خبریں

اے ایم یو میں کشمیریوں کی حمایت میں احتجاج، مودی کی ارتھی اور آدم خور روہنگیاؤں کا سچ

 اس دفعہ ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ کچھ لوگ احتجاج کے طور پر پرائم منسٹر نریندر مودی کی غائبانہ ارتھی نکال رہے ہیں۔ ویڈیو کے ساتھ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ پاکستان کا ویڈیو ہے جہاں بے جے پی کی شکست کے بعد یہ ارتھی نکالی جا رہی ہے۔

fake 1

گزشتہ ہفتے  کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ایک احتجاج کے دوران 7 عام شہریوں کی موت ہو گئی تھی جن میں انٹر میڈیٹ کا ایک طالب علم بھی تھا۔ اس واردات کے بعد ملک بھر میں افسوس کا اظہار کیا گیا اور دہلی کے علاوہ کئی جگہ انسانی حقوق کی اس قدر پامالی کے خلاف احتجاج اور پبلک میٹنگ ہوئیں۔  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبا یونین نےیونیورسٹی کیمپس میں ہی  19دسمبرکو ایک احتجاجی مارچ  کیا۔

یہ احتجاج ‘خاموش احتجاج’ تھاجس میں طلبانےاپنےمنہ پرکالی پٹیاں باندھی تھیں تاکہ یہ پیغام حکومت اور سرکاری اداروں تک پہنچ جائے کہ اب انسانی حقوق کی پامالی پر کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے، اب یہ مظالم حد پار کر چکے ہیں، لہٰذا انسانی جان و مال کے ساتھ یہ کھیل اب ختم ہونا چاہیے۔

یہ احتجاجی مارچ یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری سے صدر دروازے یعنی باب سید تک ہوا اور اختتام پر ایک میٹنگ میں یونین کے عہدیداران نے اپنی بات رکھی جس میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کے نام ارسال کئے گئے میمورنڈم کو بھی پڑھا گیا۔میمورنڈم میں یونین کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ کشمیر میں حالات کو پر امن بنایا جائے، فوج کی تعیناتی میں ڈھیل دی جائے اور پیلٹ گن کے استعمال کو روکا جائے۔19 دسمبر  کے بعد اگلے دن  جب ملک کے اخباروں میں اس کی خبریں شائع ہوئیں تو میڈیا نے ان کو مختلف رنگ میں رنگ دیا اور اپنی سرخیوں میں لکھا کہ اے ایم یو میں کشمیر کے پتھربازوں کی حمایت میں جلوس نکلا ہے۔

ممکن ہے کہ یہ سرخیاں اس بات کو پختہ کرنا چاہتی ہوں کہ کشمیر میں پتھر بازی کے معاملات ملک کے خلاف ہیں اور ایسا کرنے والوں کی حمایت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبا یونین یہ مارچ کر رہی ہے۔ امر اجالا، ہندوستان، دینک بھاسکر جیسے تمام اخبارات نے اس خبر کو اسی طرح شائع کیا۔

اس مارچ کی حقیقت یہ ہے کہ یہ مارچ دوسرے تمام احتجاج کی طرح حقوق انسانی کی پامالی کے خلاف تھا۔ گزشتہ دنوں میں بلند شہر میں انسپکٹر سبودھ کمار کی شہادت کے بعد بھی ان کی حمایت میں ایسا مارچ نکلا تھا۔مارچ کے اختتام پرصدر جمہوریہ کے نام ایک میمورنڈم علی گڑھ کے مقامی ایڈمنسٹریشن کو دیا  گیا تھا تاکہ علی گڑھ میں طلبا کی تشویش کو ان تک پہنچایا جا سکے۔میڈیا کی اس جانبدارانہ اور زرد صحافت کی بہت مذمت کی گئی۔ طلبہ یونین کے کابینہ ممبر نشانت بھاردواج نے میڈیا کی اس حرکت پر لکھا کہ یہ حقیقت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے۔

“2019 سیمی فائنل”کے نام سے مشہور ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد آنے والی فیک نیوز کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس دفعہ ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ کچھ لوگ احتجاج کے طور پر پرائم منسٹر نریندر مودی کی غائبانہ ارتھی نکال رہے ہیں۔ ویڈیو کے ساتھ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ پاکستان کا ویڈیو ہے جہاں بے جے پی کی شکست کے بعد یہ ارتھی نکالی جا رہی ہے۔ اور یہ بھی لکھا کہ اس ملک کی ہندو عوام کب سمجھے گی کہ مودی کے اقتدار میں قائم رہنے سے کتنا فائدہ ہے !

ویڈیو میں لوگوں کا ہجوم ہے جو اس طرح کے نعرے لگا رہے ہیں:

مر گیا مودی، ہائے ہائے !

زور سے رو لو، ہائے !

سارے رو لو، ہائے !

اگلے رو لو، ہائے !

پچھلے رو لو، ہائے !

مر گیا مودی، ہائے !

مر گیا کھٹر،ہائے !

بوم لائیو نے اپنی تفتیش میں پایا کہ یہ ویڈیو پاکستان کا نہیں اور یہ نعرے دراصل ویڈیو میں مختلف آڈیو کی شکل میں سافٹ ویئر سے ڈالے گئے ہیں۔ بوم نے انکشاف کیا کہ یہ ویڈیو 2017 میں بھی وائرل ہوا تھا۔ نعروں کو مکمل طور پر سنا جائےتومعلومہوگاکہ ان میں ہریانہ کےچیف منسٹرمنوہرلعل کھٹرکانام آتاہےجویہ ثابت کرتاہےکہ یہ ویڈیوپرانا ہے اور اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے !

ویڈیو کو غور سے دیکھنے پریہ مزید واضح ہوتا ہے کہ کچھ لوگ کالے رنگ کی دھوتی پہنے ہوئے ہیں۔ یہ دھوتی تمل ناڈو میں پریار اور ایپا سے عقیدت رکھنے والے لوگ پہنتے ہیں۔ بوم نے اپنی تفتیش میں پایا کہ ممکن ہے یہ ویڈیو تامل ناڈو کا ہے اور یہ اس وقت کی ہے جس وقت جلی کٹو پر ملک میں بڑی بحث چل رہی تھی۔ اور اس ویڈیو میں وہ نعرے موجود نہیں ہیں جن میں مودی اور کھٹر کا نام لیا جا رہا ہے۔اصل ویڈیو یہاں موجود ہے:

اپنی فرقہ وارانہ سوچ کے مطابق دینک بھارت نامی بھگوا پورٹل نے 18 دسمبر کو ایک خبر شائع کی:ڈراونی خبر: ہندوؤں کا قتل کر ان کا گوشت کھا رہے ہیں روہنگیا، میوات کا معاملہ، پریشان کر سکتی ہے خبر!

fake 2

دینک بھارت کے علاوہ دوسرے پورٹلوں پر بھی یہ خبر موجود تھی جس کو فیس بک اور ٹوئٹر پر خوب شئیر کیا گیا۔ دہلی ہائی کورٹ کے وکیل پرشانت امراؤ نے بھی اسے بنا تحقیق کے شئیر کیا لیکن بعد میں انہوں نے اپنا ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیا !

اس خبر کی حقیقت یہ ہے کہ یہ تبت سے تعلق رکھتی ہے جہاں ایک مخصوص قبیلے کے لوگ اپنے مردوں کو دفناتے یا جلاتے نہیں ہیں بلکہ لاش کا گوشت پرندوں کو کھلا دیتے ہیں۔آسٹریلین بروڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی خبر کے مطابق تبتی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ اس سچ کو زندہ کرتے ہیں کہ انسان کی طبیعاتی حقیقت قائم رہنے والی نہیں ہے اور یہ مردہ گوشت اس کائنات کو ان کی طرف سے آخری تحفہ ہوتا ہے!