دی ہندو میں این رام نے جو نوٹ چھاپا ہے وہ کافی ہے وزیر اعظم مودی کے کردار کو صاف صاف پکڑنے کے لئے۔ یہی نہیں حکومت نے اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ سے بھی یہ بات چھپائی ہے کہ اس ڈیل میں وزیر اعظم دفتر بھی شامل تھا۔
این رام نے دی ہندو میں رافیل ڈیل سے متعلق جو انکشاف کیا ہے وہ حیران کر دینے والا ہے۔ اس بار این رام نے وزارت دفاع کی فائل کا وہ حصہ ہی چھاپ دیا ہے جس میں اس بات پر سخت اعتراض کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم دفتر(پی ایم او) اپنی سطح پر اس ڈیل کو انجام دے رہا ہے اور اس کی جانکاری وزارت دفاع کو نہیں ہے۔ ایسا کیا جانا متوازی کارروائی مانی جائےگی جس سے اس ڈیل کے لئے بنائی گئی وزارت دفاع کی ٹیم کی حالت کمزور ہوتی ہے۔ یہ خبر اب صاف کر دیتی ہے کہ وزیر اعظم ملک کے لئے انل امبانی کے لئے چپ چاپ کام کر رہے تھے۔ وہی انل امبانی جن کی کمپنی 1 لاکھ کروڑ کے نقصان میں ہے اور سرکاری پنچاٹ (پنچوں کا فیصلہ)سے دیوالیہ ہونے کا سند مانگ رہی ہے۔
اس رپورٹ کو سمجھنے کے لئے کچھ باتوں کو دھیان میں رکھیں۔ رافیل کمپنی سے بات چیت کے لئے وزارت دفاع ایک ٹیم کی تشکیل کرتی ہے۔ اسی طرح فرانس کی طرف سے ایک ٹیم کی تشکیل کی جاتی ہے۔ دونوں کے درمیان لمبے وقت تک بات چیت چلتی ہے۔ مول بھاؤ ہوتا ہے۔ اچانک ہندوستانی ٹیم کو پتہ چلتا ہے کہ اس بات چیت میں ان کی جانکاری کے بغیر وزیر اعظم دفتر (پی ایم او)بھی شامل ہو گیا ہے اور وہ اپنی سطح پر شرطوں کو بدل رہا ہے۔این رام نے جو نوٹ چھاپا ہے وہ کافی ہے وزیر اعظم مودی کے کردار کو صاف صاف پکڑنے کے لئے۔ یہی نہیں حکومت نے اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ سے بھی یہ بات چھپائی ہے کہ اس ڈیل میں وزیر اعظم دفتر بھی شامل تھا۔ کیا یہ حکومت سپریم کورٹ سے بھی جھوٹ بولتی ہے۔ اس نوٹ کے مطابق بالکل جھوٹ بولتی ہے۔
این رام نے اپنی خبر کے ثبوت کے طور پر 24 نومبر 2015 کو جاری وزارت دفاع کے ایک نوٹ کا حوالہ دیا ہے۔ وزارت دفاع کی ٹیم نے وزیر دفاع منوہر پریکر کے دھیان میں لانے کے لئے یہ نوٹ تیار کیا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ، ہمیں وزیر اعظم دفتر کو صلاح دینی چاہیے کہ دفاعی معاہدے کے لئے بنی ہندوستانی ٹیم کا کوئی بھی افسر جو اس ٹیم کا حصہ نہیں ہے وہ فرانس کی طرف سے آزادانہ طورپر مول بھاؤ نہ کرے۔ اگر وزیر اعظم دفتر کو وزارت دفاع کے مول بھاؤ پر بھروسہ نہیں ہے تو مناسب سطح پر وزیر اعظم دفتر ہی بات چیت کا ایک نیا ضابطہ بنا لے۔
دی ہندوکے پاس جو سرکاری دستاویزات ہیں اس کے مطابق وزارت دفاع نے اس بات کی مخالفت کی تھی کہ وزیر اعظم دفتر نے جو قدم اٹھائے ہیں وہ وزارت دفاع اور اس کی ٹیم کی کوششوں کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ اس وقت کے دفاعی سکریٹری جی موہن کمار نے اپنے ہاتھ سے فائل پر لکھا ہے کہ وزیر دفاع اس پر دھیان دیں۔ وزیر اعظم دفتر سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس طرح کی آزادانہ بات چیت نہ کرے کیونکہ اس سے ہندوستانی ٹیم کی کوششوں کو دھکا پہنچتا ہے۔
کیا وزیر اعظم دفتر کو دفاعی سکریٹری پر بھروسہ نہیں ہے، اس بات چیت کے لئے بنی ٹیم کے چیف فضائیہ کے نائب صدر پر بھروسہ نہیں ہے؟ آخر گپ چپ طریقے سے وزیر اعظم دفتر نے بات چیت کیسے شروع کر دی؟ کیا ان کا جوائنٹ سکریٹری اپنی خواہش سے ایسا کر سکتا ہے؟ تب تو دو ہی بات ہو سکتی ہے۔ یا تو آپ قارئین کو ہندی پڑھنی نہیں آتی ہے یا پھر آپ نریندر مودی پر آنکھیں موندکر اعتماد کرتے ہیں۔ وزیر اعظم اس ڈیل میں ملک کے لئے وزیر دفاع، دفاعی سکریٹری اور فضائیہ کے نائب صدر کو اندھیرے میں رکھ رہے تھے یا پھر انل امبانی کے لئے؟
وزارت دفاع نے جو نوٹ بھیجا تھا اس کو نائب سکریٹری ایس کے شرما نے تیار کیا تھا۔ جس کو خرید منتظم اور مشترکہ سکریٹری اور خرید عمل کے ڈائریکٹر جنرل دونوں نے ہی حمایت دی تھی۔ وزارت دفاع کے اس نوٹ سے پتا چلتا ہے کہ ان کو اس کی بھنک تک نہیں تھی۔ 23 اکتوبر 2015 تک کچھ پتہ نہیں تھا کہ وزیر اعظم دفتر بھی اپنی سطح پر رافیل ہوائی جہاز کو لےکر بات چیت کر رہا ہے۔
اس نوٹ میں لکھا ہے کہ فرانس کی ٹیم کے صدر جنرل اسٹیفن ریب سے وزیر اعظم دفتر بات چیت کر رہا تھا۔ اس کی جانکاری ہندوستانی ٹیم کو 23 اکتوبر 2015 کو ملتی ہے۔ اس نوٹ میں فرانس کی وزارت دفاع کے ڈپلومیٹک مشیر لوئی ویسی اور وزیر اعظم دفتر کے جوائنٹ سکریٹری جاوید اشرف کے درمیان ہوئے ٹیلی فون مذاکرہ کا ذکر ہے۔ یہ بات چیت 20 اکتوبر 2015 کو ہوئی تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ اپریل 2015 میں وزیر اعظم نے پیرس میں ڈیل کا اعلان کر دیا تھا۔ 26 جنوری 2016 کو جب اولاند ہندوستان آئے تھے تب اس ڈیل کو لےکر سمجھوتہ خط پر دستخط ہوا تھا۔
ہندوستان کی طرف سے جو ٹیم بنی تھی اس کے صدر فضائیہ کے نائب صدر ایئر مارشل ایس بی پی سنہا تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم دفتر کے جوائنٹ سکریٹری جاوید اشرف کو بتایا کہ ایسی بات چیت ہو رہی ہے تو جاوید اشرف نے جواب میں لکھا کہ ہاں بات چیت ہوئی تھی۔ جاوید یہ بھی کہتے ہیں کہ فرانس کی ٹیم کے مکھیا نے اپنے صدر اولاند کی صلاح پر ان سے گفتگو کی تھی اور جنرل ریب کے خط کابھی ذکر ہوا تھا۔ اسی خط کو لےکر بھی وزارت دفاع نے وزیر اعظم دفتر کو لکھا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ستمبر 2018 میں فرانس کے سابق صدر ؤلاند نے ایسوسی ایٹ پریس سے کہا تھا کہ ان پر ریلائنس گروپ کو شامل کرنے کا دباؤ ڈالا گیا تھا۔ اس کے لئے نیا فارمولا بنا تھا۔
وزارت دفاع کے نوٹ میں وزیر اعظم دفتر کی طرف سے ہونے والی بات چیت کو متوازی کارروائی بتایا ہے۔کہا ہے کہ اس سے ہندوستانی ٹیم کی اس ڈیل میں دعوےداری کمزور ہوتی ہے۔ جب وزارت دفاع بات چیت کر ہی رہی تھی تو بنا اس کی جانکاری کے وزیر اعظم دفتر اپنی سطح پر کیوں بات چیت کرنے لگا۔ نوٹ میں لکھا ہے کہ اس طرح کی متوازی بات چیت سے فرانس کو فائدہ ہو رہا تھا۔ جب بات سیدھے وزیر اعظم دفتر سے ہو رہی تھی تو فرانس کو بھی پیغام چلا ہی گیا ہوگا کہ اس میں جو بھی کرنا ہے وزیر اعظم کریںگے۔ وزیر دفاع یا ان کی وزارت کی کمیٹی سے کچھ نہیں ہوگا۔
جنرل ریب اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ فرانس کے ڈپلومیٹک مشیر اور وزیر اعظم کےجوائنٹ سکریٹری کے درمیان جو بات چیت ہوئی ہے اس میں یہ طے ہوا ہے کہ کوئی بینک گارنٹی نہیں دی جائےگی۔ جو لیٹر آف کنفرٹ ہے وہ کافی ہے۔ اس کو ہی کمپنی کی طرف سے گارنٹی مانا جائے۔ اسی کو لےکر سوال اٹھ رہے تھے کہ بغیر خودمختار گارنٹی کے یہ ڈیل کیسے ہو گئی۔ حکومت گول مول جواب دیتی رہی۔
Categories: فکر و نظر