ہندی صحافیوں کی نظر میں اسلام، مسلمان، پاکستان، علی گڑھ، اردو، عربی اور اب کشمیر سب ایک ہی ہیں۔ یہ لوگ کشمیر کے مسئلے کو صرف اور صرف دیش بھکتی کے نظریہ سے دیکھتے ہیں اور کشمیریوں کو ایک الگ مخلوق بنا کر پیش کرتے ہیں۔
اس ہفتے جب یہ خبر آئی کہ گریٹر نوئیڈا میں واقع شاردا یونیورسیٹی کا ایک کشمیری طالب علم احتشام بلال صوفی پڑھائی چھوڑ کر مبینہ طور پرعسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہو گیا ہے تو میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اصل مجرم کون ہے: احتشام؟ اُس پر حملہ کرنے والے طلبا؟ شاردا یونیورسیٹی؟ یا وہ لوگ اور وہ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے جنہوں نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ “اٹوٹ انگ” کہی جانے والی ریاست کے لوگ غیریت کے احساس میں مبتلا ہو گئے ہیں اور ان کی نئی نسل میں انتہا پسندی پروان چڑھ رہی ہے؟
کشمیر سے آنے والے طالب علموں کے ساتھ امتیازی سلوک اور اس پر کشمیریوں کا بھڑکنا اور بعض دفعہ ناخوشگوار واقعات کا رونما ہونا معمول کی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ ہندوستان کے متعدد تعلیمی اداروں میں، خاص کر پنجاب، ہریانہ، دہلی اور اتر پردیش میں کشمیری طالب علموں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اس کی ایک وجہ تو بہتر اور اعلیٰ تعلیم کا حصول ہے اور دوسری وجہ کشمیر کا شورش زدہ ماحول ہے جس سے بچنے کے لئے اکثر والدین اپنی اولادوں کو ریاست کے باہر بھیج دیتے ہیں۔
مگر اسے ان والدین کی بد قسمتی کہیں گے کہ کشمیر سے نکلنے کے باوجود ان کی اولادوں کو قرار نصیب نہیں ہو رہا ہے اور ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں کہ وہ تشدّد پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ کبھی میرٹھ سے، تو کبھی ہسار سے، تو کبھی دہلی سے ان کے ساتھ ہونے والی بد سلوکیوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ابھی چار ہفتے قبل علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی (اے ایم یو) کے ایک طالب علم منّان بشیر وانی کی سیکورٹی ایجنسیز کے ساتھ مڈبھیڑ میں موت کی خبر آئی تھی۔ منّان پی ایچ ڈی کا اسکالر تھا اور اس سال جنوری میں اس نے پڑھائی چھوڑ کر ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔
منّان کے مارے جانے کی خبر سے اے ایم یو میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ وہاں کے کشمیری طلبا تشویش میں مبتلا ہو گئے اور اپنی بے چینی کا اظہار کرنے کے لئے ان کی ایک بھیڑ جمع ہو گئی۔ مگر ان سے بھی زیادہ بے چین یونیورسیٹی انتظامیہ ہو گئی اور چند کشمیری طلبہ کے خلاف ایکشن لے ڈالا۔ گو کہ جلد ہی ایکشن واپس لے لیا گیا مگر ہماری نا مہربان پولیس کو ایک موقعہ مل گیا جس نے ان طلبا پر فوراً ہی ملک سے بغاوت کا مقدمہ ٹھوک دیا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ شاردا یونیورسیٹی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یونیورسیٹی انتظامیہ حد درجہ دباؤ میں ہے اور مقامی پولیس مستعد نظر آرہی ہے۔ یونیورسیٹی کے ایک ذمّہ دار نے استفسار کرنے پر بتایا کہ جن لڑکوں نے 4 اکتوبر کو احتشام پر حملہ کیا تھا ان کے خلاف ایکشن لیا جا چکا ہے۔ “گو کہ احتشام نے ہمارے کہنے کے باوجود کوئی تحریری شکایت نہیں کی اس کے باوجود ہم لوگوں نے ویڈیو میں ان لڑکوں کی شناخت کر کے ان کے خلاف کارروائی کی ہے۔”
قابل ذکر ہے کہ احتشام پر حملہ کشمیری سمجھ کر نہیں بلکہ اسے افغانی جان کر کیا گیا تھا۔ 4 اکتوبر کو جب یہ واقعہ ہوا اس سے ٹھیک پہلے شاردا کے ہندوستانی اور افغانی طلبا کے بیچ جھڑپ ہوئی تھی۔ چونکہ معاملہ غیر ملکی طلبا کا تھا اس لئے یونیورسیٹی انتظامیہ اور مقامی پولیس نے غیر معمولی چستی سے کام لیتے ہوئے اسے جلد ہی قابو میں کر لیا تھا۔ ساڑھے تین سو طلبہ جن میں اکثریت ہندوستانیوں کی ہے کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا اور کئی کو یونیورسیٹی سے برخاست کر دیا گیا تھا۔
احتشام نے اس وقت کوئی خاص رد عمل ظاہر نہیں کیا تھا مگر ایک مہینے کے بعد اس کے ذریعہ مبینہ طور پر ایک انتہائی قدم اٹھانے کے بعد سے یونیورسیٹی انتظامیہ کا بوکھلانا فطری ہے۔2009 میں قائم ہوئی اس پرائیویٹ یونیورسیٹی میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد پڑھتی ہے جس میں ہندوستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ کشمیر کی بھرپور نمائندگی ہے۔ اس کے علاوہ افریقی ممالک سے آنے والے طالب علموں میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیمپس میں نماز پڑھنے کے لئے ایک جگہ مخصوص ہے جہاں پنج وقتہ نماز کے علاوہ رمضان میں تراویح بھی ہوتی ہے۔
میں نے اس یونیورسیٹی میں 6سال تک پڑھایا ہے اس لئے اپنے تجربے کی بنیاد پرکہہ سکتا ہوں کہ یہاں مسلمان لڑکے لڑکیوں کو ہر سطح پر نمائندگی ملتی ہے۔ دو سال قبل تک اسٹوڈنٹ کوآرڈینیٹر جو کہ طلبہ و طالبات کے لئے سب سے بڑی پوسٹ ہے ایک کشمیری مسلمان تھا۔ اس کے علاوہ کشمیری اور مسلمان لڑکے اور لڑکیاں مختلف عہدوں پر فائز ہیں جو جامعہ اور اے ایم یو کے سوا کہیں اور مشکل سے نظر آتا ہے۔
28اکتوبر کو احتشام کا شاردا یونیورسیٹی سے غائب ہونا اور2 نومبر کو وائرل ہوئے ویڈیو میں اس کا ایک جنگجو کے لباس میں دیکھا جانا دنیا کے لئے بس ایک خبر ہے مگر اس کے والدین کے لئے یہ ایک سانحے سے کم نہیں۔ اُسے کتنی امیدوں سے پڑھنے کے لئے گھر سے دور بھیجا گیا ہوگا۔ محض تین مہینے میں وہ ایک ایسی راہ پر نکل پڑا ہے جہاں سے واپس آپانا تقریباً ناممکن ہے۔ احتشام کے والد کا ملٹنٹس کے نام پیغام دل کو رلانے والا ہے: “ہم پر رحم کرو۔ اسے واپس بھیج دو۔ الله تم پر کرم کرے گا۔”
غور کیا جائے تو اس پورے معاملے کی اصل ذمّہ دار ہماری حکومت ہے، ہماری سیاسی پارٹیاں ہیں اور ہمارا میڈیا ہے۔ سب نے مل کر ملک کے ماحول کو مکدّر کر کے چھوڑا ہے۔ان کی غیر ذمّہ دارانہ حرکتوں اور انتخابی سیاست نے عام شہریوں کے بیچ نفرت کی دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔اس کا اثر یونیورسیٹی کمپسیز پر بھی پڑ رہا ہے۔ جن لڑکوں نے احتشام کے ساتھ مار پیٹ کی ان کا اتنا قصور نہیں جتنا کہ اس ماحول کا جو ہم انھیں دے رہے ہیں۔
کشمیر کے حوالے سے مرکزی حکومت کا رویہ، چاہے جس بھی پارٹی کے پاس اقتدار رہا ہو، کبھی بھی مخلصانہ نہیں رہا ہے۔ وہاں بھیجے گئے فوجی اور نیم فوجی دستوں کا سلوک بھی مقامی آبادی کے ساتھ ظالمانہ ہے۔ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی ہے مگر ان کی لڑائی خالص سیاسی ہے۔ اسے مذہبی رنگ دے کر نہ صرف کشمیر مسئلے کو الجھایا گیا ہے بلکہ ملک کی فضا بھی خراب کی گئی ہے۔ بر سر اقتدار بی جے پی کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے کشمیر مسئلے کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ کا ایک تنازعہ بنا دیا ہے جس کا فائدہ اسے جمّوں میں الیکشن جیتنے کی حد تک تو ہو رہا ہے مگر کشمیر ہندوستان سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ بیس سالوں میں پرائیویٹ ٹیلیویژن چینلوں کے ظہور کے بعد سے کشمیر کا مسئلہ اور بھی الجھ گیا ہے۔ گزشتہ بیس سالوں میں ہی ہندی اخبارات کا سرکولیشن غیر معمولی طور پر بڑھا ہے، اور اس حد تک بڑھا ہے کہ ٹائمز آف انڈیا جو کبھی سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہوا کرتا تھا آج گیارہویں نمبر پر آ گیا ہے۔ انڈین ریڈرشپ سروے کی فہرست میں ایک سے لے کر چار تک صرف ہندی کے اخبارات ہیں جن کی مجموعی ریڈرشپ یومیہ بیس کروڑ ہے۔
ہندی کے صحافی عام طور پر نیم خواندہ اور غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ ان کی تحریریں پڑھیے یا ان سے گفتگو کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ ان کی معلومات اور دلچسپی کا دائرہ ہندی پٹی سے آکے بڑھتا ہی نہیں۔ ان کی نظر میں اسلام، مسلمان، پاکستان، علی گڑھ، اردو، عربی اور اب کشمیر سب ایک ہی ہیں۔ یہ لوگ کشمیر کے مسئلے کو صرف اور صرف دیش بھکتی کے نظریہ سے دیکھتے ہیں اور کشمیریوں کو ایک الگ مخلوق بنا کر پیش کرتے ہیں۔
ہندی شمالی ہندوستان میں عوام الناس کی زبان ہے۔ جو کچھ اس زبان میں لکھا اور بولا جا رہا ہے اس سے ہمارے نوجوان متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کا اثر یونیورسیٹیز کی چہار دیواروں میں صاف نظر آرہا ہے۔ شاردا یونیورسیٹی یا دیگر اداروں میں ہونے والے واقعات کو اس سے کاٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ احتشام کے متنفر ہونے کا واقعہ پہلا نہیں ہے۔ نہ ہی یہ آخری ہوگا۔اس پر سنسنی خیز بیانات دینا اور موٹی موٹی سرخیاں لگانا مسئلے کا حل نہیں۔ حل صرف ایک ہے: حکومت کے ذریعہ کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کرنا اور کشمیریوں کے ساتھ ہو رہی نا انصافیوں پر روک لگانا۔
Categories: فکر و نظر