خبریں

سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی، آر بی آئی نے 3 سال بعد بھی نہیں بتایا ٹاپ 100 ڈیفالٹرس کے نام

اسپیشل رپورٹ : سپریم کورٹ نے تین سال پہلے دسمبر 2015 میں آر بی آئی کی تمام دلیلوں کو خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آر بی آئی ملک کے ٹاپ 100 ڈیفالٹرس کے بارے میں جانکاری دے اور اس سے متعلق اطلاع ویب سائٹ پر اپلوڈ کرے۔

FILE PHOTO: A security personnel member stands guard at the entrance of the Reserve Bank of India (RBI) headquarters in Mumbai, India, August 2, 2017. REUTERS/Shailesh Andrade/File Photo

(فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: ریزرو بینک آف کا انڈیا(آر بی آئی)نے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکم کے تین سال بعد بھی ملک کے ٹاپ 100 ڈیفالٹرس کے بارے میں جانکاری نہیں دی ہے اور نہ ہی اس سے متعلق کوئی اطلاع اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کی ہے۔اس معاملے میں درخواست گزار پی پی کپور نے دی وائر کو یہ جانکاری دی ہے کہ کورٹ کے حکم کے باوجود آر بی آئی نے ان کو مانگی گئی جانکاری نہیں دی ہے۔

سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے 16 دسمبر، 2015 کو آر بی آئی کی تمام دلیلوں کو خارج کرتے ہوئے سینٹرل انفارمیشن کمیشن کے اس فیصلے کو صحیح ٹھہرایا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ آر بی آئی ملک کے ٹاپ-100 ڈیفالٹرس کے بارے میں جانکاری دے۔آر بی آئی نے کہا تھا کہ ڈیفالٹرس کے بارے میں جو جانکاری بینکوں کے ذریعے بھیجی جاتی ہے اس کو بھروسہ مند اختیارات میں رکھی جاتی ہے اور یہ اطلاع خفیہ ہوتی ہے۔اس لئے یہ جانکاری آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8 (1) (ای) کے تحت نہیں دی جا سکتی ہے۔

حالانکہ اس وقت کے سینٹرل انفارمیشن کمشنر شیلیش گاندھی نے 15 نومبر 2011 کو اپنے فیصلے میں آر بی آئی کی ان دلیلوں کو خارج کر دیا تھا اور حکم دیا کہ آر ٹی آئی درخواست گزار کو مانگی گئی تمام جانکاری مہیا کرائی جائے۔ہریانہ کے پانی پت کے رہنے والے پی پی کپور نے 16 اگست 2010 کو آر ٹی آئی درخواست دائر کرکے ملک کے 100 سب سے بڑے بینک ڈفالٹر صنعت کاروں کا نام، پتہ، فرم، قرض کی اصل رقم، قرض پر سودکی رقم، اصل قرض رقم + کل سود کی رقم سمیت کل ادائیگی رقم کی جانکاری مانگی تھی۔

کپور نے یہ بھی پوچھا تھا کہ بینک ڈیفالٹرس کی فہرست بینکوں کی ویب سائٹ پر ڈالنے کے بارے میں کیا کیا جا رہا ہے اور یہ کب تک ہوگا۔  حالانکہ آر بی آئی نے ان سوالوں پر جانکاری نہیں دی اور اس کی وجہ سے پی پی کپور نے آر ٹی آئی معاملات کو دیکھنے والے سب سے بڑے ادارہ سی آئی سی کا رخ کیا۔کمیشن نے مانا کہ یہ تمام جانکاریاں مفاد عامہ میں ہیں اور اس کو  عوام کو دی جانی چاہیے۔  حالانکہ آر بی آئی اس حکم کے خلاف ہائی کورٹ گیا اور کورٹ نے اس حکم پر روک لگا دی۔

اس کے بعد سال 2015 میں ریزرو بینک آف انڈیا بنام جینتی لال این مستری معاملے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس ایم وائی اقبال اور جسٹس سی نگپّن نے کئی سارے دیگر معاملات کو ملاکر، جس میں سی آئی سی کا یہ حکم بھی شامل تھا، لمبی بحث کی اور سی آئی سی کے حکم کو صحیح ٹھہرایا۔

سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران کہا، ‘آر بی آئی کو کچھ چنندہ بینکوں کے مفاد کی جگہ مفاد عامہ کو ترجیح دینی چاہیے۔  بینک کو شفافیت کے ساتھ کام کرنا چاہیے اور ایسی اطلاعات کو نہیں چھپانا چاہیے جو کہ کسی بینک کے لئے قابل اعتراض ثابت ہو سکتا ہے۔آر بی آئی کی یہ دلیل بالکل بےبنیاد اور غلط ہے کہ ایسی اطلاعات کو عام کرنے سے ملک کے اقتصادی مفادات پر اثر پڑے‌گا۔  ‘

پی پی کپور نے دی وائر کو بتایا کہ اس فیصلے کے بعد بھی ابھی تک آر بی آئی نے ان کو ضروری جانکاری نہیں دی ہے۔انہوں نے کہا، ‘یہ ملک کے عوام کے پیسے کی جانکاری ہے لیکن آر بی آئی اس کو چھپا رہی ہے۔  سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بھی ابھی تک مجھے مانگی گئی جانکاری نہیں ملی ہے۔  میں نے ایک دیگر آر ٹی آئی دائر کرکے یہی اطلاع اور سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل رپورٹ کے بارے میں جانکاری مانگی لیکن ضروری جانکاری نہیں ملی۔  ‘

سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے حال ہی میں اپنے ایک فیصلے میں اسی طرح کی جانکاری نہیں دینے کی وجہ سے آر بی آئی گورنر ارجت پٹیل کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا ہے۔کمیشن نے اپنے 2 نومبر کے فیصلے میں پی پی کپور کے معاملے کو بھی بےحد سنجیدگی سے  لیا ہے اور آر بی آئی کو ہدایت دی ہے کہ 5 دن کے اندر وہ ثبوت کے ساتھ بتائیں کہ اس معاملے میں انہوں نے کیا کیا ہے۔سینٹرل انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو نے کہا،’اگر آر بی آئی جیسے بینکنگ ریگولیٹری آئینی اداروں کی ہدایات کی عزت نہیں کریں‌گے، تو قانون کی حکومت کو محفوظ کرنے پر آئین کا کیا اثر ہوگا؟ ‘

کمیشن نے اس بات پر حیرانی جتائی کہ آر بی آئی نے ڈیفالٹرس کے بارے میں اطلاع نہیں دینے کے لئے انہی دلیلوں کا سہارا لیا جس کو سال 2015 میں سپریم کورٹ نے سرے سے خارج کر دیا تھا۔

RBI-Bank-Defaulter-1

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آر بی آئی نے پی پی کپور کو جو جواب بھیجا تھا اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ دسمبر 2014 کے بعد سے بینک/financial institution defaulters (قرض نہیں چکانے والے)اور ول فل ڈیفالٹرس (جان-بوجھ‌کر قرض نہیں چکانے والے) کی جانکاری سیدھے کریڈٹ انفارمیشن کمپنیوں کو بھیجتے ہیں، آر بی آئی کو نہیں۔  اس لئے ہم یہ جانکاری نہیں دے سکتے ہیں۔

آر بی آئی کے ذریعے سی آئی سی کو دیا گیا جواب۔

آر بی آئی کے ذریعے سی آئی سی کو دیا گیا جواب۔

حالانکہ گزشتہ2 نومبر کو ہوئی سماعت میں سی آئی سی کے سامنے دلیلیں پیش کرتے ہوئے آر بی آئی نے یہ قبول کیا ہے کہ بینک/financial institution defaultersاور ول فل ڈیفالٹرس کی جانکاری سیدھے کریڈٹ انفارمیشن کمپنیوں کو بھیجتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آر بی آئی کے پاس ان کی جانکاری نہیں ہوتی ہے۔  آر بی آئی کے افسر نے کہا کہ ان کے پاس اس سے متعلق جانکاری ہوتی ہے۔

بتا دیں کہ اس وقت ریزرو بینک کے ذریعے تصدیق شدہ چار کریڈٹ انفارمیشن کمپنیاں ہیں۔  ان کے نام ہیں:کریڈٹ انفارمیشن بیورو(انڈیا)لمیٹڈ، اکوفیکس کریڈٹ انفارمیشن سروسز  پرائیویٹ لمیٹڈ، ایکسپیرین کریڈٹ انفارمیشن کمپنی آف انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ اور سی آر آئی ایف ہائی مارک کریڈٹ انفارمیشن سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ۔

پی پی کپور نے سی آئی سی کے حالیہ فیصلے کے بعد انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو کو آر بی آئی کے ذریعے حکم کی خلاف ورزی کو لےکر خط لکھا ہے۔اس سے پہلے گزشتہ 2 نومبر کو سی آئی سی نے وزیر اعظم دفتر (پی ایم او)، وزارت خزانہ اور ریزرو بینک کو یہ جانکاری دینے کا حکم دیا کہ آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن کے ذریعے بھیجے گئے این پی اے کے بڑے گھوٹالےبازوں کی فہرست پر کیا قدم اٹھایا گیا ہے۔

دی وائر نے آر ٹی آئی دائر کرکے یہ جانکاری حاصل کی تھی کہ آر بی آئی، پی ایم او اور وزارت خزانہ رگھو رام راجن کے ذریعے بھیجے گئے این پی اے کے بڑے گھوٹالےبازوں کی فہرست نہیں دے رہے ہیں۔ سینٹرل انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو نے دی وائر کی رپورٹ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے رگھو رام راجن کی فہرست پر کیا قدم اٹھایا گیا ہے، اس کے بارے میں 16 نومبر 2018 سے پہلے تک کی جانکاری دینے کے لئے کہا ہے۔

حالانکہ ریزرو بینک نے 26 نومبر تک جواب دینے کے لئے وقت مانگا ہے۔  ایسا مانا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ اب ٹھنڈے بستے میں جا سکتا ہے کیونکہ انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو ریٹائر ہونے والے ہیں اور ان کی مدت کار کا آخری دن 20 نومبر ہے۔رگھو رام راجن نے 4 فروری 2015 کو این پی اے کے بڑے گھوٹالےبازوں کے بارے میں وزیر اعظم دفتر کو خط لکھا تھا اور کارروائی کرنے کی مانگ کی تھی۔  راجن نے صرف وزیر اعظم دفتر ہی نہیں، بلکہ وزارت خزانہ کو بھی یہ فہرست بھیجی تھی، جس کے مکھیا مرکزی وزیر ارون جیٹلی ہیں۔