خبریں

سیڈیشن لاء کو ختم کرنے کی کوئی تجویز نہیں: مرکزی حکومت

یونین ہوم منسٹر ہنس راج اہیر نے کہا کہ مجرمانہ قوانین میں ترمیم ایک مسلسل کارروائی ہے اور اس پر ریاستی حکومتوں سمیت مختلف فریقوں سے صلاح کے بعد ہی کسی طرح کا فیصلہ لیا جاتا ہے۔

ہنس راج اہیر/ فوٹو: پی ٹی آئی

ہنس راج اہیر/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ سیڈیشن لاء کو ختم کرنے  کی ہماری  کوئی تجویز نہیں ہے۔ یونین ہوم منسٹر ہنس راج اہیر نے لوک سبھا میں یہ جانکاری دی۔ سیڈیشن لاء کے تحت زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا کا اہتمام ہے۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق؛اہیر نے منگل کو اس قانون کو رد کرنے کے تحریری سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا،’ حکومت ایسی کسی تجویز  پر غور نہیں کر رہی ہے۔’

انھوں نے کہا کہ  مجرمانہ قوانین میں ترمیم ایک مسلسل کارروائی ہے اور اس پر ریاستی حکومتوں سمیت مختلف فریقوں سے صلاح کے بعد ہی کسی طرح کا فیصلہ لیا جاتا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق؛ گزشتہ مہینے کانگریس کے سینئر رہنما کپل سبل نے مرکزی حکومت پر سیڈیشن لاء کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسے نوآبادیاتی قانون کہا تھا۔سبل نے اے این آئی کو کہا تھاکہ موجودہ  وقت میں ملک میں سیڈیشن قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ نوآبادیاتی قانون ہے۔ جو لوگ حکومت کے خلاف بولتے یا ٹوئٹ کرتے ہیں، ان پر سیڈیشن کے الزام لگا دیے جاتے ہیں۔مرکزی حکومت اس قانون کا غلط استعمال کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ سے 30 دسمبر کو ریٹائر ہوئے جسٹس مدن بی لوکور بھی کہہ چکے ہیں کہ سیڈیشن سے جڑی دفعہ 124 اے کے تجزیے کی ضرورت ہے۔ غور طلب ہے کہ مودی حکومت اقتدار کے خلاف اٹھ رہی آوازوں کے خلاف سیڈیشن کا الزام لگائے جانے کو لے کر تنقید کا سامنا کرتی رہی ہے۔ آسام میں بی جے پی حکومت کے 2016 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے وہاں کے 17 ضلعوں میں سیڈیشن کے 245 معاملے درج ہوئے ہیں۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو)کے اسٹوڈنٹ لیڈر کنہیا کمار اور دوسروں پر بھی 9 فروری 2016 کو یونیورسٹی کے کیمپس میں منعقد ایک پروگرام میں مبینہ ملک مخالف نعرے بازی سے متعلق سیڈیشن کے الزام لگے ہیں۔