خبریں

سہراب الدین کے بھائی نے وزارت داخلہ، سی بی آئی سے ملزمین کو بری کرنے کے خلاف اپیل کرنے کو کہا

سہراب الدین شیخ فرضی انکاؤنٹر معاملے میں گزشتہ  سال 21 دسمبر کو سی بی آئی عدالت نے ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے تمام 22 ملزمین کو بری کر دیا تھا۔ ملزمین میں زیادہ تر گجرات اور راجستھان کے جونیئر سطح کے پولیس افسر شامل تھے۔

سہراب الدین شیخ اور کوثر بی

سہراب الدین شیخ اور کوثر بی

نئی دہلی: سہراب الدین شیخ کے بھائی رباب الدین شیخ نے وزارت داخلہ اور سی بی آئی سے گزارش  کی ہے کہ معاملے میں تمام ملزمین کو بری کئے جانے کے نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کریں۔ سہراب الدین مبینہ طور پر فرضی انکاؤنٹر  میں مارا گیا تھا۔ سی بی آئی کی ایک اسپیشل کورٹ  نے 21 دسمبر، 2018 کو ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے تمام 22 ملزمین کو بری کر دیا تھا۔ پراسیکیوشن  کے معاملے کو ثابت نہیں کر پانے کی وجہ سے بھی ان کو بری کر دیا گیا۔

سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ  نے کہا تھا کہ اس معاملے کی اہم بنیاد چشمدید گواہ تھے، جو اپنے بیان سے مکر گئے۔ نومبر 2017 سے شروع ہوئی سماعت میں 210 گواہوں کی جانچ  کی گئی، جن میں سے 92 اپنے بیان سے پلٹ گئے۔ ملزمین پر سہراب الدین شیخ، اس کی بیوی کوثر بی اور اس کے ساتھی تلسی رام پرجاپتی کو فرضی انکاؤنٹر  میں مارنے کا الزام ہے۔ ملزمین میں زیادہ تر گجرات اور راجستھان کے جونیئر سطح کے پولیس افسر شامل تھے۔

سہراب الدین کے بھائی رباب الدین نے اس سال 14 جنوری کو وزارت داخلہ اور پراسیکیوشن ، ایجنسی سی بی آئی کو خط لکھے۔ ان میں گزارش  کی گئی ہے کہ نچلی عدالت کے حکم کو چیلنج دیتے ہوئے بامبے ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی جائے۔ خط کے مطابق، ‘ تمام ملزمین کو بری کرنے کا سی بی آئی عدالت کا 21 دسمبر، 2018 کا فیصلہ قانوناً غلط ہے اور پہلی نظر میں ٹکنے والا نہیں ہے۔ اسپیشل  سی بی آئی عدالت نے حقائق  اور ثبوتوں کو صحیح منظرنامہ میں سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ ‘

رباب الدین نے خط میں لکھا، ‘ میں آپ سے (وزارت داخلہ اور سی بی آئی) سے مودبانہ گزارش  کرتا ہوں کہ بامبے ہائی کورٹ میں اپیل داخل کرنے کے لئے ضروری اقدام کیے جائیں۔ ‘ واضح ہو کہ سال 2005 میں ہوئے اس مبینہ انکاؤنٹر کے معاملے میں 22 لوگ مقدمہ کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: ہرین پانڈیا اور سہراب الدین انکاؤنٹر تک کے راز جاننے والے اعظم خان کو کون مارنا چاہتا ہے؟


غور طلب ہے کہ اس معاملےپر خاص نظر رہی کیونکہ بی جے پی صدر امت شاہ ملزموں میں شامل تھے۔واضح ہو  کہ امت شاہ، گلاب چند کٹاریا، دنیش ایم این، پانڈین اور ونجارہ ان معاملوں میں ملزم تھے اور ان کو 2014 سے 2017 کے بیچ میں ٹرائل کورٹ کے ذریعے بری کیا جا چکا ہے۔ شاہ اس وقت گجرات کے وزیر داخلہ تھے۔ مقدمہ کے دوران پراسیکیوشن  کے تقریباً 92 گواہ مکر گئے۔

پراسیکیوٹر کی دلیل تھی کہ سہراب الدین کا تعلق دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ سے تھا اور وہ مبینہ طور پرگجرات کے  اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے قتل کی سازش رچ رہا تھا۔ سی بی آئی نے اس معاملے میں کل 38 لوگوں کو ملزم بنایا  تھا۔ ان میں سے 15 کو اگست 2016 سے ستمبر 2017 کے درمیان ممبئی کی خصوصی سی بی آئی عدالت نے بری کر دیا تھا۔

بری کیے گئے لوگوں میں گجرات کے اس وقت کے وزیر داخلہ اور بی جے پی صدر امت شاہ، راجستھان کے اس وقت کے وزیر داخلہ جی سی کٹاریا ،گجرات کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ڈی جی ونجارہ، آئی پی ایس افسر این کے امین اور 12 دوسرے پولیس اہلکار شامل تھے۔ سپریم کورٹ کے ستمبر 2012 کے ایک آرڈر کے تحت معاملے کو گجرات سے ممبئی منتقل کر دیا گیا تھا۔

اس بیچ، دسمبر مہینے میں ہی استغاثہ کے دو گواہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ ان سے پھر سے پوچھ تاچھ کی جائے۔ ان میں سے ایک کا نام اعظم خان ہے اور وہ شیخ کا معاون  تھا۔ اعظم خان نے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا ہے کہ سہراب الدین شیخ پر مبینہ طور پر گولی چلانے والے ملزم اور سابق پولیس انسپکٹر عبدالرحمان نے اس کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے منہ کھولا تو اس کو جھوٹے معاملے میں پھنسا دیا جائے گا۔ایک دوسرا گواہ پیٹرول پمپ کا مالک مہیندر جالا ہے۔ عدالت نے دونوں عرضیوں کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ یہ شنوائی کے لائق نہیں ہیں۔

اس معاملے میں الزام ہے کہ نومبر 2005 میں گجرات اے ٹی ایس نے سہراب الدین شیخ اور اس کی بیوی کوثر بی کو حیدر آباد سے اس وقت گرفتارکیا تھا جب وہ سانگلی جا رہے تھے۔  سہراب الدین کے ساتھ اس کا معاون تلسی پرجاپتی بھی تھا۔الزام کے مطابق، سہراب الدین کو گاندھی نگر کے نزدیک مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں مارا گیا تھا۔  اس کے بعد اس کی بیوی لاپتہ ہو گئی تھی اور ایسا مانا گیا کہ اس کو بھی مار دیا گیا ہے۔الزام تھا کہ گینگسٹر کے معاون اور انکاؤنٹر کے چشم دید تلسی پرجاپتی کو پولیس نے دسمبر 2006 میں گجرات کے بناسکانٹھا ضلع‎ میں چپری گاؤں کے پاس مار دیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ  عدالت نے 2013 میں پرجاپتی کے مبینہ فرضی انکاؤنٹر معاملے کو سہراب الدین کے معاملے کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)