خاص رپورٹ: ظاہری طور پر شیوراج سنگھ چوہان آر ایس ایس کے طے شدہ معیارات سے زیادہ سیکولر لگتے ہیں، لیکن نجی طور پر وہ نریندر مودی کی طرح کٹر ہندوتوا میں یقین رکھتے ہیں۔
بہت سے لوگ اس بارے میں نہیں جانتے ہیں کہ کانگریس رہنما راہل گاندھی سے پہلے ‘ پپّو ‘ کے خطاب سے، مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کا بھی مذاق اسی نام سے بنایا جاتا تھا۔ 2005 میں وزیراعلیٰ بننے سے پہلے ان کے سیاسی کیریئر کے زیادہ تر حصے میں اس لفظ کا استعمال چوہان کا مذاق بنانے کے لئے کیا جاتا تھا، جو ان کے بارے میں پارٹی کے اندر اور باہر عام رجحان کو بیاں کرتا تھا۔لیکن ایک بار ریاست کے سر فہرست عہدے پر پہنچنے کے بعد چیزیں تیزی سے بدلیں۔ بنا کوئی شور کئے کافی کم وقت میں مدھیہ پردیش کے ‘ پپو ‘ کا بدلاؤ ایک نئے اوتار میں ہو گیا۔
حالانکہ اس بات کو لےکر ایک رائے نہیں ہے کہ آخر نئے وزیراعلیٰ کے لئے ‘ ماما ‘ لفظ کا استعمال کس نے کیا، لیکن کئی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ نیا تخلص ان کے لئے چمتکارک ثابت ہوا۔ایک طرف اس نے عوام کی یادوں سے ‘ پپو ‘کے خطاب کو مٹا دیا اور دوسری طرف اس نے چوہان کو ان کے حامیوں کے درمیان مستعد شخص کے طور پر پیش کرنے میں مدد کی، جبکہ ان کے مخالف لگاتار ان کی ناکامیوں کی لمبی فہرست گنا رہے تھے۔
وزیراعلیٰ بننے کے بعد ہر انتخاب میں چوہان نے اپنے نئے نام کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا اور اس کو اپنے ووٹروں سے جڑنے کے طاقتور ذریعہ میں تبدیل کر دیا۔ خاص کر خاتون ووٹروں کے ساتھ (آخر ماما، ماں کا بھائی ہی ہوتا ہے)۔ا ب جبکہ وہ ریاست میں حکومت مخالف جذبات کو لےکر بڑھ رہی بحث کے درمیان اگلے اسمبلی انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں، وہ اپنی سب سے پرکھی ہوئی ترکیب کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے لئے تیار ہیں۔
وہ مدھیہ پردیش میں انتخابی تشہیر کے لئے جہاں بھی جاتے ہیں، ان کی تقریروں کا اختتام ہر بار دو سیدھے سوالوں سے ہوتا ہے-‘ بی جے پی کو جتائیںگے؟ ماما کو وزیراعلیٰ بنائیںگے؟ ‘ ہر سوال کے بعد وہ جواب کے انتظار میں پل بھر کا وقفہ لیتے ہیں اور ہر بار بنا کسی استثنیٰ کے بھیڑ کے ایک حصے کی طرف سے، جو شاید ان کا حمایتی ہوتا ہے، جواب زور دار ‘ ہاں! ‘ کے طور پر آتا ہے۔یہ ‘ ہاں ‘ کیا اتنا زوردار ہے کہ الیکشن کو ان کے حق میں موڑ دے، یہ ابھی بحث کا موضوع ہے۔ ‘ پپّو ‘ سے ‘ ماما ‘ میں چوہان کی تبدیلی میں ایک ایسے شخص کا سفر چھپا ہے، جو اپنی پارٹی کے مختارِ کل وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امت شاہ کے تڑک بھڑک والے انداز سے کافی الگ ہے۔
حالانکہ وہ بھی ہندوتوا کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے ہی کام کر رہے ہیں اور کئی مواقع پر تو وہ اس کو اپنے پارٹی رہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ سپردگی کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن چوہان کی کوشش رہتی ہے کہ لوگوں کی نظر ان پر نہ رہے اور وہ چپ چاپ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے کام کرتے رہیں۔یہ طریقہ ان دنوں سے ہی ان کی پہچان رہا ہے، جب وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ساتھ جڑے اور 1970 کی دہائی میں فعال سیاست میں اترے۔ بھلے ان کو کم کرکے آنکا جا رہا تھا اور ان کے دوستوں کے ذریعے ہی ان کو ‘ پپّو ‘ کہہکر پکارا جا رہا تھا، لیکن وہ مسلسل سیاسی سیڑھیاں چڑھتے گئے۔
46 سال کی عمر میں جب وہ ریاست کے وزیراعلیٰ بنے، تب تک وہ 5بار لوک سبھا ممبر رہ چکے تھے۔ وہ پہلی بار 1991 میں لوک سبھا کے لئے چنے گئے تھے۔ اس کے بعد 2003 کے اسمبلی انتخاب میں اس وقت کے وزیراعلیٰ دگوجئے سنگھ کے ہاتھوں ملی ہار بھی ریاست کے سب سے اونچے عہدے تک ان کے سفر میں رکاوٹ نہیں ڈال سکی۔اس وقت شیوراج سنگھ چوہان منظرنامہ سے تقریباً باہر تھے اور بی جے پی کی مہم کی قیادت فائربرانڈ ہندوتووادی رہنما اوما بھارتی کے ذریعے کیا گیا تھا، جنہوں نے ریاست سے کانگریس کو باہر کرنے میں کامیابی حاصل کی اور وزیراعلیٰ بنائی گئیں۔
لیکن ایک سال کے اندر 1994 کے ہُبلی فسادات کو لےکر اوما بھارتی کے خلاف گرفتاری وارنٹ نکلنے کی وجہ سے ان کو استعفیٰ دینے کے لئے مجبور ہونا پڑا۔ان کے بعد سنگھ کے پرانے قابل اعتماد بابولال گور کو کمان ملی، لیکن وہ بھی زیادہ دنوں تک عہدے پر نہیں بنے رہ سکے۔اور جب ان کی جگہ عمر میں ان سے کافی چھوٹے شیوراج سنگھ چوہان نے لی، تو کسی نے بھی ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا، کیونکہ وہ نہ اوما بھارتی کی طرح مقبول عام تھے اور نہ گور کی طرح تجربہ کار۔
اس وقت تک بی جے پی کا کوئی بھی وزیراعلیٰ، وزیراعلی دفتر میں اپنا وقت پورا نہیں کر پایا تھا۔ چوہان بھی کرسی پر زیادہ دنوں تک ٹک پائیںگے، یہ امید کسی کو نہیں تھی، کیونکہ سب کی نظر میں وہ ایسا کر پانے کے حساب سے کافی کمزور تھے۔انہوں نے بےحد ہچک بھری شروعات کی اور جلد ہی ان کی بیوی سادھنا چوہان کے قصے چرچہ میں آنے لگے کہ اصل حکومت وہ ہی چلا رہی ہیں۔ ان کا نام بعد میں نجی بد عنوانی کے ایک معاملے میں بھی اچھلا۔
ڈنپر گھوٹالہ کے نام سے مشہور کرپشن کا ایک معاملہ 2007 میں لوگوں کے سامنے آیا۔ یہ الزام لگایا گیا کہ وزیراعلیٰ بننے کے بعد سے ہی چوہان نے ریوا ضلع میں کھدائی لیز دینے میں جے پی ایسوسی ایٹس کی طرفداری کرنی شروع کر دی تھی، جہاں کمپنی کی ایک سیمنٹ فیکٹری تھی۔اس کے بدلے میں کمپنی نے چار ڈنپروں کا پیسہ دیا تھا، جن کو سادھنا کے نام سے رجسٹرڈ کرایا گیا اور پھر ان کو ان سے (سادھنا سنگھ سے) لیز پر لیا گیا۔
2008 کے اسمبلی انتخابات میں، یعنی شیوراج سنگھ چوہان کی قیادت میں لڑے جانے والے پہلے انتخاب میں، یہ معاملہ ایک بڑا سیاسی مدعا بنکر ابھرا۔ انتخاب میں ان کی جیت نے اپوزیشن کی بولتی بند کر دی۔ کچھ سالوں کے بعد ثبوتوں کے فقدان میں اس معاملے کو بند کر دیا گیا۔ان شروعاتی جھٹکوں کے خاتمہ کا مطلب یہ بھی تھا کہ چوہان نے بی جے پی کی ریاستی اکائی پر بھی اپنی مضبوط گرفت بنا لی تھی۔ اپنی خوداعتمادی کی طاقت پر انہوں نے نہ صرف وزیراعلیٰ کے طور پر اپنی اگلی مدت کی ویترنی ندی پارکر لی بلکہ انہوں نے انتظامیہ کو بھی زیادہ وابستگی کے ساتھ چلایا۔
2013 میں جب اسمبلی کا انتخاب ہوا، اس وقت ان کی قیادت میں کانگریس کو لگاتار تیسری بار مدھیہ پردیش میں دھول چٹانے میں کوئی زیادہ مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اور اس کے بعد ہندوستان کی سب سے بڑی نوکری یا کہیں بھرتی گھوٹالے ویاپم گھوٹالہ کا بھانڈا پھوڑ ہو گیا۔کچھوے کی رفتار سے ہوئی جانچ اور کورٹ میں بدلتے بیانوں کے بعد کروڑوں کا یہ گھوٹالہ فی الحال ریاست میں انتخابی تشہیر کے مرکز میں ہے۔ اسے نہ صرف بد عنوانی کے معاملے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، بلکہ مختلف سرکاری نوکریوں میں اپنے کیڈروں کی بھرتی کی بی جے پی اور سنگھ کی مشتبہ پالیسی کے حصے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔
اس گھوٹالے میں نہ صرف چوہان سمیت ریاست کے بی جے پی کے بڑے رہنماؤں کے، بلکہ کے ایس سدرشن اور (مشترکہ جنرل سکریٹری) سریش سونی سمیت سنگھ کے سینئر افسروں کے بھی شامل ہونے کا الزام ہے۔لیکن پھر بھی آر ایس ایس کی نظروں میں یہ گھوٹالہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا، کیونکہ اپنی پوری سیاسی زندگی میں چوہان نے سچے سویم سیوک کے طور پر عمل کیا ہے۔ اسکولوں میں سوریہ نمسکار کو لازمی کرنا اور نصاب کے حصے کے طور پر بھگودگیتا کی پڑھائی آر ایس ایس کے ذریعے دکھائے گئے راستے کے تئیں ان کی سپردگی کو ہی بیاں کرتی ہے۔
یہی وہ نظریہ ہے جس کی وجہ سے وہ انتظامیہ کے ہر پہلو میں آر ایس ایس کے سینئر آدمی کو شامل کرتے ہیں اور تمام سینئر تقرریوں اور پوسٹنگوں میں ان سے رائے مشورہ کرتے ہیں۔ظاہری امیج کے حساب سے دیکھیں، تو وہ آر ایس ایس کی قبولیت کے لائق معیارات سے زیادہ سیکولر رہنما نظر آتے ہیں۔مودی کے برعکس چوہان عید کے موقع پر مسلموں کو ٹوپی پہنکر مبارکباد دینے کے لئے جانے جاتے ہیں۔لیکن اپنی نجی زندگی میں وہ مودی کی ہی طرح سخت ہندوتواکے راستے پر چلنے والے ہیں۔
یہ فطری ہی ہے کیونکہ دل سے چوہان آر ایس ایس کے آدمی ہیں، جو اس کے سخت پیشوا اور انسٹی ٹیوشنل ڈسپلن کے تئیں اس کی وابستگی میں خود کو آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔ چونکہ انہوں نے اپنی شخصیت کی مودی کے برعکس ستائش نہیں کی ہے، اس لئے مودی کے مقابلے میں وہ آر ایس ایس کے زیادہ قابل اعتماد ہیں۔آر ایس ایس ریاست میں جو بھی کرنا چاہتا ہے، اس کی حمایت کرنا ان کی طاقت کا ماخذ ہے اور یہ بات ان کو معلوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2016 کے آس پاس جب ویاپم گھوٹالہ کا کافی تذکرہ تھا اور ان کی حالت کافی ڈانوا ڈول نظر آ رہی تھی، چوہان نے ریاست کو چلانے میں سنگھ کے حمایتی سادھوؤں کو شامل کرنا شروع کیا۔
اسی سال انہوں نے سنگھ کے سابق کیمپنر سوامی اکھلیشورانند گری کو ریاستی گئورکشا بورڈ کا صدر بنایا۔ کچھ مہینوں کے بعد چوہان نے سادھوؤں کی ایک کمیٹی بنائی، جس کا مقصد اعلانیہ طور پر نرمدا کے کنارے کنارے پر پیڑ لگانا، صفائی اور آبی تحفظ کو بڑھاوا دینا تھا۔ لیکن اس کا اصل مقصد آنے والے اسمبلی انتخابات میں ہندو مذہبی رہنماؤں کی اپیل سے استفادہ کرنا تھا۔اس سال اپریل میں، ریاستی کمیٹی کے ممبران سوامی نام دیو تیاگی عرف کمپیوٹر بابا، بھیوجی مہاراج، سوامی نرمدانند، سوامی ہری ہرنند اور پنڈت یوگیندر مہنت (جن سب پر آر ایس ایس کا ہاتھ تھا) کو ریاستی وزیر کا درجہ دیا گیا۔ دو مہینے بعد اکھلیشورانند کو بھی یہ درجہ دے دیا گیا۔
اسی دلیل سے ریاست میں الیکشن کمیشن کا ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ نافذ ہونے سے محض کچھ دن پہلے چوہان نے گئو-منسٹری کی تشکیل کا اعلان کیا، جو مدھیہ پردیش میں گئورکشا بورڈ کی جگہ لےگا۔ اس بورڈ کے صدر اکھلیشورانند نے گایوں کی خاص دیکھ بھال کے لئے الگ سے ایک وزارت کی تشکیل کی سفارش کی تھی۔چوہان کی جیت ملک کے پہلے گئو-وزارت کی بنیاد رکھےگی، لیکن ہار-ایک ایسے وقت میں جب مودی اور شاہ پارٹی میں کسی تیسرے رہنما کو آزادانہ طورپر بڑھنے دینے کی اجازت نہ دینے کے لئے پرعزم دکھائی دے رہے ہیں-چوہان کو پھر سے ‘ پپّو ‘ کے درجے میں واپس بھیج سکتی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر