رویش کا بلاگ : لندن میں ہوئی ہیکر سید شجاع کی پریس کانفرنس کو دو حصے میں دیکھا جانا چاہیے۔ ایک ای وی ایم کو چھیڑنے کی تکنیک کے طور پر ، جس پر ہنسنے والوں کے ساتھ ہنسا جا سکتا ہے، مگر دوسرا حصہ قتل کے سلسلے کا ہے۔ ایک کمرے میں ای وی ایم چھیڑنے کی تکنیکی جانکاری رکھنے والے 11 لوگوں کو بھون دیا جائے، یہ بات فلمی لگ سکتی ہے تب بھی اس پر ہنسا نہیں جا سکتا۔
لندن کے اس پریس کانفرنس کے بارے میں صحافیوں کے درمیان کئی دنوں سے بات چل رہی تھی۔انڈین جرنلسٹ تنظیم(یورپ)اور فارین پریس تنظیم نے اس انعقاد کے لئے دعوت نامہ بھیجا تھا۔ یہ سوال جائز ہے کہ اتنے بڑے پریس کانفرنس میں ثبوت بھی رکھا جانا چاہیے تھے۔ جن کے نہیں ہونے کی وجہ سے چھیڑخانی والا حصہ کمزور لگا۔سید شجاع کو اسکائپ کے ذریعے پیش کیا گیا۔ شجاع کے کئی دعوے مضحکہ خیز بتائے جا رہے ہیں۔ مگر جب وہ کہہ رہا ہے کہ اس نے یا اس کی ٹیم نے ہیک کی جا سکنے والی ای وی ایم مشین ڈیزائن کی تھی تو اس سے آگے کی پوچھ تاچھ ہونی چاہیے۔
ای وی ایم مشین کو لےکر کسی بھی سوال کو مذاق کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مگر آج کی دنیا میں جہاں ای وی ایم مشین سے انتخاب نہیں ہوتے ہیں وہاں بھی بگ ڈیٹا مینی پولیشن سے انتخاب کواپنے حق میں موڑ لینے پر بحث چل رہی ہے۔ مشین کو لےکر بھی اور فیک نیوز کے ذریعے بھی۔
سید شجا ع نے تکنیکی بنیاد پر بتایا ہے کہ کیسے ای وی ایم کو ہیک کیا جا سکتا ہے۔ جس کو سمجھنے کی صلاحیت مجھ میں تو نہیں ہے۔ میں نے اپنے شو میں بھی کہا کہ نااہل ہوں۔ ان دعووں کو سن سکتا ہوں، رپورٹ کر سکتا ہوں مگر صحیح ہے یا نہیں، اس کو قریب قریب کہنے کے لئے کئی طرح کی جانکاری کی ضرورت تھی۔کئی لوگ جو تکنیکی سمجھ رکھتے ہیں اس کے ان دعووں پر ہنس رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے ہنسنے والے صحیح ہو ں مگر جب بندہ کہہ رہا ہے کہ مشین اس نے بنائی ہے تو بات کر لینے میں حرج کیا ہے؟
اس لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن ایک اور بار کے لئے اس کو موقع دے۔ سب کے سامنے جیسا چاہتا ہے، جو مانگتا ہے اس کو دستیاب کرائے اور کہے کہ ثابت کر دکھاؤ۔ کیونکہ یہ شخص نہ صرف مشین بنانے کی بات کر رہا ہے بلکہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اس کی ٹیم ہندوستان میں ہے جو ہیکنگ کو روکتی ہے اور ہندوستان کی جمہوریت کو بچاتی ہے۔اگر ایسی کوئی ٹیم ہے اور ایسا کر سکتی ہے تو کیا وہ کسی کے حق میں ہیک نہیں کر سکتی ہے؟ مجھے بھی اس بات پر ہنسی آئی لیکن بات کہنے والے کے خطرات کو دیکھتے ہوئے ہنسی رک بھی گئی۔
یہی نہیں اس کی ٹیم ہیکنگ روک رہی ہے یعنی ابھی ہیکنگ ہو رہی ہے۔ یہ بات بالکل خیالی لگ سکتی ہے مگر کوئی خود کو سامنے لاکر کہے تو مذاق اڑانے کے ساتھ اس کی تفتیش کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔شجاع آکر سب کے سامنے بتائے کہ کیسے اور کس فری کوئنسی سے ڈیٹا ٹرانسمٹ ہوتا ہے اور اس کو روکا جاتا ہے۔ وہ خود سامنے آکر کہہ رہا ہے کہ پریس کانفرنس سے چار دن پہلے حملہ ہوا ہے۔ اس کےسینہ پر 18 ٹانکے لگے ہیں۔ کوئی ڈاکٹر بتا سکتا ہے کہ ایسی حالت میں کیا کوئی ہاسپٹل سے اتنی جلدی باہر ہو سکتا ہے؟
سید شجاع کو بی جے پی کی جیت پر سوال اٹھانے والے شخص کے طور پر بتایا جا رہا ہے۔ بے شک وہ کہہ رہا ہے کہ 2014 کے انتخاب کے نتیجے بدل دئے گئے مگر وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ 12 سیاسی جماعتوں نے اس سے رابطہ کیا تھا۔یہ مذاق بھی ہو سکتا ہے اور مذاق ہے تب بھی اس کی تفتیش کرنی چاہیے۔ کیا ہمارے ملک کی ساری پارٹی شجا ع کو جانتی ہیں؟ کیا وہ ہیک کئے جانے کے امکان کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں؟
سید شجاع نے کانگریس، بی ایس پی، ایس پی کے نام لئے ہیں۔ اس نے کہا کہ 12 چھوٹی-بڑی جماعتیں رابطہ میں تھیں ۔ سوال یہی تھا کہ کیا یہ جماعت اس سے یہی کام کرانا چاہتی تھی، جس کے جواب میں کہا کہ ہاں۔تو عوام کو جاننے کا حق ہے کہ یہ کون شخص ہے۔ اس کے پاس جو جانکاری ہے، جو تکنیکی صلاحیت ہے، وہ کیا ہے۔ بات صرف بی جے پی کی نہیں ہے، ان 12 جماعتوں کے مقصد کی بھی ہے۔ اس کو بی جے پی کی جیت یا ہار سے جوڑکر دیکھنا ٹھیک نہیں رہےگا۔
الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ وہ اس پریس کانفرنس میں اٹھائے گئے دعووں سے متفق نہیں ہے۔ پھر بھی الیکشن کمیشن کی خاص ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے نظام اور مشین کو سوالوں سے اوپر کرے۔ الیکشن کمیشن کے حال کے کئی کرداروں کو لےکر سوال اٹھے ہیں۔تلنگانہ میں 20 لاکھ رائےدہندگان کے نام فہرست سے باہر تھے۔ کمیشن نے معافی مانگکر کنارہ کشی اختیار کر لی جبکہ یہ سنگین الزام تھا۔ تو مشین بھلےہی شک کے پرے ہو، کمیشن وقت وقت پر شک کے دائرے میں رہا ہے۔ ٹی این شیشن کے پہلے الیکشن کمیشن کی کیا شہرت تھی، بتانے کی کیا ضرورت نہیں ہے۔
شجا ع کی کچھ باتیں مضحکہ خیز ہیں اور کچھ سنگین بھی۔ جیسے اس نے بریکزٹ کو ہیک کئے جانے کی بات کہہ دی تو صحافیوں نے کہا کہ وہاں تو بیلیٹ پیپر سے ہوا تھا۔گوپی ناتھ منڈے والا سیاق و سباق بھی نہیں جما۔ ان کی بیٹی پنکجا بی جے پی میں ہیں۔ وہ اپنی آزادانہ جگہ بنانا چاہتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اسی کو اٹھاکر اپنی دعوےداری مضبوط کر سکتی تھیں کیونکہ گوپی ناتھ منڈے مہاراشٹر کے ایک سماجی طبقے کے بڑے رہنما تو تھے ہی۔
بے شک شجا ع جن قتل معاملوں کی بات کر رہا ہے وہ ڈرانے والی ہیں۔ مذاق اڑانے والوں کو بھی بتانا چاہیے کہ وہ کس بنیاد پر مذاق اڑا رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ مجھے اور میرے دوستوں کو گولی لگی ہے۔ تو اس کا مذاق اڑانا چاہیے یا میڈیکل تفتیش ہونی چاہیے؟وہ باقاعدہ نام لے رہا ہے کہ حیدر آباد میں ایک علاقے میں ایک رہنما کے گیسٹ ہاؤس میں قتل ہوا تھا جس کو بعد میں کشن باغ فسادات کی آڑ میں غائب کر دیا گیا۔ 13 مئی 2014 کو قتل ہوا تھا۔ وہاں موجود 13 میں سے 11 لوگ مارے گئے تھے۔ کتنے لوگ اس کمرے میں داخل ہوئے تھے اور گولیاں چلانے والے کون تھے؟
مذاق اڑانے والے صحافیوں کے پاس کیا کوئی پختہ جانکاری ہے جو مذاق اڑا رہے ہیں؟سید شجاع کا کہنا ہے کہ امریکہ آنے کے بعد جب اس نے پتا کیا تو اس کے ماں باپ کا قتل ہو گیا تھا۔ گھر جل گیا تھا۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟
کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اس کے ماں باپ کو مار دیا گیا۔ اس کی بیوی اور بچے کا پتہ نہیں تو پھر کس بات کے لئے مذاق اڑایا جا رہا ہے؟کیا اس کو مطمئن کرنے کے لئے ہر طرح کے سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے؟ اس میں مذاق اڑانے والی بات کیا ہے؟ وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اس کی ٹیم کی فیملی کے کسی ممبر کا پتہ نہیں۔
11 لوگ مارے جاتے ہیں۔ ان کی فیملی والے مارے جاتے ہیں۔ کیا اس کی تفتیش نہیں ہونی چاہیے؟ وہ کون لوگ ہیں جو مذاق کی آڑ میں اتنے سنگین سوال کو کنارے کر دینا چاہتے ہیں؟کیا اس ملک میں کلبرگی، پانسرے اور گوری لنکیش کا قتل نہیں ہوا ہے؟ گوری لنکیش کے قتل کا تار بھی جوڑا گیا ہے۔ دعویٰ کیا ہے کہ گوری اس رپورٹ کے بارے میں جانکاری جٹا رہی تھیں مگر ان کا قتل ہو گیا۔
شجاع نے کمل راؤ، پرکاش ریڈی، راج ایپّا، انوشری دنکر، شری کانت تمنیرور، انیرودھ بہل، کیشو پربھو ، سید محی الدین، اعجاز خان کے نام لئے جن کا قتل ہوا تھا۔ کیا ان سب کو ایک کمرے میں بلاکر اڑا دیا گیا تھا؟ اس کی قابل اعتماد تفتیش کیوں نہیں ہو سکتی ہے؟ان کا اور ان کی فیملی اور خاندان کو ٹریک کیوں نہیں کیا جانا چاہیے؟ کوئی کہے کہ مجھے اور میرے دوستوں کو اڑا دیا گیا ہے۔ ان کی فیملی کو اڑا دیا گیا ہے تو کیا مہذب سماج اس کی ہنسی اڑائےگا؟
یا کہےگا کہ اگر ایسا ہے تو اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔ تفتیش کرےگا کون۔ سی بی آئی؟ اب ہنسنا شروع کیجئے آپ۔سید شجاع بتا رہا ہے کہ اس کو امریکہ نے سیاسی پناہ دی ہے۔ اس کے لئے اس نے کئی دستاویز جمع کئے تھے۔ یہ سارے دستاویز ہینکنگ اور ہیکنگ کرنے والی ٹیم کے قتل سے متعلق ہیں۔ تو یہ بات تفتیش سے سامنے آ جائےگی۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کے دستاویز کیا ہیں۔
سید شجاع کی باتوں کو لےکر نہ تو پرجوش ہونے کی ضرورت ہے اور نہ فوراً خارج کرنے کی۔ جو باتیں اس نے بتائی ہے ان میں سے کچھ ضرور ناقابل یقین لگتی ہیں مگر کئی باتوں کا وہ ثبوت دے رہا ہے۔ ایسی باتیں کہہ رہا ہے جن کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ تو پھر اس کو جگّا جاسوس کا پلاٹ کہنا مناسب رہےگا؟بے شک اس پورے پریس کانفرنس کو مشتبہ کرنے کے لئے کانگریس رہنما کپل سبل کی موجودگی کافی تھی۔ صحافیوں کی کانفرنس میں سبل کیا سوچکر گئے۔ وہ ایک قابل وکیل رہے ہیں۔ اتنی باتوں کی تو ان کو سمجھ ہے۔
انہوں نے ایسا کیوں کیا جس سے پریس کانفرنس مشتبہ ہو جائے؟ ان کے جواب کا انتظار رہےگا لیکن بی جے پی کو موقع مل گیا ہے کہ کانگریس مودی کو ہٹانے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔کیا کانگریس بی جے پی کی آڑ میں ان قتل معاملوں پر ہمیشہ کے لئے پردہ گرا دیا جائےگا، جس کو اٹھانے کے لئے سید شجاع باہر آیا ہے؟
وہسل بلوور کی بات پر کوئی جلدی یقین نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ عام لوگوں اور صحافیوں کی حدود کو پار کرتے ہوئے زیادہ جانکاری جٹا لاتے ہیں۔ اس لئے ان کے مار دئے جانے کے بعد بھی زمانہ دھیان نہیں دیتا ہے۔ اس ملک میں ایسے قتل کی بات کیا عجوبہ ہے؟اس لئے اس پریس کانفرنس کو دو حصے میں دیکھا جانا چاہیے۔ ایک مشین کو چھیڑنے کی تکنیک کے طور پر ۔ جس پر تبصرہ کرنے کی میری کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ میں اس پر ہنسنے والوں کے ساتھ ہنس سکتا ہوں۔
مگر دوسرا حصہ جو قتل کے سلسلے کا ہے، میں اس پر نہیں ہنسوںگا۔ چاہوںگا کہ سب کچھ صاف ہو جائے۔ ایک کمرے میں 11 لوگوں کو بھون دیا جائے، جو ای وی ایم مشین کو چھیڑنے کی تکنیکی جانکاری رکھتے ہوں ، یہ بات فلمی لگ سکتی ہے تب بھی ہنسنا نہیں چاہوںگا۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔ )
Categories: فکر و نظر