پروفیسر ریاض الرحمن شیروانی یوں تو عربی زبان و ادب کے پروفیسر رہے ہیں لیکن ان کی اردو نثر مفرس اور معرب نہیں ہے بلکہ سادگی اور برجستگی کا خاص خیال رکھا ہے۔ آج کے خبر نویسوں اور کالم نویسوں کو اس کتاب کامطالعہ لازمی طور پر کرنا چاہیے۔
اردومیں ہندوستان کے سیاسی،سماجی،تعلیمی مسائل پراپنی نوعیت کی یہ اکیلی،انوکھی اوردلچسپ کتاب ہے۔مصنف نے 1951 سے 2015 تک کےمضامین، کالم، خطوط وغیرہ مختلف اردو اخباروں میں لکھے تھے،ان سبھی کو یکجا کر دیا ہے، اس سے قبل ان کی کئی تصنیفات آ چکی ہیں جن میں ان کی آپ بیتی،دھوپ چھاؤں،کتابوں کے درمیان، اورمقالات ریاض شیروانی کو قابل ذکر ہیں۔
مصنف کا براہ راست مولانا آزاد، گاندھی جی، نہرو جیسے لوگوں سے تعلق رہا ہے اور کئی ایسے بڑے رہنمامصنف کی علی گڑھ میں ان کے مہمان رہ چکے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے تاریخ ساز حضرات سےان کے مراسلے و مکالمے رہے ہیں۔ پروفیسر شیروانی کی عمر اب تقریباً 100 سال کو پہنچ رہی ہوگی۔ اس لمبی عمر میں انہوں نے بر صغیر کی اجتماعی عہد میں متعدد نشیب و فراز کو علمی گہرائی کے ساتھ اور بصیرت افروز دانشور کی حیثیت سے دیکھا ہے، پرکھا ہے اور پھر اس پر خامہ فر سا ئی بھی کی ہے۔
اس کتاب کے بارے میں ایک اہم بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ آزاد ہندوستان کی سیاسی تاریخ لکھنے والا محقق اگر اس سے رو گر دانی کر جائےتو عین ممکن ہے کہ اس کی تصنیف میں کئی اہم ترین پہلواچھوتے رہ جا ئیں۔ اس دعوے کی دلیل میں اس ضخیم کتاب کے 17 مختلف ابواب کو یہاں من و عن پیش کیاجاتا ہے؛مسلمانان ہند کے مسائل، (44مضامین)،عالمی مسائل، (20 مضامین)،ملکی مسائل، (12 مضامین)،قومیت، جمہوریت، سیکولرازم، (12 مضامین)،فرقہ واریت، (14 مضامین )،فرقہ وارانہ فسادات، (12 مضامین)،تقسیم ہند (8 مضامین)،ہند و پاک تعلقات (5 مضامین)مسئلہ کشمیر (4 مضامین)، اس میں وہ کہتے ہیں؛میرے خیال سے اس کا ہندوستان میں رہنا خود کشمیریوں کے مفاد میں ہے، البتہ اسے بگاڑنے میں خود ہماری غلطیوں کو بھی بہت دخل رہا ہے۔بابری مسجد کا انہدام (6 مضامین)،اردو زبان (5 مضامین)،سر سید اور علی گڑھ (3مضامین)،مولانا آزاد (5 مضامین)،خود نوشت (ڈائری کے چند اوراق)،سفر نامہ (6 مضامین)
اسی طرح وفیات میں؛آزادی کے بعد سیاسی و ادبی اہمیت کی حامل عظیم شخصیتوں کی وفات پر تعزیتی مضامین، جن کی تعداد28 ہے، اور ان میں تنوع کا یہ عالم ہے کہ نہرو، آزاد، مدنی، کے علاوہ آچاریہ نریندر دیو، گووند سہائے، فیروزگاندھی، محمد حبیب، سید محمود، کے جی مشرو والا، جیسی شخصیات بھی شامل ہیں۔آزادی کے بعد، شروع کی دہائیوں میں، ان کے بیشتر مضامین، شذرات، خطوط، rejoinders, وغیرہ،مدینہ(بجنور)، دو روزہ جمہور، ہفتہ وار دوست، ہفتہ وارپرچم ہند، روزنامہ قومی آواز،ملک و ملت،جیسے اخباروں میں شائع ہوئے ہیں۔ 1949 اور 1950 کے کچھ مضامین ہفت روزہ نیا ایشیا (علی گڑھ)، اورنیا ہندوستان(علی گڑھ) میں شائع ہوئے ہیں۔
1970 اور بعد کی دہائیوں میں مذکورہ اخبارات کے علاوہ انہوں نے ماہ نامہ سیکولر ڈیمو کریسی، سہ روزہ الجمیعت، پندرہ روزہ احتساب،پندرہ روزہ گوشوارہ(روڑکی)،ہفتہ وارسچ رنگ،نئی دنیا،راشٹریہ سہارا، ہفتہ وارسب ساتھ، جرس(علی گڑھ)،حال(پٹنہ)،بلٹز(بمبئی)،وغیرہ میں شائع ہوئے ہیں۔غرض کہ اس فہرست سے آزاد ہندوستان میں اردو صحافت کی تاریخ لکھنے میں بھی مدد لی جا سکتی ہے کہ کیسے کیسے اردو اخبارات وجود میں آئے اور پھر بند بھی ہو گئے۔پروفیسر ریاض الرحمن شیروانی یوں تو عربی زبان و ادب کے پروفیسر رہے ہیں لیکن ان کی اردو نثر مفرس اور معرب نہیں ہے بلکہ سادگی اور برجستگی کا خاص خیال رکھا ہے۔ آج کے خبر نویسوں اور کالم نویسوں کو اس کتاب کامطالعہ لازمی طور پر کرنا چاہیے۔
بے باکی کے باوجود چند اہم موضوع کی جانب شاید ان کی توجہ مبذول نہ ہو سکی۔ شاہ بانو سے متعلق تنازعہ، ایمرجنسی اور اس کی مزاحمت، اور مسلمانوں کے اندر ذات پات۔ البتہ مسلمانوں کے ان گروہوں کی قلعی بہت اعتدال مگر چابک دستی کے ساتھ کھولی ہے جن مسلمانوں کو آزاد ہندوستان کی سیکولر جمہوری آئیڈیا لوجی سے پرہیزرہا ہے۔کئی مضامین انہوں نے الیکشن کے موقعوں سے بھی لکھے تھے۔ 1969 کی اسمبلی انتخابات کے وقت، 7جنوری کے ایک مضمون میں ان کی اپیل کا اقتباس موزوں ہوگا؛
میری اپیل رائےدہندگان سے یہ ہے کہ وہ مذہب و ملت ذات پات جماعت، ذاتی تعلقات اور اس طرح کے دوسرےتصورات سے اوپر اٹھ کر ایسے امیدواروں کو ووٹ دیں جن کی واضح قومی خدمات ہوں…جو فرقہ پرستی سےبالاتر ہوں، جو ایمان دار اور با صلا حیت ہوں، اور جو واقعی ہمارے دکھ درد کا مساوات کر سکیں یہ نہ ہو کہ وہ صرف ہاتھ اٹھانے کے لیے اسمبلی میں جانا چاہتے ہوں۔ (ص:232)
اسی ضمن میں دوسرے کالم بہ عنوان،یہ سیکولر جماعتیں ! 1970، کا اقتباس کئی عقدےکھولتے ہو آج کے مسائل کی عکاسی اور وضاحت کرتا ہے:
حال میں ملک میں بعض ایسے واقعات پیش آئے ہیں جنہوں نے ہماری اکثر سیکولر کہی جانے والی جماعتوں کابھرم پوری طرح کھول دیا ہے اور جو لوگ واقعی سیکولرزم میں عقیدہ رکھتے ہیں انہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا ملک میں اس وقت کوئی جماعت بھی ایسی ہے جس پر اس سلسلے میں بھروسہ کیا جا سکے۔تنظیم کانگریس نے جس ڈھٹائی سے اپنے بنیادی اصولوں کو پس پشت ڈال کر جن سنگھ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنےکا اعلان کیا ہے وہ موقع پرستی کی بد ترین مثال ہے۔(ص:233)
اس ضمن میں انہوں نے مرارجی دیسائی اور اشوک مہتہ اور راجہ گوپال آچاریہ کو بھی بے نقاب کیا ہے اور ان لیڈروں کے اس موقف پر پروفیسر شیروانی نے اظہار افسوس کیا ہے۔وہ خود اپنے بارے میں اعتراف کرتے ہیں ؛
میں زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست میں دلچسپی لے رہا ہوں ۔اس بارے میں میرا ذہن صاف رہا ہے کہ مذہب اور وطن کے تقاضوں میں تصادم محض خیالی چیز ہے۔ حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ دونوں کے حدود اگر پیش نظر رہیں تو آدمی ذہنی کشمکش سے محفوظ رہتا ہے۔اسی کو سیکولرزم کہتے ہیں ۔ اسلام میں شوری پر اصرار ملوکیت اور آمریت کو اس سے خارج کر دیتا ہے۔ آج کی دنیا میں پارلیمانی جمہوریت شوری سے سب سے زیادہ قریب ہے۔ (صفحات 16-15)
اخیر میں یہ بھی کہا جانا چاہیے کہ اردو زبان میں تاریخ، سیاست، اور عصری مسائل پر شاید ہی کوئی دوسری اتنی عمدہ کتاب دستیاب ہوگی۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اردو قارئین اس کتاب کی جانب نہ صرف متوجہ ہوں گے بلکہ اس کے مطالعے سے انہیں لکھنےکی تحریک بھی ملے گی۔
(تبصرہ نگار علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے شعبہ تاریخ میں پروفیسر ہیں۔ )
Categories: ادبستان