سند رہے کہ 1998 کے انتخابات میں اکیلی پرینکا گاندھی نے اپنے انکل ارون نہرو کی لنکا ڈھا دی تھی۔ کانگریس کے امیدوار کیپٹن ستیش شرما کے سامنے بی جے پی نے ارون نہرو کو اتار دیا تھا۔
کیا پرینکا گاندھی 2019 کے الیکشن میں اپنا ‘علاقہ’ واپس حاصل کر لیں گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو آئندہ لوک سبھا الیکشن میں لگاتارموضوع بحث رہے گا۔ خاص طور سے مرکزی و مشرقی اتر پردیش میں اس سوال کی بڑی اہمیت ہے، جہاں کی کمان پرینکا گاندھی کو سونپی گئی ہے۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی جنرل سکریٹری بنائے جانے کے ساتھ ہی انہیں مشرقی اتر پردیش کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ صوبے کے اس علاقے میں لوک سبھا کی 30 سیٹیں ہیں۔ ان میں وارانسی کی سیٹ بھی ہے، جہاں سے 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے جیت حاصل کی تھی۔
سند رہے کہ 1998 کے انتخابات میں اکیلی پرینکا گاندھی نے اپنے انکل ارون نہرو کی لنکا ڈھا دی تھی۔ کانگریس کے امیدوار کیپٹن ستیش شرما کے سامنے بی جے پی نے ارون نہرو کو اتار دیا تھا۔ شرما کے لیے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے پوئے پرینکا نے ہندی میں کہا؛
مجھے آپ سے ایک شکایت ہے۔ میرے پتا کے منتری منڈل میں رہتے ہوئے جس نے غداری کی، بھائی کی پیٹھ میں چھرا مارا، جواب دیجیے، ایسے آدمی کو آپ نے یہاں گھسنے کیسے دیا؟ ان کی یہاں آنے کی ہمت کیسے ہوئی؟
یہی نہیں انہوں نے یہ کہہ کر تو ووٹرس کا دل جیت لیا کہ ؛
یہاں آنے سے پہلے میں نے اپنی ماں سے بات کی تھی۔ ماں نے کہا کسی کی برائی مت کرنا۔ مگر میں جوان ہوں، دل کی بات آپ سے نہ کہوں تو کس سے کہوں؟
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ برسوں اس علاقے کی نمائندگی کرنے والی، ملک کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی پوتی کے منہ سے یہ الفاظ سن کر ووٹرس پر کیا اثر ہوا ہوگا۔واقعتاْ پرینکا کی ان باتوں کا ایسا اثر ہوا کہ اٹل بہاری واجپائی جیسا تجربہ کار، ملک کی نبض پر ہاتھ رکھنے والا جادو بیان مقرر بھی اسے کم کرنے میں ناکام رہا۔ یہی نہیں واجپائی اس وقت وزیر اعظم بھی تھے۔ پرینکا کی تقریر کے ایک دن بعد وہ رائے بریلی آئے۔ اپنے مخصوص انداز میں انہوں نے پرینکا کی باتوں کے اثرکو یہ کہہ کر زائل کرنے کی کوشش کی کہ انہیں ‘رائے بریلی’ آنے میں ڈر لگ رہا تھا، کیونکہ یہ کسی اور کا ‘علاقہ’ تھا۔ لیکن سب بےکار ہی رہا۔ پرینکا کی باتوں نے تو گویا ارون نہرو کی ہار لکھ ہی دی تھی۔ کانگریس کارکنان کے لیے اس طرح کی تقریر اور بھی معاون یوں رہی کہ گاندھی خاندان سے تعلق رکھنے والی پرینکا اکلوتی ایسی شخصیت تھیں، جو اس ڈھنگ کی باتیں کر جاتی تھیں۔
1999 میں پرینکا نے ایک بار پھر اپنی معاملہ فہمی و دانش مندی کا ثبوت دیا۔ کرناٹک کے صنعتی علاقے ‘بیلّاری’سے سونیا گاندھی لوک سبھا کا الیکشن لڑ رہی تھیں۔ بی جے پی نے ان سے مقابلہ کرنے کے لیے تیز طرار سشما سوراج کو اتار دیا۔ سشما اپنے مخصوص انداز میں کام کر رہی تھیں اور کنڑ سیکھنے کے لیے پین تک لے گئی تھیں۔ میڈیا میں مستقل اس طرح کی باتیں چل رہی تھیں کہ سشما سوراج، اپنی مدِّ مقابل سونیا گاندھی کو مات دے دیں گی۔ ایسے وقت میں الیکشن پرچار بند ہونے سے ایک دن پہلے پرینکا وہاں پہنچتی ہیں۔ یہ پرینکا کی پرکشش شخصیت کا کمال تھا کہ پورا شہر انہیں دیکھنے و سننے کے لیے امڈ پڑا۔ اس کے بعد سشما کے سامنے صورتِحال پوری طرح کھل گئی۔ انہیں اب فیصلہ آنے کا انتظار نہیں تھا۔ وہ سمجھ گئی تھیں کہ میدان ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
2004 میں ہونے والے عام انتخاب کے وقت کانگریس کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ اس الیکشن کا مزاج سمجھنے کے لیے پارٹی نے ایک پروفیشنل ایجنسی کی خدمات لیں۔ اس ایجنسی کا کہنا تھا کہ تنہا سونیا گاندھی تب کے وزیر اعظم اور سیاست کے ماہر کھلاڑی اٹل بہاری واجپائی کا سامنا نہیں کر سکتی ہیں۔ راہل اور پرینکا کو سونیا کی قیادت میں سامنے آنا ہوگا، اس سے کانگریس اس قابل ہو پائے گی کہ وہ واجپائی کی قیادت والے این ڈی اے کا مقابلہ کر سکے۔ تب راہل برٹن میں ایک اچھی نوکری کر رہے تھے۔ انہوں نے کنسلٹینسی کی اس نوکری کو خیرباد کہا اور 2004 کے اوائل میں باقاعدہ سیاست کا دامن تھام لیا۔ نتیجہ حیرت انگیز رہا کہ اس الیکشن میں پارٹی نے واجپائی کی قیادت والے این ڈی اے کو بری طرح شکست دے ڈالی۔
گاندھی خاندان کو قریب سے دیکھنے والوں کے لیے پچھلے کئی مہینوں سے راہل کے کام کاج یہاں تک کہ اندازِ گفتگو میں بھی پرینکا کی جھلک کو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ حال ہی ودھان سبھا الیکشن میں فتح کے بعد راجستھان میں وزارتِ اعلیٰ کو لے کر ہوئی کھینچ تان سلجھانے میں پرینکا کا اہم کردار رہا۔ اشوک گہلوت و سچن پائلٹ دونوں اس اعلیٰ عہدے کے لیے دعوےداری پیش کر رہے تھے اور ان کے بیچ اسے لے کر سیاسی داؤ پیچ کا دور جاری تھی۔
اسی سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن میں پرینکا کے سامنے دو اہم معاملے ہیں۔ ایک تو وزیر اعظم مودی کی راہ روکنا، جو وارانسی سے ممبر آف پارلیامنٹ ہیں۔ دوسرا یو پی کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کو قابو میں کرنا، جن کا تعلق گورکھپور سے ہے۔ اگر ان دو بڑے رہنماؤں کو پرینکا مشرقی اتر پردیش تک ہی محدود کر دیتی ہیں تو یہ ان کا بڑا کام ہوگا۔ اس طرح بی جے پی الیکشن کے آخری ایام میں اپنے ان دو اہم لیڈران کی خدمات ملک کے دیگر حصوں میں نہیں لے پائےگی۔ یو پی میں کانگریس کا اچھا مظاہرہ بی جے پی کے لیے ایک بری خبر ہوگی، جہاں سے پارٹی ایک بار پھر اچھی خاصی سیٹیں جیتنے کی امید لگا رہی ہے۔
Categories: فکر و نظر