فلموں کی شوقین شیلا دکشت کو ہندوستانی سیاست کا دیو آنند کہا جا سکتا ہے۔ اتر پردیش میں ایک کے بعد ایک چار لوک سبھا ہار چکیں شیلا دکشت کے ستارے تب بدلے جب 1998 میں سونیا گاندھی نے انہیں دہلی کی صوبائی کانگریس کا صدر بنا دیا۔
شیلا دکشت دوبار، آخر اس سوال کا مثبت جواب آ ہی گیا اور دہلی کی وزیر اعلیٰ رہ چکیں شیلا دکشت کانگریس پارٹی میں ایک بار پھر اہم ذمہ داری نبھانے کو تیار ہیں۔اس بابت چرچے تو اجئے ماکن کے استعفیٰ دینے کے بعد سے ہی چل رہے تھے۔ دہلی مہیلا کانگریس کی صدر اور سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کی صاحبزادی، نسل نو کی نمائندگی کرنے والی شرمِشٹھا مکھرجی بھی اس دوڑ میں تھیں۔ اب قرعہ فال شیلا دکشت کے نام نکل آیا ہے۔
راہل گاندھی اپنی ماں سونیاگاندھی کی طرح پارٹی میں بزرگ اور نوجوانوں میں تال میل بنا کر چلنا چاہتےہیں۔ شیلا دکشت کو دہلی کانگریس کا صدر بنانا اس سلسلے کا ایک قدم ہے ۔ اتر پردیش میں سماجوادی اور بہوجن سماج پارٹی کے گٹھ بندن سے دور رہ کر بھی راہل نے اپنا سیاسی شعور دکھایا ہے۔ اگرکانگریس جیسی بڑی پارٹی کو صرف سات آٹھ سیٹیں ملتیں تو پورے ملک میں اس کا مذاق بنتا اور 2019 کے لوک سبھا نتیجوں میں صرف دو یا تین سیٹیں ۔
اب راہل کانگریس اپنے تقریباً دو درجن لیڈران سلمان خورشید ،پی ایل پونیا ،سری پرکاش جیسوال، جیتن پرساد، آر پی این سنگھ، عمران مسعود، راج ببر کو الیکشن لڑاکر2009 کی طرح ایک اچھی کامیابی کی امید کر سکتی ہے ۔ دراصل کانگریس اتر پردیش میں جتنی طاقت سے لڑے گی اتنا ہی بی جے پی کو ذک پہنچنے کا امکان ہوگا جو گٹھ بندھن کے لئے بھی ایک خوش آیند قدم ہوگا ۔ شیلا جی بیشک دہلی میں ہوں لیکن ان کے ذریعے راہل نے اتر پردیش کے برہمن کو اپنی طرف کرنے کی کوشش کی ہے۔
فلموں کی شوقین شیلا دکشت کو ہندوستانی سیاست کا دیو آنند کہا جا سکتا ہے۔ اتر پردیش میں ایک کے بعد ایک چار لوک سبھا ہار چکیں شیلا دکشت کے ستارے تب بدلے جب 1998 میں سونیا گاندھی نے انہیں دہلی کی صوبائی کانگریس کا صدر بنا دیا۔ اپنی سابقہ تاریخ بدلتے ہوئے شیلا دکشت نے دہلی ودھان سبھا کے مسلسل تین چناؤ جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ یہی نہیں مسلسل کام کر کے انہوں نے دہلی کی تصویر بھی بدل دی۔ دہلی کو حاصل بنیادی سہولیات میں قابل قدر اضافہ، تمدنی شعور بیدار کرنے کے ساتھ ماحولیات کی صفائی میں ان کے کام کاج کا اہم حصہ شامل ہے۔
اس مسلسل جیت کے باوجود ان کی فوقیت بگھارنے کی عادت مہنگی پڑی اور کانگریس کو 2013 کے انتخاب میں ملک کی راجدھانی میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تین سال بعد سونیا اور راہل گاندھی نے انہیں ‘مشن لکھنو’ پر بھیج دیا، جہاں ودھان سبھا الیکشن میں انہیں وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنایا گیا تھا۔ 78 سالہ اس بزرگ سیاستداں کے سامنے یو پی کے 75 ضلعوں میں پھیلے کروڑوں ووٹرس تک پہنچنے کا چیلنج تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنا پروگرام ترتیب دے پاتیں، کانگریس کو سماجوادی پارٹی سے چناوی سمجھوتا کرنا پڑا۔
یو پی میں ہمیشہ پچھڑی رہنے والی کانگریس کی اس بار اور درگت ہوئی، جس سے صوبے کی ودھان سبھا میں پارٹی کی موجودگی ایک عددی آنکڑے میں سمٹ گئی۔ ایسے میں یہ سوال واجب ہی اٹھتا ہے کہ ایک بزرگ سیاستداں کو مزید اس طرح کی ذمہ داری سونپنا ٹھیک قدم ہے؟رسمی طور پر اجئے ماکن نے صحت کی خرابی کو دہلی پردیش کانگریس کے صدر کا عہدہ چھوڑنے کی وجہ بتائی ہے۔ لیکن 24 اکبر روڈ پر واقع کانگریس کے مرکزی دفتر میں باتیں چل رہی ہیں کہ کانگریس پارٹی اصل میں عام آدمی پارٹی (عآپ) کے ساتھ کچھ سیٹوں پر سمجھوتا کرنے جا رہی ہے۔ ادھر اجئے ماکن کی نظریں آل انڈیا کانگریس کمیٹی میں جنرل سکریٹری کے عہدے پر جمی ہیں، جو پارٹی کے تنظیمی امور کا انچارج ہوتا ہے۔ جنرل سکریٹری کی یہ پوسٹ ان دنوں خالی ہے۔ بھنور جِتیندر سنگھ، دِگوِجئے سنگھ اور جیوترادتیہ سندھیا کے ساتھ اجئے ماکن اس پوسٹ کے چوتھے دعوےدار ہیں۔
دہلی میں بھلے کڑاکے کی ٹھنڈ پڑ رہی ہو لیکن ملک کی قومی راجدھانی کا سیاسی پارہ برابر اتار چڑھاؤ پر ہے۔ کبھی مارے ٹھنڈ کے یہ جما جا رہا ہے تو کبھی گرمی سے مانو اُبالے مار رہا ہے۔ ظاہری طور پر تو کانگریس عآپ کے خلاف تلواریں لہرا رہی ہے کہ عام آدمی پارٹی نے 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے لیے راجیو گاندھی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان سے بھارت رتن ایوارڈ واپس لینے کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ لیکن پارٹی یہ بھی سمجھ رہی ہے کہ اگر آئندہ لوک سبھا انتخاب کے لیے عام آدمی پارٹی سے کوئی سمجھوتا نہ ہوا تو مشکل ہو سکتی ہے، کیونکہ 2014 میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں عآپ اور کانگریس کی لڑائی میں بی جے پی دہلی کی ساتوں ہی سیٹ جیت گئی تھی۔
پردے کے پیچھے شیلا دکشت، کپل سبل، شرمشٹھا مکھرجی، اروِندر سنگھ لولی اور (ماکن کو چھوڑ کر) دیگر کئی رہنما عآپ کے ساتھ سیٹ بنٹوارے کے حامی ہیں۔ دہلی کی ساتوں سیٹ بی جے پی کے ہاتھ لگ جانے کی حقیقت سے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور عآپ بھی واقف ہیں سو وہ بھی اِن لوک سبھا چناؤ کے لیے کانگریس کے ساتھ سمجھوتے کے خلاف نہیں ہیں۔ دونوں ہی پارٹیوں کو اس کا مکمل اعتماد ہے کہ اگر وہ سیٹوں کا بنٹوارہ کر کے اپنی اپنی سیٹوں پر لڑتے ہیں تو ساتوں سیٹوں پر ان کی فتح یقینی ہے۔ کانگریس اس میں چار، تین کے فارمولے پر چل رہی ہے تو عآپ اسے پانچ، دو کرنا چاہتی ہے کہ پانچ سیٹوں پر بی جے پی کے خلاف وہ لڑے اور دو پر کانگریس۔
دہلی سے تعلق رکھنے والے کانگریس رہنماؤں کے ایک طبقے کا ماننا ہے کہ پارٹی دہلی میں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ پھر وہ چاہے بزرگ رہنما جیسے شیلا دکشت، کپل سبل، جئے پرکاش اگروال ہوں یا نئی نسل کے شرمشٹھا یا لولی۔ ان سب کی موجودگی نظر نہیں آتی۔ ان کے مطابق وہ دن ہوا ہوئے جب دہلی کی سیاست میں چودھری برہم پرکاش، میر مشتاق، سُبھدرا جوشی، امرناتھ چاولا، رادھا رمن اور ایچ کے ایل بھگت جیسے جغادری رہنماؤں کا ڈنکا بجتا تھا اور یہ لوگ قومی راجدھانی کے بے تاج بادشاہ ہوا کرتے تھے۔
اندرونی طور پر دہلی میں پارٹی کی خستہ حالی محسوس کرنے کے باوجود کانگریس اس بار کے لوک سبھا انتخاب میں کچھ نئے چہروں کو آزمانا چاہتی ہے۔ جیسے جنوبی دہلی کے لیے گُرو ستپال کانگریس کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔ متعدد پہلوانوں کے استاد یا گرو دروناچاریہ کہہ لیں، گرو ستپال اولمپین سُشیل کمار کے خسر اور کشتی میں ان کے سرپرست بھی ہیں۔ جوانی کے دنوں میں سنجے گاندھی سے ان کی خاصی دوستی ہوا کرتی تھی۔ گاندھی خاندان یعنی سونیا، راہل کے علاوہ پرینکا سے ان کے نزدیکی تعلقات ہیں اور دہلی میں واقع 10 جن پتھ (سونیا، راہل کی رہائش گاہ) میں آج بھی ان کی قدر ہے۔ گاندھی خاندان کے افراد کو یاد ہے کہ سنجے گاندھی نے انہیں ایک روسی جیپ تحفے میں دی تھی، جسے راجیو بھی چلانا پسند کرتے تھے۔
Categories: فکر و نظر