جہاں ہندوستانی سنیما کے زیادہ تر اداکار سچ سے منھ موڑنے اور خاموش رہنے کے لئے جانے جاتے ہیں، وہیں صاف گوئی نصیرالدین شاہ کی شناخت رہی ہے۔ان کی شخصیت ان کو فلم انڈسٹری کی اس بھیڑ سے الگ کرتی ہے، جس کے لئےطاقتور کی پناہ میں جانا، گڑگڑاتے ہوئے معافی مانگنا اور کبھی بھی من کی بات نہ کہنا ایک روایت بن چکی ہے۔
بھیڑ کے ذریعے کئے جانے والے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہونے اور پولیس اہلکار کی موت سے زیادہ اہمیت گائے کی موت کو دئے جانے کے بارے میں ایکٹر نصیرالدین شاہ کے بیان پر انتہاپسندوں نے اگر اپنی تیوریاں چڑھا لیں، تو اس میں حیرانی کی کوئی بات ہے۔موجودہ وقت میں ہندوستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس کو لےکر ہر تنقیدی تبصرے کو ہندتووادی لڑاکے، اپنے بھگوان نریندر مودی کے خلاف الزام کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ان کی نظر میں ایسی تنقید آخرکار کسی نہ کسی شکل میں ہندو مخالف ہے ؛ اور اگر ان سب میں گائے کو ملا دیا جائے، تو ان کا غصہ کسی آگ کے گولے کی شکل لے لیتا ہے۔ اس کے علاوہ شاہ ایک مسلمان ہیں اور ایک مسلمان کا اپنے من کی بات کہنا غداری سے کم نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے کہ شاہ نے کسی بھی مسئلے پر اپنے نظریہ کو پوشیدہ رکھا ہے۔ وہ اپنے من کی بات کہنے کے لئے جانے جاتے ہیں اور اور وہ اپنی انڈسٹری کے لوگوں اور اس کے چمکتے ستاروں کو بھی نہیں بخشتے۔
پہلے، 1980 کی دہائی میں جبکہ وہ پیرلل سینما دنیا کے ایک اسٹار تھے، انہوں نے آرٹ ہاؤس فلموں کو دوئم درجے کا یہاں تک کہ فرضی قرار دیا تھا۔ اس سے انہوں نے کوئی دوستی نہیں بنائی۔انٹرویو میں انہوں نے بنا کسی لاگ لپیٹکے کہا کہ راجیش کھنہ اداکار نہیں تھے اور امیتابھ بچن کی فلموں کو خارج کیا۔ حال ہی میں انہوں نے وراٹ کوہلی کو ‘دنیا کا سب سے خراب رویے والا کھلاڑی ‘ بتایا۔ یہ بات کئی دوسرے لوگوں نے بھی کہی ہے۔
وہ سیاسی واقعات پر نظر رکھتے ہیں، اچھے خاصے پڑھے-لکھے ہیں اور موجودہ واقعات کو لےکر کافی بہتر نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ پکے سیکولر ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں پر کوئی مذہب نہیں تھوپا ہے اور ان کو اپنا راستہ چننے کے لئے آزاد چھوڑا ہے۔2015 میں شیوسینا نے اس وقت ان کی مخالفت کی تھی جب انہوں نے یہ کہا کہ پاکستانی فنکار وں کاہندوستان میں دشمنوں کی طرح استقبال کیا جاتا ہے، جبکہ ہندوستانی فنکاروں کو پاکستان میں ایسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت شاہ نے کہا تھا کہ ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس طرح دیکھیں، تو وہ وہی کہہ رہ رہے تھے، جو وہ سچ میں محسوس کرتے ہیں۔ اور ایسے نظریہ کے متعلق اپنی عدم رواداری کا پھر سے مظاہرہ کرتے ہوئے ہندو تو اکے لڑاکوں نے وہی کیا، جس کو کرنے میں ان کو مہارت حاصل ہے-انہوں نے اجمیر میں منعقد ایک ادبی جشن میں ان کی(شاہ کی) حاضری کی مخالفت کی۔راجستھان کی اشوک گہلوت حکومت نے سست رفتار سے رد عمل دیا، جس میں شاید ہم آنے والے مستقبل کا اشارہ پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد پروگرام کا مقام بدلکر پشکر کر دیا گیا، جہاں لوگ کم تھے۔ یہاں انہوں نے ایک کتاب کا رسم اجرا کیا اور اپنے مداحوں کے لئے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا۔
اس طرح سے شاہ نے ہندتووادی عناصر کو ترپ کی چال سے شکست دے دی۔ وہ نہ ہی پیچھے ہٹے ہیں اور نہ ہی’اگر کسی کے جذبات کو چوٹ پہنچی ہو تو میں معافی مانگتا ہوں ‘جیسا کوئی جھوٹا بیان ہی دیا ہے اور نہ ہی صلح کرانے کے لئے متاثر کن لوگوں کے دربار میں ہی گئے ہیں۔یہ انہیں انڈسٹری میں اپنے شریک کاروں سے الگ کرتا ہے، جہاں طاقتور لوگوں کی پناہ میں جانے، گڑگڑاتے ہوئے معافی مانگنے اور کبھی بھی من کی بات نہ کرنے کی قسم کھانے کی ایک روایت جیسی ہے۔
امیتابھ بچن جیسے کچھ لوگوں نے کچھ بھی نہ بولنے کے آرٹ کو اپنا لیا ہے ؛ مانو کہ وہ کسی متوازی کائنات میں رہتے ہوں، جہاں وہ اپنے اردگرد ہونے والے واقعات سے اچھوتے رہتے ہیں۔عامر خان– جن میں حساسیت کی کمی نہیں ہے-جیسے دوسرے لوگ تنقید کے بعد منھ بند رکھنے کی قسم کھا لیتے ہیں۔ کرن جوہر جیسے لوگ بھی ہیں، جو دھمکیوں سے پہلے اشارے پر ہی خودسپرد گی کر دیتے ہیں اور قابل رحم طریقے سے معافی مانگ لیتے ہیں۔ شاہ نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
اس کی جگہ انہوں نے پرسکون انداز سے نافرمانی کرنے کا راستہ اپنایا ہے ؛ اور ایک شہری اور ایک تخلیقی شخص کے طور پر اپنے اظہار کی آزادی کو درج کیا ہے۔وہ کسی نہ کسی طرح تنازعات کو جنم دینے والے کے طور پر نہیں جانے جاتے ہیں-وہ میڈیا کو ہر موضوع پر اپنا تبصرہ دینے کے لئے دستیاب رہنے والوں میں سے نہیں ہے۔ ان کا رد عمل کافی بہتر ہوتا ہے، جو کسی موضوع پر کافی لمبے وقت تک غور کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔
اس معاملے میں بھی یہ کسی نامہ نگار کے سوال پوچھنے پر سب کے سامنے بغیر کوشش نکل گئے تبصرے نہیں تھے، نہ ہی اس کا مقصد سستی سیاسی مقبولیت حاصل کرنا تھا۔انہوں نے کافی اعتدال پسند طریقے سے، کبھی سرکاری ملازم رہے ہرش مندرکے ذریعے بھائی چارہ کے پیغام کی تشہیر کرنے کے مقصد سے شروع کی گئی ملک گیر’یاترا’ کاروان محبت کے لئے تیار کئے جا رہے ایک ویڈیو کے لئے اپنی بات رکھی تھی۔
اور صحیح سمجھ والا کون آدمی ہوگا جو شاہ کی بات سے اتفاق نہیں رکھےگا؟منظم گروہ جس طرح سے بے قصور لوگوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دینے کے بعد بھی بنا سزا پائے گھوم رہے ہیں، اس سے ہندوستانی فکرمند ہیں۔ کئی سرپرست ایک ایسے ملک میں اپنے بچوں کو بڑا ہوتا دیکھکر فکرمند ہیں، جہاں کسی کو ‘ غلط ‘ کھانا کھا لینے کے لئے پیٹا جا سکتا ہے یا کوئی نقصان پہنچانے والے فیس بک تبصرہ کے لئے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
ایسے وقت میں ویسے تمام شہری، جس کے پاس منچ ہے اور آواز ہے، اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے خلاف کھڑے ہوں اور اپنی آواز اٹھائیں۔
ہندوستان میں اس کا الٹا ہوا ہے۔ میڈیا سرنگوں ہے، کاروباری دبی زبان میں بات کرتے ہیں۔ حکمراں تنظیم یا اس کے نظریہ کی دور سے بھی تنقید کرنے والی کوئی بات، دبی زبان میں کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ اکثر کسی سے یہ سب نہ کہنے کی تاکید رہتی ہے۔کتنی ہی بار ہماری ملاقات ایسے لوگوں سے ہوتی ہے، جو یوں تو کافی طاقتور ہیں، لیکن جو کسی متنازعہ مسئلے پر کچھ بھی بولنے سے انکار کر دیتے ہیں، کیونکہ وہ ایسا کرنے کے نتیجہ سے ڈرتے ہیں۔
جہاں تک فلم انڈسٹری کی بات تو ہے، تو اس کی گڑھی گئی چمک دمککے پیچھے اخلاقی کمزوری کی کڑوی سچائی ہے۔ کچھ نے خوشی خوشی اقتدار کے ساتھ، چاہے وہ کوئی ہوں، ہاتھ ملا لیا ہے اور وہ ان کے لئے بولنے کے لئے تیار ہیں۔ باقیوں نے خاموش رہنے کا راستہ اختیار کیا ہے۔نصیرالدین شاہ کی صاف گوئی نہ صرف تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے، بلکہ استقبال کے لائق بھی ہے۔ وہ ایک معزز اداکار اور عوامی ہستی ہیں۔ وہ اپنے اصولوں کو لےکر ثابت قدم رہے ہیں۔ ان کے خیالات اہمیت رکھتے ہیں۔
یہ ان کا قد ہے، جو قدامت پسند، ہندو تو اور ان کے آقاؤں کو بد مزاج کرتا ہے۔ وہ ان کو نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ عوامی دنیا میں ان کے الفاظ کی اہمیت ہے۔ ان سے ان کو ڈر لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے پیچھے پڑ گئے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں پہلے کے کسی بھی وقت کے مقابلے میں آج اس ملک میں نصیرالدین شاہ جیسےلوگوں کی ضرورت ہے۔
Categories: فکر و نظر