئی ہتھیار اٹھاتا۔ اور پھر اگر روسیوں کی شکست کے بعد مجاہدین اور قبائلی سردار افہام و تفہیم سے حکومت چلانے میں کامیاب ہوتے تو طالبان وجود میں ہی نہیں آتے۔وہ تسلیم کرتے تھے کہ طالبان واقعی کچھ غلطیاں کر رہے ہیں، مگر ان کے ذریعے پوست کی کاشت ختم کرنا، ڈرگ مافیا کی سرکوبی اور ایک بڑے حصہ کو پر امن بنانا ان کے مطابق ان کی سبھی غلطیوں کی پردہ پوشی کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوجیں اگر پیش قدمی کرتی ہیں، تو زیادہ سے زیادہ طالبان کی حکومت کو اکھاڑ دیں گیں، مگر جنگ و جد ل بند کرنے اور امن قائم کروانے میں بری طرح ناکام رہیں گی۔ دیوبند کے ساتھ ان کی عقیدت کا عالم تھا ، کہ جب میں نے بتایا کہ میں کئی بار وہاں جا چکا ہوں اور مدرسہ کے گیسٹ ہاوس میں قیام بھی کر چکا ہو، تو بار بار مدرسہ کے بارے میں حتیٰ کہ دیوبند کے گلی کوچوں کے بارے میں بھی استسفار کرتے رہے۔
میں نے جب اجازت مانگی تو وہ خود گیٹ تک گاڑی میں چھوڑنے آئے، میں نے آخری سوال کیا کہ اتنا بڑا مدرسہ چلانے کے لیے آخر آپ سرمایہ کہا ں سے لاتے ہیں؟ تو مسکرا کر انہوں نے گیٹ کے پاس بیل گاڑیوں اور ٹریکٹروں کی ایک لمبی قطار کی طرف اشارہ کیا جن پراناج لدا ہوا تھا۔ اسی طرح کا نظارہ ہر شام دارلعلوم دیوبند کے باہر بھی دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں دور دور سے مسلم کسان اناج کی بوریا ں مدرسہ کو عطیہ کرنے پہنچے ہوتے ہیں۔
جب میں واپس اسلام آباد کی طرف روانہ ہو رہا تھا ، ڈوبتے ہوئے سورج کی کرنیں مدرسہ میں موجود مسجد کے مینار پر منعکس ہوکر ایک عجیب سا سماں پیدا کر رہی تھیں، جو مولانا سمیع الحق کی مقناطیسی شخصیت سے ہم آہنگ ہو رہی تھیں۔ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی کمی شدت سے محسوس ہوگی۔طالبان میں خاصا اثر ورسوخ رکھنے کے باوجود انہوں نے پولیو ڈراپ کے حق میں فتویٰ جاری کیا۔ فقہ‘ اصول ‘عربی ادب ‘ منطق‘ تفسیر اور حدیث پر انہیں ملکہ حاصل تھا۔ حق مغفرت کرے، عجب آزاد مر د تھا۔
Categories: فکر و نظر