گراؤنڈ رپورٹ

تلنگانہ انتخابات: مسلمانوں کا رخ کس طرف ہے؟

 مسلم ووٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کو چھوڑ کر تمام تر سیاسی پارٹیاں اپنے حق میں ووٹ ڈلوانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔

KCR_Etemad

فوٹو : اعتماد

حیدرآباد /نئی دہلی : دسمبر کی 7 تاریخ کو تلنگانہ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ریاست کے مسلمان کس کو ووٹ دیں گے ؟اس پر لوگوں کی رائے منقسم نظر آ رہی ہے۔ جہاں ایک طرف مسلمان  کانگریس – تیلگو دیشم (ٹی ڈی پی )اتحاد کے حق میں ووٹنگ کرنے کی بات کر رہے ہیں، وہیں آدھے لوگ ابھی بھی حکمراں جماعت تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس) کو دوبارہ موقع دینے کے حق میں ہیں۔

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد میں اسسٹنٹ پروفیسر عبد لطٰہٰ کا کہنا ہے کہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے اس بار ہمارے رشتے داروں میں اس میں اتفاق نہیں کہ کس کو ووٹ دیا جائے۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ؛ جہاں ایک طرف میرے آدھے رشتہ دار کانگریس – ٹی ڈی پی کے حق میں ہیں، وہیں دوسری طرف آدھے ٹی آر ایس کو ووٹ دینے کی بات کر رہے ہیں۔ان کے مطابق، ان کے رشتہ داروں کی رائے کم و بیش ریاست کے زیادہ تر مسلمانوں کی موجودہ سیاسی صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔ واضح ہو کہ حیدرآباد میں رہنے والے طٰہٰ کے رشتے دار مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی والے اضلاع محبوب نگر، نالگونڈہ  اورکھمم  میں رہتے ہیں۔

تیلگو ادیب اور سماجی کارکن یوسف باوا کا بھی ماننا ہے کہ مسلم ووٹ بنٹا ہوا نظر آ رہا ہے۔ انہوں دی وائر کو بتایا کہ؛ مسلمان بیک وقت خوش بھی ہیں اور ناراض بھی۔ خوشی کی وجہ یہ ہے کہ ٹی آر ایس حکومت  نے اقلیتوں کے لئے، خاص طور پر مسلمانوں کے لئے رہائشی انگریزی میڈیم اسکولز کھولے، شادی مبارک اسکیم شروع کی اور ایک مسلمان کو نائب وزیر اعلیٰ بنایا۔ غصہ کی وجہ ٹی آر ایس اور اس کے رہنما کے سی آر کی بی جے پی سے قربت ہے۔

congress-telangana-pti

فوٹو : پی ٹی آئی

غور طلب ہے کہ جو لوگ ٹی آر ایس کے حق میں ووٹ ڈالنے کی بات کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے مسلمانوں کے لئے خاطرخواہ کام کیا ہے، اس لئے ان کو دوبارہ موقع دیا جانا چاہئے۔ وہ اس ضمن میں شادی مبارک، اقلیتوں کے بجٹ میں اضافہ اور مائنوریٹی اسکولز اور اوورسیز اسکالرشپ جیسے اسکیم کا ذکر کرتے ہیں۔ وہیں، ان سے مخالف رائے رکھنے والوں کا الزام ہے کہ وزیراعلیٰ کے سی آر کسی بھی وقت بی جے پی کا دامن تھام سکتے ہیں اسی لئے ان کو ووٹ دینا فرقہ پرست طاقتوں کو مضبوط کرنے جیسا ہوگا۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کیے گئے اصل کام اور دعویٰ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

مجلس بچاؤ تحریک (ایم بی ٹی) کے ترجمان امجد اللہ کا الزام ہے کہ کے سی آر حکومت کے دعوے اور زمینی حقائق میں بہت فرق ہے۔ اقلیتوں کے بجٹ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ؛ گزشتہ 3 سالوں ایک بار بھی  مختص بجٹ کی آدھی رقم بھی خرچ نہیں کی گئی۔ ان کے مطابق ، گزشتہ سال محض41.19  فیصد رقم خرچ ہوئی۔ اسی طرح اس سے قبل صرف27.89 فیصد، اور رواں مالی سال میں 29.24فیصد۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ تین سالوں میں کبھی بھی  مختص بجٹ کا 60 فیصد سے زائد رقم ریلیز نہیں کیا گیا۔ ان کا سوال تھا کہ جب پیسے ریلیز ہی نہیں کئے جائیں گے اور خرچ ہی  نہیں کئے جائیں گے تو فلاح و بہبود کا کام کہاں سے ہوگا؟

ایم بی ٹی کے ترجمان امجد اللہ/فوٹو : مہتاب عالم

ایم بی ٹی کے ترجمان امجد اللہ/فوٹو : مہتاب عالم

طٰہٰ نے بھی دی وائر کے ساتھ اپنی گفتگو میں اس امر کی طرف اشارہ کیا۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شادی مبارک اسکیم مسلمانوں کے لئے مخصوص اسکیم نہیں ہے۔ یہ اسکیم ریاست کے تمام طبقات کے لئے ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ دوسرے طبقات میں یہ کلیان  لکشمی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

غور طلب ہے کہ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی  کل آبادی کی 12.7 فیصد ہے اور آئندہ انتخابات میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ریاست کے مسلمان کل 119 سیٹوں میں 30 سیٹوں پر فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلم ووٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کو چھوڑ کر تمام تر سیاسی پارٹیاں اپنے حق میں ووٹ ڈلوانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔

حیدرآبادیوتھ مرر کے مدیر فصیح اللہ شیخ کے مطابق ریاست کے مسلمانوں کو بنیادی طور پر شہری اور دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے دی وائر کو بتایا کہ؛ دیہی مسلمان روایتی طور پر کانگریس کو ووٹ کرتے رہے ہیں، جبکہ شہریوں میں رہنے والوں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ جو کہ حیدر آباد کے اطراف میں رہتے ہیں وہ اسد الدین اویسی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین( ایم آ ئی ایم)کے ساتھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ انتخابات میں دیہی مسلمانوں نے ٹی آر ایس کو ووٹ دیا تھا پر اس دفعہ وہ کانگریس کو ووٹ دیں گے کیونکہ اس بار وہ بہتر حالت میں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹی آر ایس – ایم آ ئی ایم اتحاد کی وجہ سے مسلمانوں کا ووٹ ٹی آر ایس کو بھی مل سکتا ہے۔

MIM_TRS_Youtube

فوٹو : سوشل میڈیا

دریں اثنا گزشتہ دنوں کچھ مسلم دانشوروں نے کانگریس رہنما احمد پٹیل سے ملاقات کر کے اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ جس میں کثیرالاشاعت اردو اجبار روز نامہ سیاست کے مدیر اعلیٰ زاہد علی خان بھی شامل ہے۔ اس پہل کے سلسلے میں ایک سینئر صحافی کی رائے ہے کہ اس سے کوئی خاص اثر نہیں پڑنے والا، کیونکہ ان دانشوروں کی کوئی عوامی اپیل نہیں ہے۔

البتہ گزشتہ دنوں آئے ایک  ویڈیو جس میں کے سی آر ایک ریلی کی دوران مسلم ریزرویشن کے متعلق سوال پوچھے جانے پر سوال کرنے والے کو ڈانٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہ ویڈیو وائرل ہو چکا ہے اور اس کی وجہ سے مسلمانوں میں ناراضگی کی بات کہی جا رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کی اس واقعہ کی وجہ سے مسلمانوں کا ووٹ ٹی آر ایس سے کانگریس کی حق میں جاتا نظر آ رہا ہے۔

ایسے میں 7 دسمبر کو ہونے والی ووٹنگ بہت دلچسپ ہو گئی ہے اور یہ بات 11 دسمبر کو ہی پتہ چل پائے گا کہ مسلمانوں کا ووٹ کس کے حق میں اور کتنا گیا۔