اتر پردیش کے سابق وزیراعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے ‘دی وائر ہندی’کے دو سال پورے ہونے پر نئی دہلی میں منعقد’دی وائر ڈائیلاگس’میں لوک سبھا انتخابات کی حکمت عملی اور بی ایس پی کے ساتھ کئے گئے اتحاد پر اپنے خیالات کااظہار کیا۔
نئی دہلی: 1977 میں جنتا پارٹی کی حکومت کو توڑنے والے متنازعہ’دوہری رکنیت’کے مدعے کو اٹھاتے ہوئے اتر پردیش کے سابق وزیراعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے و بی جے پی کی ہندتووادی نظریے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔اکھلیش نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی ملک کے آئین کے لئے نہیں بلکہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے لیے زیادہ وقف ہے۔گزشتہ 9 فروری کو نئی دہلی کے تین مورتی بھون میں’دی وائر ڈائیلاگس ‘ میں بولتے ہوئے اکھلیش نے کہا، آج اقتدار میں دو حلف لینے والے لوگ بیٹھے ہیں اب ملک کی عوام طے کر چکی ہے کہ نئی حکومت بنائیںگے۔ اب سائیکل(ایس پی کا انتخابی نشان) اور ہاتھی(بی ایس پی کا انتخابی نشان)ساتھ ساتھ چلیںگے۔ ‘
بی ایس پی صدر مایاوتی کے ساتھ کئے گئے اتحاد میں سے کانگریس کو باہر کئے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، کانگریس اتحاد کا حصہ ہے۔ ممتا بنرجی نے جب بنگال میں حزب مخالف کی ریلی کی تب وہاں تمام پارٹیاں موجود تھیں، جس میں کانگریس بھی شامل تھی۔ ‘انہوں نے کہا، کانگریس اتر پردیش میں بھی اتحاد کا حصہ ہے۔ ہم نے کانگریس کے لئے دو سیٹیں چھوڑ دی ہیں۔ ریاست میں صرف 80 سیٹیں ہیں۔ اگر اور زیادہ سیٹیں ہوتیں تو ہم ان کو اور دینے کے بارے میں سوچتے۔
اتر پردیش کے سابق وزیراعلیٰ’دی وائر ہندی’کے دو سال مکمل ہونے پرمنعقد پروگرام ‘دی وائر ڈایئلاگس ‘میں سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کے ساتھ بات کر رہے تھے۔اتر پردیش میں کانگریس جنرل سکریٹری کے طور پر پرینکا گاندھی کے سامنے آنے پر انہوں نے کہا،میں ان کا استقبال کرتا ہوں۔ نئے لوگوں کے شامل ہونے سے ہی ملک میں سیاست بدلےگی۔ریاست میں کانگریس کے تمام سیٹوں پر لڑنے سے ایس پی –بی ایس پی اتحاد پر پڑنے والے فرق کے بارے میں پوچھے جانے پر اکھلیش نے کہا، جہاں دو پارٹیاں اتحاد کرکے بی جے پی کو روکنے کے لئے انتخاب لڑ رہی ہیں وہیں دیگر پارٹیاں انتخاب کا استعمال اپنی پارٹی بنانے کے لئے کر رہی ہیں۔
واضح ہو کہ جنتا پارٹی کئی کانگریس مخالف جماعتوں کا اتحاد تھا، جس میں سماجوادیوں کے ساتھ بھارتیہ جن سنگھ (بی جے ایس) بھی شامل تھی۔ بی جے ایس، بی جے پی کا ہی پرانا نام تھا۔1977 میں جنتا پارٹی کی حکومت تب گر گئی تھی جب سماجوادیوں نے جن سنگھ کے وزراء کی دوہری رکنیت(جنتا پارٹی اور آر ایس ایس)پر سوال اٹھایا۔ اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن اڈوانی کے ذریعے آر ایس ایس کی رکنیت چھوڑنے سے انکار کے بعد جنتا پارٹی بکھر گئی۔ اس کے بعد بھارتیہ جن سنگھ نے نئی پارٹی بنائی جس کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی رکھا گیا۔
بی جے پی کے رہنماؤں کے ذریعے مبینہ طور پر’دو حلف’لینے پر طنز کرتے ہوئے ایس پی صدر نے کہا، بی جے پی کو سمجھنے کے لئے اس سے بہتر مثال نہیں مل سکتی ہے۔ یوپی میں اگر بندر پریشان کرنے لگتے ہیں تو وزیراعلیٰ آپ سے ہنومان چالیسا پڑھنے کو کہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ آپ کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ ندی میں پوتر ڈبکی کیسے لگاتے ہیں۔ لیکن جہاں بات حکومت چلانے کی آتی ہے ان کو کچھ نہیں پتہ ہوتا ہے۔ ‘
انہوں نے آگے کہا، موجودہ اقتدار میں دو حلف لینے والے لوگ بھرے پڑے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں دیکھنے والا ہے کہ کس طرح سے آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ آر ایس ایس کے لوگ آج اونچے عہدوں پر بیٹھے ہیں۔یونیورسٹیوں میں 13 پوائنٹ روسٹر کے حالیہ تنازعے کے بارے میں سوال پوچھے جانے پر انہوں نے کہا، آر ایس ایس کے لوگ ہی اب وائس چانسلر بن رہے ہیں تو 13 پوائنٹ روسٹر تو ہوگا ہی۔ گورنر بھی سارے انہی کے لوگ ہیں۔
دراصل اکیڈمک دنیا میں کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ روسٹر کے نئےنظام سے دلتوں اور آدیواسیوں کے لئے ریزرو عہدوں کی تعداد کم ہو جائےگی۔ ان کی مانگ ہے کہ پچھلے سسٹم کے تحت 200 پوائنٹ روسٹر کو ہی دوبارہ نافذ کیا جائے۔اکھلیش یادو نے گورنر ہاؤس پر چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس سے جڑے گورنر گہری نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا،یوپی میں لگاتار کئے جا رہے آئین کی خلاف ورزی پر گورنر نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔ سیاسی بحث کی سطح کو بی جے پی نے بہت گرا دیا ہے۔ وہاں کتنا انتشار پھیلا ہوا ہے لیکن گورنر ان کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ ‘
وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے متحدہ حزب مخالف کو ‘مہاملاوٹ ‘قرار دئے جانے پر انہوں نے کہا کہ حزب مخالف اتحاد صرف کوئی انتخابی ایجنڈہ نہیں ہے بلکہ نظریات کا سنگم ہے۔اکھلیش یادو نے کہا، بی جے پی جب بھی اقتدار میں آتی ہے تب وہ اتحاد پر منحصر رہتی ہے۔ 2014 میں ہی بی جے پی نے یوپی میں چھوٹی-چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ اس کو آپ کیا کہیںگے؟انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ جن جماعتوں میں آپسی اختلافات تھے، وہ بی جے پی کی مخالفت کرنے کے لئے ایک ساتھ آئے اور انہوں نے سیاسی مخالفین کے لئے نفرت والی سیاست کی مخالفت کی۔
انہوں نے کہا، آپ نے (مرکزی حکومت) اپنے سیاسی دشمنوں کے خلاف سی بی آئی جیسی ایجنسی چھوڑ رکھی ہیں۔ حزب مخالف کے خلاف جس طرح کے الفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے اور جیسی قانونی کارروائی کی جا رہی ہے ویسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ بی جے پی پاکستان سے نصیحت لے رہی ہے جہاں جب کوئی وزیر اعظم انتخاب ہارتا ہے تب اس کو ملک چھوڑکر بھاگنا پڑتا ہے۔ ‘یہ پوچھے جانے پر کہ دشمنی ہونے کے باوجود ایس پی اوربی ایس پی کے ساتھ کیسے آ گئے تو اکھلیش نے کہا، ‘ 25 سال کا جھگڑا میں نے 25 منٹ میں ختم کر دیا۔ ‘
انہوں نے کہا، میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان (پچھڑوں کے لئے کھڑی ہونے والی دو پارٹیاں) اختلاف پیدا کرنے والے لوگوں کو اب باہر بھیج دیںگے۔ ‘ حالانکہ انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ بی جے پی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں یا اپنی پارٹی کے لوگوں کی طرف۔یادو نے کہا، ہمارے اقتدار میں رہنے کے دوران وہ (بی جے پی) ہمیشہ کہتے تھے کہ سرکاری دفتروں میں یادو کا دبدبہ قائم ہو گیا ہے۔ اس معاملے میں یوپی کی نئی حکومت نے ایک جانچ کمیشن بھی تشکیل کی لیکن وہ آج تک رپورٹ پیش نہیں کر سکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دعووں کی حمایت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ انہوں نے یوپی کے لوگوں کو بیوقوف بنایا۔ ‘
انہوں نے کہا، دوسری طرف آج آپ یوپی میں سرکاری دفتروں یا پولیس اسٹیشنوں، کہیں بھی چلے جائیں تو لوگ مسائل کا حل کرنے سے پہلے ان کی ذات کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بی جے پی نے پہلے تو صرف مذہبی بنیاد پر سماج کو بانٹا تھا لیکن اب وہ مختلف ذاتوں میں بھی نفرت پیدا کر رہے ہیں۔ ‘انہوں نے کہا، بی جے پی نے ہمیں احساس کرایا کہ ہم پچھڑے ہیں۔ میں ایک ذات میں جنما ہوں۔ اپنے جنم پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے۔ لیکن میری حکومت نے لوگوں کو لیپ ٹاپ دئے اور حاشیے پر پڑے لوگوں کے فائدے پر دھیان مرکوز کیا، لیکن بی جے پی چاہتی ہے کہ ہم آگے نہ بڑھ پائیں۔ ‘
مرکزی حکومت کے ذریعے حال ہی میں اقتصادی طور پر پچھڑوں کے لئے نافذ کئے گئے 10 فیصد ریزرویشن کے سوال پر انہوں نے کہا، میرا کہنا ہے کہ تمام طبقوں کو ان کی آبادی کی بنیاد پر ریزرویشن دیا جائے۔ سبھی کو گن لیا جائے۔ اس دوران انہوں نے مانگ کی کہ کچھ سالوں پہلے کرائی گئی ذات کی بنیاد پر مردم شماری کے اعداد و شمار کو عام کیا جانا چاہیے۔ ‘
کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عام طبقے کو ریزرویشن دئے جانے کا مطلب ہے کہ مستقبل میں متناسب ریزرویشن دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ اس حالت میں دیگر پچھڑے طبقہ کی کمیونٹی کو نوکریوں میں سب سے زیادہ حصہ ملےگا جو کہ آبادی کے حساب سے سب سے زیادہ ہے۔یادو کا بیان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اس دلیل کو مستقبل میں اپنا سیاسی ہتھیار بنا سکتے ہیں کیونکہ ان کے رائےدہندگان کی بہت بڑی تعداد او بی سی کمیونٹی کی ہے۔
Categories: خبریں