یوگی آدتیہ ناتھ کی پولیس بھلے ہی یوگیش راج کے بجرنگ دلی ہونے کی بات نہیں کر رہی ہے،مگر جو خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق بلند شہر کے تمام چھوٹے بڑے پولیس افسر کے یوگیش راج سے تعلقات رہے ہیں۔ہر ایک کے پاس اس کے فون نمبر موجود ہیں۔
دسمبر کی ابتدا دو ایسے واقعات سے ہوئی ہے جو پولیس کی گرتی ہوئی ساکھ کا ازسر نو پتہ دیتی ہے۔ پہلا واقعہ اتر پردیش میں بلند شہر ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رونما ہوا۔ یہاں مبینہ طور پرگئو رکشکوں نے ایک پولیس افسر کی جان لے لی، دوسرے پولیس افسر کو مع دو ماتحتوں کے اپنی جان بچانے کے لئے اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کر لینے اور پھر جان بچانے کے لئے روشن دان کے راستے بھاگنے پر مجبور کیا، ایک تیسرے پولیس اہل کار کو سنگین طور پر زخمی کیا، ایک پولیس چوکی کو آگ لگا دی اور احاطے میں کھڑی گاڑیوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔
یہ وہی پولیس ہے جو مبینہ طور پر گزشتہ دو سالوں سے اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر فرضی پولیس انکاؤنٹر میں بے گناہوں کا خون بہا رہی ہے۔ اور یہ وہی پولیس ہے جس پر سنگھ پریوار کے ایک حلیف کے طور پر کام کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔ اب وہی سنگھ پریوار اس کے درپے ہے۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے جب گئو رکشا یا دھارمک جلوس کے نام پر پولیس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یعنی وہ رعب اور دبدبہ جو پولیس کا خاصہ رہا ہے اب ختم ہو چکا ہے۔ ملک کی غالب اکثریت کی نظر میں وردی کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ وہ جب چاہے اسے روند ڈالے۔
پولیس کی ساکھ پر ایک دوسری ضرب ایک عالمی ادارے (سی ایچ آر آئی )اور کیو یو آئی ایل ایل کی مشترکہ رپورٹ کے ذریعہ پڑی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان جو کہ ملک کی دوسری بڑی مذہبی اکائی ہیں پولیس پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں اور پولیس کو اپنا محافظ سمجھنے کی بجائے دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مختلف ریاستوں کی پولیس فورس میں شامل مسلمان افسران اس احساس کے ساتھ کام کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اور یہ کہ ہر لحظہ انھیں اپنی وفاداری کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔
پولیس کے لئے اس سے زیادہ بد بختی کی کوئی اور بات نہیں ہو سکتی کہ سماج کا ایک طبقہ اسے اپنا دشمن سمجھ رہا ہے اور دوسرا اس کا دشمن بنا ہوا ہے۔ نہ صرف اس کے اہلکاروں کی جان لے رہا ہے، اس کی املاک تباہ کر رہا ہے بلکہ اسے ذلیل کرنے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑ رہا۔ پولیس پر حملہ ایک سنگین معاملہ ہے اور دنیا میں کہیں بھی پیش آئے اسے ریاست کو چیلنج سمجھا جاتا ہے۔ چھتیس گڑھ اور ملک کے دیگر حصوں میں نکسل وادیوں کی جان یہی کہہ کر لی جارہی ہے کہ یہ لوگ اسٹیٹ کو چیلنج کرتے ہیں۔
بلند شہر کے معاملے میں یوپی پولیس کی بے بسی دیدنی ہے کہ وہ اس انتہائی سنگین جرم کے کلیدی ملزم یوگیش راج کا نام تو لے رہی ہے مگر بجرنگ دل کا نام نہیں لے پارہی ہے جبکہ وہ شخص تمام تر حرکتیں اسی ہندتوا تنظیم کے بینر تلے کرتا ہے۔ “ہمارے لئے وہ بس ایک فرد ہے، اور ہم اسے اسی طرح دیکھ رہے ہیں۔”یہ کہنا ہے یو پی پولیس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آنند کمار کا۔ جبکہ بجرنگ دل کے لیڈران یوگیش راج کو نہ صرف اپنا آدمی بتا رہے ہیں بلکہ اس کا دفاع بھی کر رہے ہیں۔
بجرنگ دل کے نیشنل کنوینر سوہن سنگھ سولنکی نے بیان دیا ہے کہ وہ عدالت کے اندر اور باہر بھی اس کے لئے لڑیں گے۔ بلند شہر سے بی جے پی کے ایم پی اور کئی ایم ایل اے بھی اس کے حق میں بیان دے رہے ہیں اور پولیس انتظامیہ کو دھمکا رہے ہیں۔ ادھر پولیس والوں کی گھگھی بندھی ہوئی ہے کیونکہ یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو ایک پولیس افسر کی جان سے زیادہ گائے عزیز ہے۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ بھیڑ کے ذریعہ انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کا مارا جانا لِنچنگ نہیں ایک حادثہ ہے۔وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پہلے گئو کشی کے معاملے کی تفتیش ہوگی پھر باقی معاملوں کو دیکھا جائے گا۔
اس بیچ ضلع کے کئی پولیس افسروں کا تبادلہ ہو چکا ہے۔ایس آئی ٹی کی تشکیل ہو چکی ہے جو پورے معاملے کی جانچ میں لگ گئی ہے۔ کلیدی ملزم دو ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی پولیس کی گرفت میں نہیں آ سکا ہے۔ البتہ سوشل میڈیا کے ذریعہ وہ اپنی بے گناہی کے دعوے اور متوفی انسپکٹر سبودھ کمار پر ہندوؤں کے مفاد کے خلاف کام کرنے کا الزام ضرور لگا رہا ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کی ماتحت پولیس بھلے ہی یوگیش راج کے بجرنگ دلی ہونے کی بات نہیں کر رہی ہے مگر اخبارات میں جو خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق بلند شہر کے تمام چھوٹے بڑے پولیس افسر کے یوگیش راج سے تعلقات رہے ہیں۔ہر ایک کے پاس اس کے فون نمبر موجود ہیں۔ سرکل افسر ایس پی شرما جو کہ 3دسمبر کو روشن دان کے راستے اپنی جان بچا کر بھاگے تھے کا کہنا ہے کہ اس سال جولائی میں جب بلند شہر میں ان کی پوسٹنگ ہوئی تھی تو ضلع کے ایس پی نے جن بد معاشوں سے ہوشیار رہنے کا مشورہ انھیں دیا تھے ان میں 25سالہ یوگیش راج سر فہرست تھا۔
یہ بد معاش بجرنگ دل کا ضلع کنوینر ہے جو آئے دن دھارمک جلوس نکالتا رہتا تھا جس میں اشتعال انگیز نعرے لگائے جاتے تھے یا پھر مسجد سے ہونے والی اذان پر اعتراض کرتا تھا اور لاؤڈسپیکر اتارے جانے کی مانگ کرتا تھا۔ یہ کہنا ہے ایک پولیس افسر کا جو اپنا نام بتانے سے ڈرتا ہے۔ انڈین ایکسپریس کے ذریعہ یہ پوچھے جانے پر کہ پولیس ایسے آدمی کے ساتھ نرمی کیوں برتتی رہی اس کا جواب تھا “آپ کو وجہ پتہ ہی ہے۔”
جانور کی جو ہڈیاں 3 دسمبر کو پراسرار طور پر ایک کھلے میدان میں پائی گئیں اور جسے گائے کی ہڈیاں مان لی گئیں، اور یہ بھی بھی مان لیا گیا کہ اس کے پیچھے مسلمانوں کا ہی ہاتھ ہوگا۔ پھر اچانک سے ایک بھیڑ جمع ہو گئی جو اس قدر مشتعل ہوئی کہ ایک افسر کی جان لے لی اور پولیس چوکی کو بھون ڈالا۔ یہ سب کچھ اس دن ہوا جب علاقے میں قریب دس لاکھ مسلمان تبلیغی جماعت کے تین روزہ اجتماع کے لئے جمع تھے اور اجتماع کے اختتام پر واپس گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ 3 دسمبر کا انتخاب اس لئے بھی تشویش ناک ہے کہ محض تین دن بعد بابری مسجد کی شہادت کی برسی تھی۔ یہ وہ دن ہے جسے مسلمان اگر بھولنا بھی چاہیں تو سنگھ پریوار بھولنے نہیں دیتا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس واقعہ سے محض ایک ہفتہ پہلے وشو ہندو پریشد کا ایودھیا شو فلاپ ہوا تھا۔جس کے بعد مسلمانوں کو بھڑکانے کے لئے دار العلوم دیوبند کو دہشت گردی کا اڈہ والا بیان آیا تھا۔متوفی انسپکٹر سبودھ کمار کے بارے یہ انکشاف ہوا ہے کہ وہ تین سال پہلے دادری میں محمد اخلاق کی لنچنگ کیس کے جانچ افسر تھے جن کا تفتیش کے دوران اچانک تبادلہ کر دیا گیا تھا۔ ان کی موت کے بعد سنگھ پریوار کے مقامی لیڈران انھیں اقلیت نواز اور ہندو مفاد کے خلاف کام کرنے والا بتا رہے ہیں۔ یہ سارے انکشافات معاملے کی سنگینی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ایسے میں پولیس کو بونا بنا کر رکھنا ممکن ہے سنگھ پریوار کے مفاد میں ہو ملک کے لئے یہ انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔
عالمی ادارہ سی ایچ آر آئی یعنی کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو کے ذریعہ جاری کی گئی رپورٹ جو اس نے مقامی تھنک ٹینک کوئِل فاؤنڈیشن کے ساتھ آٹھ شہروں میں سروے کرنے کے بعد جاری کی ہے کچھ کم چونکانے والی نہیں۔ اس سروے میں دہلی، لکھنؤ، احمد آباد، گوہاٹی، کوزی کوڑے، بنگلور اور ممبئی میں 197مسلم شہریوں کے تاثرات لئے گئے۔سبھی مسلمانوں نے متفقہ طور پر یہ کہا کہ پولیس انہیں مسلمان ہونے کے ناطے نشانہ بناتی ہے جس کی وجہ سے وہ مسلسل اس ڈر میں جیتے ہیں کہ پولیس کبھی بھی انھیں کسی بھی بہانے سے پکڑ کر لے جائے گی، ان کا انکاؤنٹر کر دے گی یا انھیں جیل میں سڑا دے گی۔
عام مسلمان یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ پولیس مسلمان محلوں پر خصوصی نظر رکھتی ہے، انہیں جرائم کا اڈہ تصور کرتی ہے اور وہاں رہنے والوں کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ یہی نہیں ان پر نظر رکھنے کے لئے ان کے بیچ سے ہی پولیس انفارمرس تعینات کرتی ہے جس کی وجہ سے مسلمان ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس طرح ان کے بیچ پھوٹ ڈالنے کا کام کیا جاتا ہے۔
اسی طرح مسلمان عورتیں “دوہرے دباؤ” میں جیتی ہوئی پائی گئیں۔ ایک ڈر ان کے اندر وہ پایا گیا جو عام طور پر عورتوں کو پولیس سے معاملات کرنے میں ہوتا ہے۔ دوسرا ڈر ان کے اندر مسلم شناخت کی وجہ سے پایا گیا۔تمام جواب دہندگان نے ایک زبان ہو کر کہا کہ برقع یا حجاب کے ساتھ جب وہ پولیس کی مدد مانگتی ہیں تو پولیس کا رویہ بےحسی اور تعصب سے بھرا ہوتا ہے۔
سروے کا دوسرا حصہ پولیس سروس سے سبکدوش ہوئے 25 مسلم افسران پر مشتمل ہے۔ ان افسروں کا کہنا ہے کہ پولیس محکمہ پر اکثریتی فرقہ کا غلبہ ہے جس کی وجہ سے انھیں باقی لوگوں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اور مسلسل اپنی وفاداری کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ مسلمانوں کا کوئی معاملہ ہو تو انھیں یہ ڈر لگا ہوتا ہے کہ ان پر فرقہ پرستی کا الزام لگا دیا جائےگا۔ان مسلمان افسروں کا خیال تھا کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ اور مسلمانوں کے بیچ دوری دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ پیس کمیٹی اور محلہ کمیٹی جیسی کوششیں جن کا مقصد اس دوری کو پاٹنا ہوتا ہے ان میں مسلمانوں کی جانب سے حقیقی نمائندگی کی بجائے پولیس کے مخبر اور دلال بھرے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ نیا نہیں ہے۔ جو بات نئی ہے وہ یہ کہ ایک عالمی ادارے نے اسے دستاویزی شکل دے دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اہل اقتدار اس کا کیا نوٹس لیتے ہیں۔
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر