جے این یو، ساوتری بائی پھولے پونے یونیورسٹی اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف دلت اسٹڈیزکے ذریعے دو سال تک کئے ایک مطالعے میں سامنے آیا ہے کہ ملک کی کل جائیداد کا 41 فیصد ہندو اشرافیہ اور 3.7 فیصد ایس ٹی ہندوؤں کے پاس ہے۔
نئی دہلی: ہندوستان میں ذات اب بھی انسان کی زندگی میں اہم کردار نبھا رہا ہے اور تعلیم، کاروبار، آمدنی اور جائیداد جیسے اہم پہلو ذات کی بنیاد پر طے ہو رہے ہیں۔ملک میں ہندو کمیونٹی کے اشرافیہ طبقے کے 22.3 فیصد لوگوں کے پاس ملک کی کل جائیداد کا 41 فیصد ہے اور یہی لوگ سب سے دولتمند گروپ بناتے ہیں۔ وہیں ملک کی جائیداد کا صرف 3.7 فیصد حصہ 7.8 فیصدایس ٹی ہندوؤں کے پاس ہے، جو ملک کی جائیداد کا سب سے کم حصہ ہے۔انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، جواہرلال نہرو یونیورسٹی(جے این یو)، ساوتری بائی پھولے پونے یونیورسٹی(ایس پی پی یو)اورانڈین انسٹی ٹیوٹ آف دلت اسٹڈیز کے ذریعے کئے گئے ایک مشترکہ مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے۔
جائیداد کے معاملے میں ملک کے ٹاپ 1 فیصد گھروں کے پاس ملک کی کل جائیداد کا 25 فیصد ہے، وہیں ٹاپ-5 فیصد گھروں کے پاس ملک کی کل جائیداد کا 46 فیصد ہے۔اشرافیہ ہندوؤں کے پاس ملک کی کل جائیداد کا 41 فیصد ہے، وہیں’ہندو او بی سی’کے پاس 30 فیصد، دیگر کے پاس 9 فیصد، مسلمانوں کے پاس 8 فیصد، ہندو ایس سی کے پاس 7.6 فیصد اور ہندو ایس ٹی کے پاس 3.7 فیصد جائیداد ہے۔اس کے برعکس جائیداد کے معاملے میں ملک کے نچلے 40 فیصد گھروں کے پاس ملک کی کل جائیداد کا صرف 3.4 فیصد حصہ ہے۔ این ایس ایس اوکے کل ہندقرض اور سرمایہ کاری سروے کے مطابق یہ فیصد 361919 ارب روپے کے برابر ہے۔
یہ مطالعہ سال 2015 سے 2017 کے درمیان کیا گیا تھا، جس کا نتیجہ حال ہی میں جاری کیاگیا۔ دو سالوں کے اس مطالعے میں 20 ریاستوں کے 110800 گھروں کو شامل کیا گیا، جن میں سے 56 فیصد شہری علاقوں میں اور باقی دیہی علاقوں میں ہے۔
مطالعے کے لئے آبادی کی کئی گروہوں میں درجہ بندی کی گئی تھی،ایچ ایس سی،ایچ ایس ٹی، ایچ ایس سی،ایچ ایس ٹی،این ایچ ایس سی،این ایچ ایس ٹی، ہندو دیگر پچھڑا طبقہ (ہندو پچھڑا طبقہ)، ہندو اعلیٰ ذات (ہندو اعلیٰ ذات)، مسلم دیگر پچھڑا طبقہ (مسلم پچھڑا طبقہ)، مسلم اعلیٰ ذات (مسلم اعلیٰ ذات) اور دیگر۔اس رپورٹ کے اہم قلمکار اور ایس پی پی یو کے شعبہ اقتصادیات کے اسسٹنٹ پروفیسر نتن تگاڈے نے بتایا، ملک میں اب بھی تعلیم کی سطح، ملازمت کی شکل، اس سے ہونے والی آمدنی اور جائیداد ذات سے ہی طے ہوتی ہے۔ اگر جائیداد کی ملکیت کی بات کریں تو بھلےہی یہ زمین کی شکل میں ہو یا عمارت کی، کسی اور ذات کے مقابلے یہ ہندو اشرافیہ کے پاس سب سے زیادہ ہے۔ ‘
محققین نے یہ بھی پایا کہ جائیداد کی تقسیم اس بات پر بھی منحصر کرتی ہے کہ اس ذات کی آبادی شہر میں رہتی ہے یا گاؤں میں۔ مثال کے لئے، شہری علاقوں میں 34.9 فیصد جائیداد ہندو اشرافیہ کے پاس ہے، وہیں اسی ذات کے گاؤں میں رہنے والے لوگوں کے پاس کل جائیداد کا 16.7 فیصد رکھتے ہیں۔اسی طرح ہندو ایس ٹی دیہی نسبتاً امیر ہیں، جہاں ان کے پاس جائیداد کے کل فیصد کا 10.4 فیصد ہے۔ وہیں شہروں میں رہنے والے ان کی کمیونٹی کے لوگ کل جائیداد کا محض 2.8 فیصد حصہ رکھتے ہیں۔
اس فرق کی بات کرتے ہوئے جے این یو کے پروفیسر اور معاون-محقق سکھدیو تھوراٹ کہتے ہیں، ہندو ایس ٹی بہت ہی کم تعداد میں پڑھائی یا نوکری، جن دونوں کے لئے ریزرویشن کی ضرورت ہوتی ہے، کے لئے شہری علاقوں میں ہجرت کرتے ہیں۔ حالانکہ ایس ٹی مہاجر آبادی کا زیادہ تر حصہ ان آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کر رہا ہے اور ان کی آمدنی بےحد کم ہے۔ یہی اہم وجہ ہے کہ شہروں کی جھگیوں میں رہنے والی بڑی تعداد ہندو ایس ٹی کی ہے۔ ‘مطالعے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تاریخ میں جائیداد اور اور تعلیم کا حق صرف اعلیٰ ذات کی ہندو آبادی تک محدود تھا اور کافی حد تک یہ چلن اب بھی بنا ہوا ہے۔
تھوراٹ کہتے ہیں،آج بھی ذات ایک اہم کردار نبھاتی ہے اور ہندوؤں میں نسلی سلسلے میں نیچے جانے پر غریبی بڑھتی دکھتی ہے۔ نچلی ذاتوں کے لوگ آج بھی عدم مساوات اور جانبداری کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ جائیداد خریدنے یا کاروبار کرنے کے معاملے میں یہ آج بھی سچ ہے، جہاں آج بھی اعلیٰ ذاتوں کا قبضہ ہے۔ ‘مطالعے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک کی کل جائیداد کا تقریباً 50 فیصد 5 ریاستوں-مہاراشٹر، اتر پردیش، کیرل، تمل ناڈو اور ہریانہ کے پاس ہے۔ رپورٹ کے مطابق سب سے دولتمند ریاستوں میں مہاراشٹر (ملک کی جائیداد کا 17 فیصد)، یوپی (11.6 فیصد) اور کیرل (7.4 فیصد) شامل ہیں، جبکہ سب سے غریب ریاست اڑیسہ (1 فیصد)، جھارکھنڈ (1 فیصد)، ہماچل پردیش (1 فیصد) اور اتراکھنڈ (0.9 فیصد) ہیں۔
قومی چلن کی ہی طرح مہاراشٹر کی ٹاپ 10 فیصد آبادی کے پاس ریاست کی جائیداد کا 50 فیصد حصہ ہے، جبکہ نیچے کی ایک فیصد آبادی کے پاس ریاست کی کل جائیداد کا 1 فیصد حصہ بھی نہیں ہے۔
Categories: خبریں