ایک شہری اور کارکن کے طور پر محتاط رہنا چاہیے کہ سیاست چند گھرانوں کے ہاتھ میں نہ رہ جائے۔ لیکن اس سوال پر بحث کرنے کے لائق نہ تو امت شاہ ہیں، نہ نریندر مودی اور نہ راہل گاندھی۔ صرف عوام اس کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ جب تک یہ رہنما کوئی صاف لائن نہیں لیتے ہیں، پریوارواد کے نام پر ان کی بکواس نہ سنیں۔
جمہوریت میں انتخاب کا عمل اہم ہوتاہے۔ نامزد کرنے کا نہیں۔ اس لحاظ سے راہل گاندھی اور امت شاہ دونوں ہی نامزد گی سے صدر بنے ہیں۔ انتخاب سے نہیں۔ یعنی کوئی انتخاب نہیں ہوا ہے۔ بے شک راہل گاندھی سیاسی گھرانے سے آتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ امت شاہ انتخاب سے صدر بن گئے ہیں۔ وہ فیملی کی جگہ کسی کی خاص پسند کی وجہ سے بنے ہیں۔میں اس کو یارواد(احباب پرستی) کہتا ہوں۔ پریوارواد اور یارواد میں فرق ہو سکتا ہے مگر دونوں کے صدر بننے کے عمل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں نامزد ہیں۔ منتخب نہیں۔
صدر کے طور پر خود کو راہل گاندھی سے الگ بتانے والے امت شاہ بتا دیں کہ وہ کس کے خلاف انتخاب لڑکر صدر بنے تھے؟ کیا وہ سنگھ اور مودی کی پسند کے بغیر ایک منٹ بھی صدر کے عہدے پر بنے رہ سکتے ہیں۔ہندوستان کی کسی بھی جماعت میں اندرونی جمہوریت نہیں ہے۔ اصولی طور پر اس کو قبولکرلینے میں کسی کو دقت نہیں ہونی چاہیے۔ اندرونی جمہوریت کا مطلب انتخاب کے عمل سے ہے۔ کسی بھی جماعت میں انتخاب نہیں ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر ہندوستان کی تمام جماعتوں نے مایوس کیا ہے، اگر ان کے حامیوں کو ان باتوں سے مایوسی ہوتی ہے تو۔
راہل گاندھی نے یوتھ کانگریس میں انتخاب کرانے کی کوشش کی اور کے جے راؤ سابق الیکشن افسر کو الیکشن کمشنر تقرر کیا تھا۔ کئی رہنما اس انتخاب کے عمل سے چنے گئے اور بعد میں راہل گاندھی نے اس کو چھوڑ دیا۔ مودی اور امت شاہ بتا سکتے ہیں کہ ان دونوں نے اس طرح کا کوئی تجربہ کیا ہے یا نہیں۔کانگریس میں سونیا گاندھی کو صدر بننے کے لئے انتخاب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ انتخاب سنگین ہو گیا تھا۔ جتیندر پرساد نے سونیا گاندھی کو چیلنج دیا تھا ۔ جتیندر پرساد ہارے مگر کانگریس سے نکالے نہیں گئے۔
جتیندر پرساد کانگریس میں ہی رہے اور ان کی بیوی انتخاب لڑی۔ ان کے بیٹے شاہ جہاں پور سے رکن پارلیامان بنے اور وزیر بھی بنے۔ مگر سونیا گاندھی کو چیلنج دینے والے جتیندر پرساد کی بھی ایک فیملی بن گئی ۔راجیش پائلٹ نے بھی صدر کے عہدے کا انتخاب لڑا تھا۔ ان کی موت کے بعد بیوی رکن پارلیامان بنیں اور بیٹے سچن پائلٹ اس وقت نائب وزیر اعلیٰ ہیں۔ گاندھی فیملی کو چیلنج دینے والوں کی بھی ایک فیملی ہے۔
کانگریس میں پریوارواد زیادہ ہے مگر کسی اور جماعت میں کم ہے ایسا نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی میں اس وقت جینت سنہا خاندانی ہیں۔ نرملا سیتارمن کے سسر کانگریس کی حکومت میں وزیر رہے ہیں۔ شوہر دو بار کانگریس کے ٹکٹ پر انتخاب لڑے۔ ایک بار بی جے پی سے انتخاب لڑے۔ تینوں میں ہار گئے۔پیوش گوئل کے والد وید پرکاش گوئل بی جے پی میں تھے۔ روی شنکر پرساد کے والد ٹھاکر پرساد بہار میں سنگھ کو قائم کرنے والے لوگوں میں گنے جاتے ہیں۔ بی جے پی کی نائب صدر وسندھرا راجے کی ماں وجیاراجے بی جے پی کی بانی ممبر تھیں۔ وسندھرا کے بیٹے دشینت رکن پارلیامان ہیں۔
انوراگ ٹھاکر پریم کمار دھومل کے بیٹے ہیں۔ والد وزیراعلیٰ رہے ہیں اور بیٹا رکن پارلیامان۔ 2017 میں یوپی میں انتخاب ہو رہا تھا۔ چند روز پہلے کلیان سنگھ کے پوتے سندیپ کو ٹکٹ ملتا ہے۔ انتخاب جیتتے ہیں اور سیدھے وزیر بن جاتے ہیں۔ سندیپ کے والد رکن پارلیامان ہیں۔ کلیان سنگھ راجستھان کے گورنر ہیں۔
کیلاش وجئے ورگیہ نے مدھیہ پردیش اسمبلی انتخاب میں اپنے بیٹے کو ٹکٹ دلوایا۔ وہ ایم ایل اے بن گئے ہیں۔ایسی کئی مثال بی جے پی سے دی جا سکتی ہیں۔ ہر جماعت سے دی جا سکتی ہیں۔ بی جے پی کی مددگار جماعت اکالی دل، لوک جن شکتی پارٹی، شیوسینا میں بھی پریوارواد ہے۔ وہاں بھی ٹھاکرے کی جگہ ٹھاکرے صدر ہوئے ہیں اور بادل کی جگہ بادل اور پاسوان کی جگہ پاسوان۔
بیجو جنتا دل کا بھی یہی حال ہے۔ بی جے پی نے محبوبہ مفتی کو وزیراعلیٰ بنایا۔ محبوبہ بھی پریوارواد کے کوٹہ سے آتی ہیں۔ اپنی جماعت میں کوئی اور صدر نہیں بنےگا۔ انوپریا پٹیل ہی بنیںگی۔اس طرح کی مثال اور دی جا سکتی ہیں۔ آر جے ڈی ، ترنمول، نیشنل کانفرنس، ایس پی۔ ان میں سے کسی بھی جماعت میں اندرونی جمہوریت نہیں ہے یعنی صدر کے عہدے کا انتخاب نہیں ہوتا ہے۔
کیا وزیر اعظم مودی اور امت شاہ یہ لائن لے سکتے ہیں کہ وہ اپنی پارٹی کے پریوارواد کو ختم کر دیںگے اور پریواروادی جماعت سے کوئی اتحاد نہیں کریںگے؟ کیا دونوں کے لئے پریوارواد کا مدعا صرف راہل اور پرینکا کے لئے ہے؟کیا وہ اسی الزام کو گاندھی، پاسوان، ٹھاکرے، یادو، پٹیل، بادل، نائیڈو کا نام لیتے ہوئے پریوارواد کو ختم کرنے کی اپیل عوام سےکر سکتے ہیں؟ دونوں کی سیاست ہی ختم ہو جائےگی۔
وزیر اعظم مودی کو بڑی اکثریت ملی۔ انہوں نے سیاست میں شفافیت لانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ الٹا قانون پاس کروا دیا کہ کون چندہ دےگا اب کوئی نہیں جان سکےگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو جو چندہ ملتا ہے اس کا 50 فیصد حصہ نامعلوم ذرائع سے آتا ہے۔کیا یہ دونوں وہپ سسٹم ختم کر سکتے ہیں؟ کیوں لوک سبھا یا راجیہ سبھا میں ووٹ کے وقت وہپ جاری ہوتا ہے، کسی رکن پارلیامان کو اپنے ادراک کی بنیاد پر خلاف ووٹ کرنے کا حق کیوں نہیں ہے؟ اس لئے ان دونوں کی دلچسپی نہ تو اندرونی جمہوریت لانے میں ہے اور نہ ہی شفافیت لانے میں۔ صرف تقریر کرنے میں ہے۔
راہل گاندھی بھی ایسا نہیں کریںگے اور نہ اروند کیجریوال۔ اس وقت پریوارواد سے تین ہی جماعت بچے ہیں۔ جےڈی یو، سی پی ایم اور عام آدمی پارٹی۔ بی ایس پی کو بھی آپ اس زمرہ میں ڈال سکتے ہیں۔ کانشی رام کے بعد مایاوتی صدر بنی تھیں۔ وہ کسی خاندان کی نہیں تھیں۔
کانشی رام تمام مثالوں میں سب سے پاک ہیں۔ اپنی فیملی کو سیاست سے دور رکھا۔ انگلی اٹھا کر کسی کو ایم ایل اے بنا دینے والے کانشی رام نے اپنی فیملی کے لوگوں کو اسمبلی یا لوک سبھا نہیں بھیجا، لیکن مایاوتی کے رہتے مایاوتی ہی صدر رہیںگی۔ بی ایس پی کی یہ صفت سکڑ چکی ہے۔ایک عام کارکن اور شہری کو پریوارواد کو لےکر فکرمند ہونا چاہیے؟ بالکل ہونا چاہیے۔ اگر سیاست گھرانوں کے حوالے ہوتی جائےگی تو اس میں نئی قابلیت کا جنم نہیں ہوگا۔ سیاست گروی ہو جائےگی۔ جو کہ ہو چکی ہے۔
اس سوال کو لےکر بےحد ایمانداری اور سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ پریوارواد ہی نہیں، پیسہ واد بھی چیلنج ہے۔ پیسہ نہیں ہے تو آپ اوپر تک پہنچ ہی نہیں پائیںگے۔نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر نے ایک کتاب لکھی ہے۔ اپنی ریسرچ میں بتایا ہے کہ 2004، 2009، 2014 میں لوک سبھا کے تقریباً 20 سے 30 رکن پارلیامان کا پس منظر خاندانی تھا۔ غنیمت ہے کہ لوک سبھا کی سطح پر یہ بیماری ابھی پھیلی نہیں ہے۔ ابھی بھی 80 فیصد رکن پارلیامان غیر خاندانی پس منظر سے آ رہے ہیں۔
ایک شہری اور کارکن کے طور پر محتاط رہنا چاہیے کہ سیاست چند گھرانوں کے ہاتھ میں نہ رہ جائے۔ لیکن اس سوال پر بحث کرنے کے لئے لائق نہ تو امت شاہ ہیں، نہ نریندر مودی اور نہ راہل گاندھی۔ صرف عوام اس کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی کوئی فیملی نہیں ہوتی ہے۔جب تک یہ رہنما کوئی صاف لائن نہیں لیتے ہیں، پریوارواد کے نام پر ان کی بکواس نہ سنیں۔ ٹی وی بند کر دیں۔ کیا عوام پریوارواد، یارواد اور پیسہ واد کو لےکر فکرمند ہیں ؟ عوام ہی بتا سکتے ہیں ۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر