کیا واقعی بہتر شرطوں پر ڈیل ہوئی؟ سی اے جی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ ڈیل صرف اور صرف داسو کی شرطوں پر ہوئی۔ میک ان انڈیا کی شرط کا کیا ہوا، کچھ نظر نہیں آیا۔
“TR2” million €, “TR5” million €, “TR7” million €, “ST11” M€,“ST12” M€. , “AZ8” M€, “ASN” M€,“IS1” M€, “T” million €,` “XXZ”crore, “TIK” billion €. , ` “E(+)” crore ,` “H(+)” crore, ` “E” crore।
عام طور پر گرگر جیسی لگنے والی ایسی زبان کارٹون کے کریکٹر بولتے ہیں۔مگر یہ ہندوستان کے سی اے جی کی زبان ہے۔اسی زبان میں سی اے جی راجیو مہرشی نے ہندوستان کی عوام کو رافیل طیارے کا حساب سمجھا دیا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس کو البرٹ آئنسٹائن بھی سمجھنے میں البلا جائیں گے۔سی اے جی میں راجیو مہرشی کے جد امجد ونود رائے نے 2 جی گھوٹالہ میں تقریباً پونے دو لاکھ کروڑ کا اعداد و شمار دے دیا تھا۔ آج تک یہ رقم نہ ثابت ہوئی اور نہ بر آمد ہو سکی۔ ونود رائے اب بیک اسٹیج میں جا چکے ہیں تاکہ سامنے آنے پر لوگ اس سوال کو لےکر گھیر نہ لیں۔
13 فروری کو سی اے جی نے رافیل معاملے میں اپنی آڈٹ رپورٹ پارلیامنٹ میں رکھ دی۔ کارٹون کریکٹر کی زبان میں قیمت سمجھانے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ 6 فروری 2019 کو وزارت دفاع نے خط بھیجا ہے کہ یو پی اے کے وقت کی شرطوں کے مطابق ڈیل سے متعلق کچھ باتیں نہیں بتانی ہیں۔ اس سے پہلے 15 جنوری 2019 کو بھی وزارت دفاع کا خط آیا تھا کہ پیرس ڈیل کے مطابق کچھ باتوں کو نہیں بتا سکتے۔سوچیے6 فروری تک وزارت دفاع بتا رہی ہے کہ ڈیل کو لےکر قیمتوں کے بارے میں نہیں بتانا ہے۔ 13 فروری کو رپورٹ پارلیامنٹ میں رکھی جاتی ہے۔آپ چاہیں تو اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ سب مینج کئے جانے کی نشانی ہے یا سی اے جی آخری وقت تک کام کرتی ہے۔ ویسے وزیر لوگ ہی الگ الگ مرحلوں میں قیمت بتا چکے تھے۔
مارچ 2016 میں ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ سے ہاک Mk 132 AJT ایئرکرافٹ کی آڈٹ رپورٹ میں قیمتوں کا تفصیلی بیورہ ہے۔ مارچ 2015 سی اے جی رپورٹ میں روس سے نئی جنریشن کے MiG29K کی خرید کی آڈٹ میں بھی قیمتوں کی پوری تفصیل ہے۔ مگ طیارے کی خرید میں قیمت بتانے کی شرط نہیں ہے۔ رافیل کی ڈیل میں قیمت بتانے کی شرط ہے۔ جبکہ مگ بھی کم بہترین طیارہ نہیں ہے۔سی اے جی کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ داسو ایویشن اور وزارت دفاع کے درمیان 15 سال سے جو بات چیت چلی آ رہی تھی، اس کو مارچ 2015 میں منسوخ کر دیاگیا۔ پھر وزارت دفاع سی اے جی کو 6 فروری 2019 کو خط کیوں بھیجتا ہے کہ پرانی ڈیل کے مطابق کچھ باتیں نہیں بتا سکتے۔ پرانی ڈیل تو منسوخ ہو چکی تھی۔ کیا سی اے جی نے وزارت دفاع کے بھیجے خط بنا سوالوں کے قبولکر لیا؟
اس کے بعد سی اے جی 2000 سے مارچ 2015 کے درمیان کی کارروائی کی تفصیل دیتی ہے۔ وزارت دفاع سات الگ الگ زمروں کا فارمیٹ بناتا ہے اور داسو ایویشن سے کہتا ہے کہ اس کے مطابق سے بھرکے بتائیں کہ پوری کارروائی کی لاگت کتنی ہوگی۔ داسو اس فارمیٹ کے مطابق لاگت نہیں بتاتی ہے۔ سی اے جی اس بات کی تنقید کرتی ہے لیکن سوال نہیں اٹھاتی ہے کہ داسو کے ساتھ سختی کیوں نہیں کی گئی؟معاہدہ رد ہونے کی دوسری وجہ بتائی جاتی ہے۔ پہلی، ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ نے 108 طیارے بنانے میں انسانی گھنٹے کا صحیح حساب نہیں کیا۔ دوسری داسو نے کہا کہ ہندوستان میں بنانے کا لائسنس تو دے دیںگے مگر کیسا طیارے بنےگا اس کی گارنٹی نہیں دیںگے۔ اس بات پر بات چیت رک جاتی ہے اور پھر ٹوٹ بھی جاتی ہے۔
اس بیچ جولائی 2014 میں یوروفائٹر بنانے والی کمپنی 20 فیصد کم قیمت پر پیشکش کرتی ہے۔ وزارت دفاع نے سی اے جی کو بتایا کہ ایک تو یوروفائٹر کی کمپنی بغیر مانگے تجویز لےکر آ گئی اور دوسری ان کی تجویز میں بھی کمیاں تھیں۔ کیا کمیاں تھیں اس کا ذکر نہیں ہے۔ دھیان رہے کہ صلاحیت کے پیمانے پر رافیل اور یوروفائٹر کو یکساں طورپر بہتر پایا گیا تھا۔لیکن کمیاں تو داسو کی تجویز میں بھی تھیں۔ نہ لائسنس دے رہی تھی اور نہ ہی گارنٹی۔ مارچ 2015 میں 15 سال سے چلی آ رہی ڈیل ردہو جاتی ہے۔
10 اپریل 2015 کو پیرس میں وزیر اعظم مودی اور فرانس کے اس وقت کے صدراولاند نئی ڈیل کا اعلان کرتے ہیں۔طے ہوتا ہے کہ بہتر شرطوں پر ڈیل ہوگی اور میک ان انڈیا پر زور ہوگا۔ کیا واقعی بہتر شرطوں پر ڈیل ہوئی؟ سی اے جی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ ڈیل صرف اور صرف داسو کی شرطوں پر ہوئی۔ میک ان انڈیا کی شرط کا کیا ہوا، کچھ نظر نہیں آیا۔قاعدے سے پرانی ڈیل رد ہو گئی تو کیا نئی خرید کے لئے ٹینڈر ہوا؟ اس پر سی اے جی گول کر گئی ہے۔ 12 مئی 2015 کو انڈین نگوشی ایشن ٹیم کی تشکیل ہوتی ہے۔
دی ہندو اور دی وائر کی رپورٹ میں اسی انڈین نگوشیٹنگ ٹیم کے تین ممبروں کے اعتراض کی خبر چھپی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ جو ہو رہا ہے وہ مالی ایمانداری کی بنیاد کے خلاف ہے۔ ان کے اعتراض کے بارے میں سی اے جی کچھ نہیں کہتی ہے۔ اس نوٹ کا بھی ذکر نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ رپورٹ سی اے جی نہیں، وزارت دفاع بنوا رہی ہے۔انڈین نگوشیٹنگ ٹیم کے ممبروں کا اعتراض تھا کہ ڈیل سے بد عنوانی مخالف شرطوں کو کیوں ہٹوایا گیا۔ 2012 میں جب کچھ شکایتں آئی تھیں تب وزیر دفاع کو آزادانہ ایجنسی سے تفتیش کروانی پڑی تھی کہ بد عنوانی مخالف شرطوں پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں۔ سی اے جی نے لکھا ہےکہ نئی ڈیل میں تو یہ شرط ہی ہٹا دی گئی۔ کیوں بھائی؟
جبکہ اگست 2016 میں وزیر اعظم کی صدارت میں دفاعی معاملوں کی کمیٹی نے منظوری دی تھی۔ مگر ستمبر 2016 میں وزارت دفاع اپنی سطح پر میٹنگ کرکے بد عنوانی مخالف شرطوں کو ہٹا دیتی ہے۔ اس کے بارے میں بھی سی اے جی خاموش ہے۔سی اے جی نے قیمتوں کے معاملے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ 126 طیارے کی قیمت کا مقابلہ 36 طیارے کی قیمت سے نہیں ہو سکتا ہے۔ داسو ایویشن اپنی سالانہ رپورٹ میں رافیل کی قیمتوں کا ذکر کرتی ہے۔ سی اے جی نے اس قیمت سے موازنہ کیوں نہیں کیا؟
وزیر خزانہ جیٹلی کہتے ہیں کہ 2007 کےمعاہدہ اور 2015 کے معاہدہکے درمیان تکنیک بہتر ہو چکی تھی۔ اس لحاظ سے ہم نے کم قیمت میں بہتر تکنیک سے لیس طیارے حاصل کئے۔ ایسے دیکھا جائے تو طیارہ یو پی اے کے ٹائم سے سستا پڑا۔اس ڈیل کو تفصیل سے پیش کرنے والے صحافی اجئے شکلا کہتے ہیں کہ تکنیکی معاملے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جیٹلی باتوں کو گھما رہے ہیں۔ اسی تکنیک پر طیارہ خریدا گیا ہے جو یو پی اے کے وقت تھا۔ اس لحاظ سے پرانی چیز نئی قیمت پر لی گئی تو ہندوستان کو نقصان ہوا ہے۔
سی اے جی کی رپورٹ بھی ثابت کرتی ہے کہ بینک گارنٹی، خودمختار گارنٹی اور اسکرو اکاؤنٹ کھولنے کی بات سے داسو نے منع کر دیا۔ ہندوستان نے کہا بھی تھا۔ تو ہندوستان ہر بار منع کرنے پر مجبور کیوں رہا، اس کا جواب نہیں ملتا ہے۔ایک دلیل دی گئی ہے کہ بینک گارنٹی دینے پر بینک کو چارج دینا پڑتا جو کئی ملین یورو ہوتا۔ مگر داسو جو ریٹ بتاتی ہے اور ہندوستانی فریق جو ریٹ بتاتا ہے دونوں میں کافی فرق ہے۔ ہندوستان نے کیا پنجاب نیشنل بینک سے پوچھکر ریٹ بتایا تھا!
اب کہا جا رہا ہے کہ بینک گارنٹی نہیں دینے سے داسو کے ملین ڈالر بچ گئے۔ میڈیا رپورٹ میں داسو کو 500 ملین یورو سے زیادہ کا فائدہ بتایا گیا ہے۔ اجئے شکلا کہتے ہیں کہ ان سب رعایتوں کو جوڑ لیں تو قیمت کم نہیں ہوئی ہے۔ ہندوستان نے پہلے کے مقابلے میں زیادہ قیمت پر رافیل خریدا۔سی اے جی کہتی ہے کہ پرانی قیمتوں سے 2.8 فیصد کم پر ڈیل پر خرید ہوئی ہے۔ اب سی اے جی نے تو حساب کارٹون کریکٹر کی زبان میں لگایا ہے تو ہم کیسے سمجھیں۔ کیا شرطوں میں یہ لکھا تھا کہ کروڑوں میں نہیں بتانا ہے لیکن 2.8 یا 3.4 فیصد میں بتا سکتے ہیں؟ مطلب مذاق کرنے کی چھوٹ ہے۔
جیٹلی اور ان کے مددگاروں نے کہا تھا کہ یو پی اے کے مقابلے میں 9 سے 20 فیصد سستی قیمتوں پر رافیل خریدا گیا۔ اب وہ 2.5 فیصد کم پر خوش ہیں۔ مگر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سی اے جی کم بتاتی ہے۔ ویسے سی اے جی نے 2 جیکے معاملے میں کیوں اتنا زیادہ بتا دیا، جیٹلی جی نے ونود رائے سے پوچھا نہیں۔دو ممالک کے درمیان سمجھوتہ تھا تو تنازعے کی حالت میں فرانس نے کنارہ کیوں کر لیا۔ قانونی جھگڑا ہوگا تو مقدمہ ہندوستان اور داسو ایویشن کے درمیان ہوگا۔ ہندوستان جیت گیا اور داسو نے حرجانہ نہیں دیا تو پھر ہندوستان مقدمہ لڑےگا۔ تب جاکر فرانس کی حکومت پیسہ دلانے کی کوشش کرےگی۔
ہندوستان کی خودمختاری اور خودداری کو داؤ پر لگاکر رافیل طیارے کے لئےمعاہدہ کیوں ہوا؟
(یہ مضمون رویش کمار کےفیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر