فرانس میں ایک ادارےنے رافیل سودے میں ممکنہ بد عنوانی کی شکایت درج کراتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ ہوئے 36 رافیل ہوائی جہازوں کے سودےاور ریلائنس کو آف سیٹ پارٹنر کے بطور چنے جانے پر وضاحت مانگی ہے۔
نئی دہلی: ملک میں رافیل کو لےکر مچے گھماسان کے بعد فرانس میں بھی اس سودے کو لےکر سوال کھڑے ہو گئے ہیں۔ مالی جرائم کے خلاف کام کرنے والے ایک ادارے نے فرانس کے اقتصادی مدعی (نیشنل فائننشیل پراسیکیوٹر) کے دفتر میں رافیل سودے میں ممکنہ بد عنوانی کو لےکر شکایت درج کروائی ہے۔ جمعہ کو فرنچ ویب سائٹ میڈیاپارٹ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق خود کو مالی جرائم کے خلاف لڑنے والے ایک قانونی ادارے شیرپا نے اکتوبر کے آخری ہفتے میں پراسیکیوٹر کے آفس میں رافیل سودے کو لےکر شکایت درج کروائی ہے۔
اس شکایت میں یہ پوچھا گیا ہے کہ ‘ 2016 میں داسو ایویشن بنائے 36 لڑاکو ہوائی جہاز ہندوستان کو دینے کا سودا کن شرطوں پر ہوا ‘ اور ‘ ہندوستانی ساجھےدار کے طور پر ریلائنس کو کیوں چنا گیا۔ ‘ شیرپا کی شکایت میں فرانس حکومت کی اس ایجنسی سے اس سودے میں ‘ فرانس اور داسو ایویشن کے ذریعے کئے ممکنہ بد عنوانی، غیر مناسب فائدہ لینے، اثر کا فائدہ لینے اور منی لانڈرنگ کی جانچ ‘ کی مانگ کی گئی ہے۔
میڈیاپارٹ کی خبر کے مطابق شیرپا کے بانی ولیم بورڈوں نے کہا، ‘ ہر بات اشارہ کرتی ہے کہ یہ بہت ہی سنگین معاملہ ہے۔ نیشنل فائننشیل پرکوے (فرانس میں قانونی انتظامیہ میں مجرمانہ معاملے دیکھنے والے افسر) کو جو حقائق بتائے گئے ہیں، ان کی بنیاد پر جلد سے جلد جانچ شروع ہونی چاہیے۔ رافیل ڈیل کو لےکر حزب مخالف کے ذریعے لگائے جا رہے الزامات پر وزیر دفاع نرملا سیتارمن نے حکومت کا بچاؤ کیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات میں تشہیر کے لئے پہنچی وزیر دفاع نرملا سیتارمن نے ایک سوال کے جواب میں کہا، ‘ ہم نے بنا دلالی کے رافیل سودا کیا ہے۔ اس سے پہلے دفاعی سودوں میں وزارت دفاع میں کبھی ایسی شفافیت نہیں تھی۔ ‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کانگریس یہ بات اچھی طرح سے جانتی ہے، لیکن پھر بھی وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے یہ مدعا اٹھا رہی ہے۔
کیا ہوا ہے ابتک
واضح ہو کہ شروعات سے ہی رافیل ڈیل کئی تنازعوں سے گھرا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں داسو ایویشن کے سی ای او ایرک ٹریپیئر نے ریلائنس کے ساتھ ہوئے قرار کو لےکر لگے الزامات پر صفائی بھی دی تھی کہ ریلائنس کو انہوں نے ہی چنا تھا۔ ستمبر 2017 میں ہندوستان نے قریب 58000 کروڑ روپے کی لاگت سے 36 رافیل لڑاکو ہوائی جہازوں کی خرید کے لئے فرانس کے ساتھ انٹرگورمنٹل سمجھوتہ پر دستخط کئے تھے۔
اس سے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پیرس سفر کے دوران اس تجویز کا اعلان کیا تھا۔ ان ہوائی جہازوں کی فراہمی ستمبر 2019 سے شروع ہونے والی ہے۔ اس سودے کے بعد سے ہی لگاتار اس پر سوال کھڑے ہوتے رہے ہیں اور اس پر بڑا تنازعہ پیدا ہو چکا ہے۔ الزام لگے کہ سال 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے اس ڈیل میں کی ہوئی تبدیلیوں کے لئے ڈھیروں سرکاری اصولوں کو طاق پر بھی رکھا گیا۔
یہ تنازعہ اس سال ستمبر میں تب اور گہرایا جب فرانس کے میڈیا میں ایک خبر آئی، جس میں سابق فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے کہا کہ رافیل قرار میں ہندوستانی کمپنی کا انتخاب نئی دہلی کے اشارے پر کیا گیا تھا۔ اولاند نے ‘ میڈیاپارٹ ‘ نام کی ایک فرنچ ویب سائٹ سے کہا تھا کہ حکومت ہند نے 58000 کروڑ روپے کے رافیل قرار میں فرانسیسی کمپنی داسو کے ہندوستانی ساجھےدار کے طور پر صنعت کار انل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کے نام کی تجویز دی تھی اور اس میں فرانس کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔
ہندوستان میں حزب مخالف پارٹیوں نے اولاند کے اس بیان کے بعد مرکز کی نریندر مودی حکومت کو گھیرا اور اس پر قرار میں بھاری بدانتظامی کرنے کا الزام لگایا۔ رافیل ڈیل پر فرانس کے سابق صدر اولاند کے بیان کے بعد ہندوستان میں بھاری سیاسی تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ اولاند نے کہا تھا کہ رافیل فائٹر جیٹ باننے والی کمپنی داسو نے آفسیٹ شراکت دار کے طور پر انل امبانی کی ریلائنس ڈیفنس کو اس لئے چنا کیونکہ حکومت ہند ایسا چاہتی تھی۔
کانگریس کی قیادت میں حزب مخالف پارٹیوں نے الزام لگایا کہ مودی حکومت نے ایئرو اسپیس سیکٹر میں کوئی سابق تجربہ نہیں ہونے کے بعد بھی ریلائنس ڈیفنس کو ساجھےدار چنکر امبانی کی کمپنی کو فائدہ پہنچایا۔ حالانکہ فرانس کے سابق صدر کے اس بیان پر حکومت ہند کی طرف سے بھی فوراً رد عمل آیا تھا، جس میں کہا گیا کہ اولاند کے بیان کی تفتیش کی جا رہی ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کاروباری سودے میں حکومت کا کوئی رول نہیں ہے۔
وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ اولاند اس سودے پر متضاد بیان دے رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا، ‘ انہوں نے (اولاند) بعد میں اپنے بیان میں کہا کہ ان کو اس کی جانکاری نہیں ہے کہ حکومت ہند نے ریلائنس ڈیفنس کے لئے کوئی مشورہ دیا۔ شراکت داروں کا انتخاب خود کمپنیوں نے کیا۔ سچائی دو طرح کی نہیں ہو سکتی ہے۔ ‘
حالانکہ، بعد میں فرانس حکومت اور داسو ایویشن نے سابق صدر کے پہلے دئے بیان کو غلط ٹھہرایا تھا۔ اولاند کے بیان کے کچھ وقت بعد فرانس کے موجودہ صدر ایمینویل میکروں نے کہا کہ رافیل قرار ‘ حکومت سے حکومت ‘ کے درمیان طے ہوا تھا اور جب اربوں ڈالر کا یہ قرار ہوا، اس وقت وہ اقتدار میں نہیں تھے۔ مئی 2017 میں فرانس کے صدر بنے میکروں نے گزشتہ ستمبر کے آخری ہفتے میں اقوام متحدہ مہاسبھا کے سیشن سے الگ ہوئی ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بتایا، ‘ میں بہت صاف صاف کہوںگا۔
یہ حکومت سے حکومت کے درمیان ہوئی بات چیت تھی اور میں صرف اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہوںگا جو گزشتہ دنوں وزیر اعظم (نریندر) مودی نے بہت واضح طور پر کہی۔ مجھے اور کوئی تبصرہ نہیں کرنا۔ میں اس وقت عہدے پر نہیں تھا اور میں جانتا ہوں کہ ہمارے اصول بہت واضح ہیں۔ ‘ اس کے بعد اکتوبر میں ‘ میڈیاپارٹ ‘ نے داسو ایویشن کے دستاویز کے حوالے سے بتایا کہ رافیل کی ڈیل حاصل کرنے کے لئے داسو کے انل امبانی کی ریلائنس ڈیفنس سے پارٹنرشپ بنانا ‘ ضروری ‘ تھا۔ اس رپورٹ کے بعد داسو کی طرف سے صفائی دی گئی کہ ایسا نہیں ہے اور اس نے بنا کسی دباؤ کے ریلائنس کو چنا تھا۔
Categories: خبریں